Baseerat Online News Portal

رمضان المبارک کی فضیلت اور ہمارا کردار

 

محمد حسن ندوی استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم ماٹلی والابھرو چ

حقیقت یہی ہے کہ جب مہمان کی آمد سے پہلے ان کے اکرام کی تیاری کی جاتی ہے تو اکرام میں کوئ خلل اور کمی نہیں رہتی ،بلکہ کما حقہ ان کا اکرام ہوتاہے،یقینا رمضان المبارک ہرمسلمان کےلئے مہمان کی طرح ہے،اسے آخری نعمت تصور کرکے اس کا استقبال کرناچاہئے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ افطارو سحر اور عید کی تیاری سے زیادہ رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادت کی تیاری پہلے سے ضروری ہے،اور رمضان کے استقبال کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک طرف خیر اور مثبت اعمال نماز پنج وقتہ کا اہتمام کرے،تلاوت کی پابندی کرےاور نفلی روزہ کثرت سے رکھے،دوسری طرف منفی اعمال یعنی محرمات جھوٹ غیبت،خیانت، چھوڑدے اور منکربےحیائ اعمال سے توبہ کرلے،،چوں کہ رمضان سے قبل اگر خیر کا استقبال اور شرسے اجتناب کی عادت ہوگی تو رمضان کے پہلے دن سے رحمت کی بارش ہی نہیں بلکہ عبادت میں عجیب لذت حاصل ہوگی اور لطف وسروربھی

خدا دوعالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

جیساکہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( اولہ رحمۃ واوسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار) کی توجیہ کرتے ہوئے بعض علماء فرماتے ہیں کہ جومسلمان پہلے سے گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے دور رہتے اس پر پہلے رمضان سے اللہ کی رحمت شروع ہو جاتی،جومسلمان معمولی گناہوں میں مبتلا ہو تے تو پہلا عشرہ روزہ رکھنے کے بعد رحمت کادروازہ اس پرکھلتا ہے اورجوبڑےگنہگارہیں تودوسراعشرہ روزہ رکھنے کے بعدجہنم سے خلاصی کا فیصلہ ہوتاہے

افسوس صد افسوس آج رمضان المبارک میں کھانے والی چیزوں کا اہتمام شعبان کے پہلے عشرہ سے شروع ہو چکا ہے،بازار میں بھیڑ ہی بھیڑہے،خریداری ہورہی ہے،(اگر نیت یہ کہ رمضان میں بازار جانا پڑے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ) لیکن عبادت کے اعتبارسےکوئ اہتمام نہیں ،جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجب المرجب کے آغاز سے ہی رمضان المبارک کا انتظار ہی نہیں بلکہ یہ دعا ( اللہم بارک لنافی رجب و شعبان ووبلغنا رمضان)اے اللہ رجب المرجب اور شعبان المعظم میں برکت عطا کر اور رمضان المبارک تک ہمیں پہنچا یعنی زندہ رکھ) کثرت سے پڑھتے،دعا کے علاؤہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزے کا اہتمام شعبان المعظم میں زیادہ کردیتے جیساکہ ایک حدیث میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں قضاروزہ شعبان المعظم میں رکھتی تھی اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر نفل روزہ رکھتے تھے،( مشکوٰۃ شریف)

رمضان المبارک میں خاص طور پر دواعمال زائیدہیں ،ایک دن میں صبح سے شام تک روزہ رکھنا،اور عشا کی نماز کے بعد تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ اداکرنا،اول عمل کی حیثیت فرض کی ہے اور دوسرے کی حیثیت سنت مؤکدہ کی ،لیکن دونوں کا مقصد اللہ کی رضامندی اور تقوی حاصل کرناہے،جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے

( یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون)اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیاہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی ہوجائو)

معلوم ہوا روزہ کامقصد بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اس کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہم میں خوف خدا آجائے اور ہماری زندگی میں تقویٰ آجائے

یاد رہے کہ متقی اس کو نہیں کہتے جو تھجد واشراق کےپابند ہوں لیکن فرائض کو چھوڑتے ہوں حدوداللہ کو پامال کرتے ہوں ،حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہوں بلکہ حقوقِ اللہ کے ساتھ ساتھ بندوں اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال کرتےہوں ،صرف بھوکا پیاسا اور خواہشات کو روک لینا کافی نہیں بلکہ آنکھ ،کان ،منھ ،زبان اور اعضاءوجوارح کا روزہ ہو،آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ بدنگاہی سے بچانے،کان کا روزہ یہ ہے کہ غلط بات کو نہ سنے ،زبان کا روزہ یہ ہے کہ غیبت اور چغلی سے پرہیز کرے،اسی لئے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ( من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ وشرابہ) ابوداؤد شریف) ،جوشص جھوٹ بات اور اس پر عمل نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ صرف کھانا اور پانی چھوڑدے

بہرحال رمضان المبارک میں ہمیں درج ذیل اعمال کا اہتمام کرنا چاہیے

1 روزہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام ،قر آن کریم کو اس مہینہ سے خاص مناسبت ہے،اسی مہینہ میں قرآن پاک کے نزول کا آغاز ہوا ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس ووبینات من الھدی والفرقان ) سورہ بقرہ

2۔ تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ ترجمہ اور مختصر تفسیر کا اہتمام ہرمسجد اورہرگھرمیں کیاجائے تاکہ نزول قرآن مجید کے مقصد سے واقف ہوسکیں ،اور قرآن مجید کو مشعلِ راہ بناسکیں،

3۔ چوں کہ روزہ اور اہمیت قرآن کوبیان کرنے بعد اللہ تعالٰی نے دعا کرنے کی بڑی ترغیب و تحریض کی ہے ( واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذادعان فلیستجیبولی ولیومنوابی لعلھم یرشدون)سورہ بقرہ ) اس لئے اس مہینہ میں بالخصوص افطار سحر کا وقت وقت مستجابہ ہے،ان اوقات کو غنیمت سمجھکر خوب دعاکرنی چاہیے ،یوں تو مسلمان کی ہردعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ وہ وہ اللہ کی نافرمانی اور قطع رحم کا سبب نہ ہو،ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن کی دعا تین صورتوں میں سے ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے کبھی وہی عطا کرتے ہیں جس کی وہ دعاکرتے ہیں اور وہ اس کے لئے موزوں ہے،کبھی اس دعا کےبدلہ مصیبت وآزمائش سے نجات دیتے اور تیسری شکل یہ ہوتی ہے اس دعا کا صلہ مرنے کے بعد جنت میں نوازیں گے اور یہ شکل تینوں میں بہترہوگی کیوں؟ اس لئے کہ یہ بدلہ ہمیشہ اور صدابہار رہےگا ،قرآن میں اسی کو اس طرح بیان کیا ہے ( فلھم اجر غیر ممنون)

رمضان کا ہرلمحہ قیمتی بیش بہا ہے دعا کے لئے مناسب ہے لیکن خاص طورپر افطار اور سحری سے پہلے کا وقت وقت مستجابہ ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ دونون قیمتی وقت کوہم لوگ افطاری اور سحری کی نذر کردیتے ہیں ،یہ بڑی محرومی کی بات ہے بہرحال اللہ تعالیٰ جس کو توفیق دے کثرت سے یہ دعا کرے ( اللھم انا نسالک الجنۃ ونعوذبک من النار) اے اللہ ہم آپ سے جنت کا سوال کرتےہیں اور جہنم سے پنا ہ چاہتے ہیں

4۔ حدیث میں ہے( فتحت ابواب الجنۃ) جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اورجھنم کے دروازے بندکردئے جاتے ہیں اسکا،مطلب یہ ہے کہ خیروبھلائ کے راستے ہموارکردئے جاتے،اسی لئے رمضان میں فاسق وفاجرشخص کو بھی توبہ کی توفیق مل جاتی ہے ،اوران میں بھی غریبوں کی مدد ونصرت کا جزبہ موجزن ہوجاتا،اور جھنم کے دروازے بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور خیر کے کاموں کو انجام دینے میں جو چیزیں حاجز ورکاوٹ بنتی ہیں ان ہیں خش وخاشاک کی طرح اللہ تعالیٰ صاف کردیتے اس لئے حدیث میں ہے کہ رمضان میں شیطان مقیدکردئے جاتےہیں(کان اول لیلۃ من شھر رمضان صفدت الشیاطین”””””( مشکوٰۃ شریف/173)

اللھم وفقنالما تحب وترضی

Comments are closed.