Baseerat Online News Portal

قدرے مردم بعد مردن ہوتی ہے اس دیش میں …

 

نور اللہ نور

گزشتہ روز عہد ساز شخصیت، اپنے آپ میں ایک محفل کی حیثیت رکھنے والی شخصیت ، ملت اسلامیہ کی آواز، وقت کے آمروں اور سرکش حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر للکارنے والا جواں مرد ، ہم سب کے مشفق و مربی ” امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ” ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے اور اپنے پیچھے وہ خلاء چھوڑ گئے جس کا تدارک مشکل سا نظر آتا ہے.

یقیناً حضرت کا وصال امت پر ایک صبر آزما اور مشکل وقت ہے، جس پر امت کا رنجیدہ ہونا بجا ہے ، حسرت و تاسف موزوں ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے موافق بھی ہے.
حضرت کی رحلت کے بعد شوشل میڈیا اور عوامی سطح پر جس حسرت و تاسف کا اظہار کیا جا رہا ، جس قدر رنج و الم کا اظہار کیا جا رہا اور حضرت کے کئے ہوئے کارناموں کو یاد کیا جا رہا ہے وہ با شعور قوم اور اخلاق مند عوام کے لیے موزوں بھی ہے.
لیکن یہ ساری عقیدتیں، محبتیں ، اور سینہ کوبی وفات کے بعد ہی کیوں ؟ جب آپ ان کے ذریعے ہوئے خلاء پر اتنے رنجور و مغموم ہیں اور ان کی جدائی پر افسردہ ہیں تو آپ نے بقید حیات ان کی قدر کیوں نہیں کی؟ وصال پر ان کی صلاحیتوں کے مدح خواں ہے تو ان کی حیات میں اس سے استفادہ کے بجائے تنقید کا راستہ کیوں اختیار کیا؟
جب امارت میں امیر شریعت کے لئے حضرت کا انتخاب ہوا اس وقت لوگوں نے جو ہنگامہ برپا کیا اور جو رویہ اختیار کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے پھر ” پرسنل لاء” میں سکریٹری کے عہدہ سپرد کیا گیا تو کم ہنگامہ آرائ نہیں ہے اور حال ہی میں نائب امیر شریعت کے انتخاب پر لوگوں نے سوال اٹھایا.
مردوں پر غم کا اظہار اور اس کا ذکر خیر کرنا اسوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کرنا بھی چاہئے لیکن اگر وہ شخص قابل قدر تھا ، ایک انجمن کے مساوی تھا اور بیشتر مسائل کا حل تھا تو اس کو اس کی زندگی میں اس حقیقی مقام نہیں کیوں دیا جاتا، میں نہیں کہتا کہ کہنے والے کی ہر بات درست ہی ہو غلطی کا بھی احتمال ہے مگر اس کی خامیوں پر ادب کے دائرے میں نگہداشت کی جائے اور اسی کے ساتھ کمالات کو اجاگر کیا جائے اور اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے مگر ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے زندگی میں تو ہمیں اس شخص کی ہر بات میں خامی، ارادے میں مکر، مفاد پرستی نظر آتی ہے اور بعد مرگ ہم اس کے کارناموں کے ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے ہیں.

یہ ہمارے ہی اندر کا ناسور نہیں ہے بلکہ دنیاوی امور میں بھی یہی حال ہے کہ جب لوگ بقید حیات ہوتے ہیں ان کی قدر نہیں ہوتی ان کے قابلیت کا اعتراف نہیں ہوتا بلکہ کیڑے نکالے جاتے ہیں اور بعد وفات اس شخص کو ایوارڈ اور اعزاز کے لئے نامزد کیا جاتا ہے.

دیکھیں! معاشرے کا اگر ایسا فرد جس سے معاشرے اور قوم و ملت کا فایدہ ہو اور جس کی قابلیت نفع بخش ہوں ان کی قدر ان کے حیات میں کریں! ان کی زندگی میں ان کو ان کا حقیقی مقام دیں کیونکہ مرنے کے بعد وہ آپ کا ایوارڈ اور اعزاز کسی کام کا نہیں رہتا.

ہم اگر ان آبگینوں کو ان کا حقیقی مقام دیں اور ان فیصلوں اور اقدامات کے ہمدوش ہوں تو یقیناً اس عظیم انسان کو زندگی میں اس کو اس کا حقیقی مل جائے گا اور ملت اس کی خداد صلاحیتوں سے زیادہ مفید ہوسکے گی.
یہ تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ ہم نے اور ہماری سوسائٹی نے بہت سے گوہر نایاب اور عدیم المثال صلاحیتوں کو اس کا حقیقی مقام نہیں دیا اور وہ لوگ جو اپنے آپ میں موجد و مخترع تھے وہ گم نام ہوگئے اور لوگ اس کے استفادے سے محروم رہے.

اس لئے جو رہ گئے ہیں ان کی قدر کریں اور سنبھال لیں! ان آبگینوں کو بکھرنے سے یقیناً اگر ہم نے ایسے گنجہائے گرانقدر کو سنبھال لیا تو ہم ان صلاحیتوں اور قیادتوں سے استفادہ کر کے مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں مگر ہمارا معاملہ ہے کہ "قدر مردم بعد مردن ہوتی ہے اس دیش میں”
آئیے عزم کریں کہ انتشار و افتراق کی بندش سے اوپر اٹھ کر اپنی قیادت کو مضبوط بنائیں اور ایک دوسرے کے ہمدوش ہوکر مستقبل کا سامان کریں!

Comments are closed.