Baseerat Online News Portal

ایک شام باقی احمد پوری کے ساتھ

مبصر : منصور قاسمی ، ریاض سعودی عرب

ادب کیا ہے ؟ اس کی مکمل تعریف تو نہیں کی جا سکتی ؛ تاہم کہہ سکتے ہیں کہ افکار و احساسات کو الفاظ کے پیرائے میں ڈھال کراس طرح اظہار کرنا کہ قارئین و سامعین کیف و سرور میں ڈوب جائیں، ادب کہلاتا ہے ۔ ادب کی صنف میں شاعری کا ایک بڑا مقام ہے ، یہ شاخ نہال غم کو ہری رکھتی ہے اور مسرت درون دل کو ترو تازہ رکھتی ہے ۔ علی سردار جعفری کہتے ہیں :ایک اچھا شعر دن بھر کے تھکے ہوئے دماغ کو فرحت بخشتا ہے،، ۔ ہفت روزہ اردو سفر کوکن ڈیجیٹل ادبی اخبار نے موجودہ عہد کی شاعری کی دنیا کا بڑا نام باقی احمد پوری کے نام ایک شام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ڈاکٹر افروز عالم آگے آئے ،انہوں نے بین الاقوامی معروف شخصیات کو جمع کیا تاکہ باقی احمدپوری کے فن و شخصیت پر عالمانہ اور فاضلانہ گفتگو ہو ،چنانچہ پروفیسر ممتاز احمد کوالالمپور ملیشیا ، پروفیسر مشتاق احمد دربھنگہ بہار ، پروفیسر سعادت سعید لاہور ، پروفیسر زین رامش رانچی جھارکھنڈ، پروفیسر سعید روشن راجستھان ، ڈاکٹر کلیم قیصر گورکھپور ، پروفیسر صابرہ خاتون رانی گنج بنگال ، پروفیسر رانا اعجاز سہیل کویت اور بحیثیت مبصر منصور قاسمی ریاض سعودی عرب سے زوم پر شریک محفل ہوئے ۔ مسند صدارت پر پروفیسر ممتاز احمدجلوہ افروز تھے جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت پروفیسر مشتاق احمد محفل کو رونق بخش رہے تھے ،نظامت کے فرائض معروف شاعر ڈاکٹر افروز عالم انجام دے رہے تھے ۔

محفل کا باضابطہ آغاز منصور قاسمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا ،اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے سب سے پہلے رانا اعجاز سہیل کو باقی احمد کے فن و شخصیت پر گفتگو کی دعوت دی ، رانا اعجاز نے کہا : کویت میں باقی صاحب کو ہم نے قریب سے دیکھا ہے ، کئی دہائیوں سے ہماری شناسائی ہے ،باقی صاحب جو محسوس کرتے ہیں وہی کہتے ہیں ، ان کا انداز والہانہ اور عاشقانہ ہوتا ہے ، وہ کہتے ہیں

اس عہد منافق نے عجب رنگ بھرا ہے جتنا یہاں کھوٹا ہے وہ اتنا ہی کھرا ہے

باقی احمد پوری کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے لاہور کے اطراف کے شعراء کو ایک صف میںلا کر کھڑا کردیا ہے ، وہ ساغرو مینا کی بات بھی کرتے ہیں تو تہذیب کے دامن کو داغدار نہیں ہونے دیتے ہیں ،،۔رانا اعجاز کے بعد پروفیسر سعید روشن تشریف لائے ،انہوں نے ”الفاظ و معانی کا شاعر باقی احمد پوری ،،کے عنوان سے شاندار مقالہ پیش کیا ، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں”مقبول حسین المعروف باقی احمدپوری کو ماہر القادری کی شاگردی حاصل ہے ، غزل ان کا تخلیقی سرمایہ ہے ،ان کے یہاں داخل کرب ابھر کر آتا ہے ، ان کے یہاں زمین کے حوالے ہیں

ہے وطن کیا چیز یہ تو بے وطن سے پوچھے شکر ہے گھر ہمارا ہے شکر ہے

ان کی شاعری معاشرے کی تلخیوں کا آئینہ دار ہے ، فکر وفلسفہ ، فلسفہء حیات ہے ، ان کا لہجہ نرم اور پر اعتماد ہے ۔

اب ناظم محفل نے پروفیسر زین رامش کو مدعو کیا ، زین رامش نے فرمایا : اس محفل میں شرکت اپنے لئے خوش نصیبی سمجھتا ہوں اس کے بعد انہوں نے ”باقی احمد پوری کی غزلیہ شاعری انفرادی و اختصاص ،، کے عنوان سے ایک جامع اور مانع مقالہ پیش کیا ،کچھ اہم زریں اقوال دیکھیں! ”باقی احمد پوری اندرون مانگ افشاں بھرنے کا ہنر جانتے ہیں ،ان کے یہاں جمالیاتی ترکیب ہے ، تغزل کے لفظیات ان کے یہاں پورے آفتاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں، ان کی غزلوں میں وہ سب کچھ موجود ہیں جن کو شاعری کا معراج کہہ سکتے ہیں ،سحر انگیزی ہے ، کیفیات ہیں ، اختصاصات ہیں،،انہوں نے بطور حوالہ مندرجہ ذیل شعر کو پڑھا۔

اس شدت کی آگ لگی ہے بستی میں گیلی لکڑی کو بھی جلنا پڑتا ہے

آگے کہا :اختصار میں نوع بنوع مضامین کو انہوں نے سمیٹ دیا ہے ، ان کے بیشتر اشعار تخلیقی اور فنی دنیا کو آباد رکھے ہوئے ہیں ۔

اب باری تھی ڈاکٹر کلیم قیصر کی ،انہوں نے اپنا مقالہ ” باقی احمد پوری کی غزلوں میں سماجی بنت،،میں لکھا ”میری نظر میں مقبول حسین باقی احمد پوری غزل کا ایک ایسا مستند اور منفرد نام ہے جن کے اشعار میں لمبائی اور چوڑائی نہیں بلکہ گیرائی اور گہرائی پائی جاتی ہے ، باقی صاحب نئی نسل کی روایتی پرورش کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ،وہ ایک پختہ کارشاعر ہیں جن کے یہاں تجربات و مشاہدات کا بڑا دخل ہے ، یہ تجربہ ان کا ذاتی ہوتے ہوئے کائناتی معلوم ہوتا ہے ،ان کے یہاں صالح روایات کی بھرمار ہے ، وہ تازہ فکر کی طرف مائل ہیں ، وہ کہتے ہیں

کرم کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے مقتل میں تری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے

کلیم قیصر کے بعد ناظم صاحب نے پروفیسر صابرہ خاتون مغربی بنگال کو اظہار خیالات کے لئے بلایا ، صابرہ خاتون نے کہا :باقی احمدپوری کے تعلق سے لب کشائی کا موقع ملا یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے ۔کسی نے اردو ادب کی خدمت کی ہے تو زندگی میں ہی ان کو مقام و اعزاز دیا جانا چاہئے ، جشن منانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ، ہم خوش ہیں کہ باقی احمد پوری کا اعزاز ان کی زندگی میں کیا جا رہا ہے ، سائنس کا ایک آدمی ادب سے اتنی محبت کرتا ہے یہ قابل داد ہے اور گیارہ مجموعوں کے خالق ہیں یہ بڑی بات ہے ، ہم پچیس سالوں سے ایک مجموعہ نہیں نکال پائے ،باقی کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے ،ان کے کچھ اشعار مجھے بے حد پسند ہیں ۔

یوں ستمگر نہیں ہوتے جاناں پھول پتھر نہیں ہوتے جاناں

آپ کی محفل میں آکر احتراما ًچپ رہے کیا نہیں ہم نے سنا لیکن جواباً چپ

پروفیسر صابرہ خاتون نے باقی احمد پوری کی دو دن بعد ہو رہی ٧١ واں سالگرہ یاد دلائی اور پیشگی مبارکبادی بھی دی ۔

صابرہ خاتون کے بعد پروفیسر سعادت سعید تشریف لائے اور انہوں نے باقی احمد پوری کے فن و شخصیت کے حوالے سے کہا : باقی احمد پوری تجربات ومشاہدات کی وجہ سے ہر ناکامی میں کامیابی ڈھونڈتے ہیں ، زندگی کے تاریک پہلوؤں میں روشنی تلاش کرتے ہیں ،قارئین کو باور کراتے ہیں کہ مسلسل سفر اور محنت سے زندگی میں ایک دن کامیابی ضرور ملتی ہے ۔انہوں نے باقی صاحب کا یہ شعر پڑھا۔

ساری بستی میں فقط میرا ہی گھر اندھیرا ہے تیرگی سے آپ کو میرا پتہ چل جائے گا

مزید کہا:ان کی غزلوں میں غربت ، درد ، بے کسی ، ہجر و وصال اور عشق و غم پرلطف انداز میں پیش کئے گئے ہیں ۔سہل ممتنع میں قارئین پر خوشگوار اثر مرتب کرتے ہیں ، باقی صاحب غزل کے بطن سے نظمیہ احساس پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں ۔محفل دھیرے دھیرے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی اور اب باری تھی مہمان خصوصی پروفیسر مشتاق احمدکی ،انہوں نے سب سے پہلے اس خوبصورت نشست کے انعقاد کے لئے ڈاکٹر افروز عالم کو مبارکباد ی پیش کی پھر گویا ہوئے ”باقی احمد پوری پاسدار غزل اور محافظ غزل ہیں ،ان کی شاعری کے اندر روشنی ہے ، جو ساخت ہے وہ پر معنی ہے ، ان کی شاعری ایوا ن تغزل میں روشن چراغ ہے ، ان کا شعر ہے

چلنے والوں سے پوچھ کر دیکھو روشنی نہیں ہے دیا ہے عشق

محفل آخری پڑاؤ پر تھی سو صدر محفل ممتاز احمدکواظہار خیالات اور صدارتی خطبہ پیش کرنے کے لئے ناظم محفل نے دعوت دی ‘،صدر محفل نے سب سے پہلے تمام فاضل مقالہ نگاروں کے مقالات پر فردا ًفرد اًقیمتی تبصرہ کیا، اس کے بعد کہا ”باقی احمد پوری کی شخصیت اور فن پر گفتگو سے باقی کی محبت دل میں بڑھ گئی ہے ‘ انہوں نے مزاحا کہا ”باقی کے بارے جنہوں نے جتنی باتیں سنیںوہ سب سنی مسلمان ہو گئے ہیں ،،ہم سلام و عقیدت پیش کرتے ہیں ۔صدر محترم نے بات جاری رکھتے ہوئے ایک بڑی اچھی بات کہی :قرآن نے ادب کے ذریعے زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کی ہے اس لئے شعراء و ادباء کو چاہئے کہ صرف حسن و عشق کی باتیں کہنے کے بجائے زندگی اور سماج کو ادب کے ذریعے رہنمائی کریں جیساکہ علامہ اقبال نے قابل تحسین کام کیا ہے ،،۔اس کے بعد ڈاکٹر افروز عالم نے ہفت روزہ اردو سفر کی جانب سے جبکہ صاحب اعزاز باقی احمدپوری نے اپنی طرف سے تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا ،اس طرح ایک خوبصورت ادبی محفل اختتام پذیر ہوئی ۔

واضح رہے کہ باقی احمد پوری گیارہ شعری مجموعوں ”باقیات ،صد رشک غزالہ ،اب شام نہیں ڈھلتی، محبت ہم سفر میری ،روانی ، والہانہ ، غزل تم ہو ، ہمارا کیا ہے وغیرہ کے خالق ہیں جبکہ اردو شاعری کے ا نتخاب کی پندرہ کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، گاہے گاہے پروگرام کے درمیان باقی احمد پوری اپنا کلام کبھی تحت اللفظ اور کبھی ترنم سے سناتے رہے ، سو آئیے چلتے چلتے آپ بھی ان کے کچھ اشعار سے لطف اٹھائیں !

اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے ترے بغیر گھرکاٹنے کو آتا ہے

ہر جگہ خون کی سرخی ہے گلابوں کی جگہ یہ ترقی ہے تو پھر عہد زوال اچھا ہے

سانسوں کا تسلسل بھی ہے مجبوری ء ہستی جیتے ہیں کہ مرنے کا قرینہ نہیں آتا

محبت نے ہمارے درمیاں کچھ خواب رکھے ہیں اور ان خوابوں کے اندر بھی نہاں کچھ خواب رکھے ہیں

دل کہاں بے سبب لگاتے ہیں حسن بے حد ہو تب لگاتے ہیں

جن کا نام و نسب نہیں باقی وہ بھی شرط نسب لگاتے ہیں

معرفت کے طریق اور بھی ہیں صرف ایک ہی راستہ نہیں ہے عشق

[email protected]

Comments are closed.