ماہ رمضان المبارک مغفرت و بخشش کا بہترین ذریعہ

از✍ عبدالواحد القاسمی مظفرنگری
ماہِ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ یہ مہینہ اپنی خاص رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور خوشیوں کے ساتھ ہمارے درمیان حاضر ہوتا ہے۔ اسلام کے اندر رمضان المبارک کا مہینہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں تک کہ محبوب کبریا، تاجدار انبیاء اور امام الرسل ﷺ نے رمضان المبارک کے روزہ کو اسلام کے اہم ارکان میں سے تیسرا رکن قرار دیا ہے۔ جو بھی شخص اس کے فرض ہونے کا انکار کرے گا وہ مسلمان نہیں رہے گا اور جو شخص بلا عذر اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتے گا وہ سخت گنہگار اور فاسق و فاجر گردانہ جائے گا۔ رمضان المبارک اپنی خصوصیات اور فضائل و برکات کی وجہ سے اپنی امتیازی شان رکھتا ہے، جو خوشیاں اور رحمتیں اس متبرک مہینے میں اللہ کی جانب سے عطاء کی جاتی ہیں وہ دیگر مہینوں میں حاصل نہیں ہوتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، دوزخ کو بند کردیا جاتا ہے اور شیاطین کو قید میں ڈال دیا جاتا ہے، اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا ہے، رمضان المبارک میں ایک بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شب قدر) اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو عطاء فرمائی ہے، جو قرآن کریم کے ارشاد کی روشنی میں ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر ہے، اس بابرکت ماہ میں اللہ تعالی اہل ایمان کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں اور اسی مبارک مہینے میں اللہ تعالی نے انسانوں کی راہ ہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی مقدس اور عظیم کتاب کو نازل فرمایا جس کی بدولت انسانی زندگی میں ایمان و یقین کا نور پیدا ہوتا ہے، امن و امان کی فضا قائم ہوتی ہے، اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں ایک مخصوص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیا گیا جو تراویح کی شکل میں ملت اسلامیہ میں رائج ہے، دن کے روزوں کے ساتھ رات کی تراویح کی برکات اور نورانیت مل جانے سے اس ماہ مبارک کی نورانیت اور تاثیر میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے جس کو اپنے اپنے ادراک و شعور اور احساس کے مطابق ہر وہ بندہ محسوس کرتا ہے جس کا ان باتوں سے ادنی سا بھی تعلق اور مناسبت ہو اور جس کے قلب میں ایمان و یقین کی ہلکی پھلکی سی بھی روشنی کی کرن موجود ہو۔
رسول اکرم ﷺ نے روزہ کی فضیلت اور قدر و اہمیت بیان کرتے ہوے فرمایا۔ "آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب روزہ کے نتیجہ میں سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے” خدائے وحدہ لا شریک لہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ” روزہ عام قوانین سے بالاتر ہے، در اصل بندہ کی طرف سے یہ میرے لئے ایک تحفہ(گفٹ) ہے اور میں جس طرح چاہوں گا اس کا اجر و ثواب خود بطور خاص عطاء کروں گا، میرا بندہ میری رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنی خواہش ترک کردیتا ہے اور اپنا کھانا پینا تک چھوڑ دیتا ہے بس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی نفس کشی اور پر خلوص قربانی کا صلہ اور بدلہ عطاء کروں گا۔”
روزہ داروں کے لیے دو طرح کی مسرتیں ہیں، ایک افطار کے وقت کی مسرت اور دوسری جب وہ اپنے مولی کے حضور بازیابی کا شرف حاصل کرے۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک و عنبر کی خوشبو سے بھی زیادہ پیاری ہے یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جس قدر عمدہ ہے اللہ تعالی کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دنیا میں نفس و شیاطین کے شدید حملوں سے بچاؤ کے لیے اور آخرت میں جہنم کی ہولناکیوں سے تحفظ کے لیے ایک مؤثر ذریعہ اور ایک مضبوط ڈھال ہے، جب تمہارا روزہ ہوتا ہے تو چاہئے کہ بیہودگی اور فحش باتوں(گالی گلوچ وغیرہ) پرہیز کریں، شور و شغب سے بچیں۔ اگر کوئی دوسرا آدمی گالی گلوچ یا جھگڑے کا برتاؤ کرے تو کہہ دیں کہ میں روزہ سے ہوں۔
اللہ تبارک و تعالی نے اپنے بندوں کی بخشش کی خاطر اس قدر سامان مہیا فرمایا ہے، کہ میرے بندے میرے محبوب بن جائیں، کہیں رمضان المبارک کی شکل میں، کہیں شب برات و شب قدر کی شکل میں اور کہیں دیگر شکلوں میں، بلکہ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی مغفرت اور انہیں اپنا محبوب بنانے کی خاطر بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں، لیکن ہم نافرمان گوشت کے لوتھڑے اور خدا و رسول ﷺ کے مجرم وباغی انسان اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں اور اس رحمت و بخشش کے مقدس مہینے کو بھی کوتاہی اور غفلت کے اندر گزار دیتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالی ہر روز رات کے آخری پہر میں سمائے دنیا پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اپنے بندوں کو نداء لگاتے ہیں کہ "ہے کوئی مصیبت کا مارا ہوا کہ اس کی مصیبت دور کی جائے، ہے کوئی رزق کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانے والا کہ اس کو روزی دی جائے، ہے کوئی طالب اولاد کہ اس کو اولاد جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا جائے، ہے کوئی مدد طلب کرنے والا کہ اس کی مدد و نصرت فرمائی جائے۔ لیکن ہم ناکارہ اور گناہوں کے پتلے بندے اس وقت خواب غفلت میں مبتلا رہتے ہیں۔ پورا سال اللہ کے در پر سجدہ ریز ہونے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی اور پھر شکایت کرتے پھرتے ہیں کہ اللہ ہماری سنتا نہیں ہے یعنی نعوذ باللہ اس خدائے بزرگ و برتر کو قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے جو ہر وقت اپنے بندوں پر مہربان رہتا ہے۔ اللہ نے اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش کی خاطر رمضان جیسا مقدس اور بابرکت مہینہ عطاء فرمایا تاکہ ہم اپنی بخشش کرا سکیں لیکن ہم اس مہینے میں بھی اسی طرح غفلت و کوتاہی میں پڑے رہتے ہیں، نماز ہم نہیں پڑھتے روزے ہم نہیں رکھتے، ٹی وی وی سی آر ہمارے گھروں میں چلتا رہتا ہے، فرض کی کھلے عام دھجیاں اڑا دیتے ہیں یعنی کہ خدا سے مقابلہ کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ اور ہم طالب ہیں نصرت خداوندی کے، ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ابابیلوں کا لشکر بھیج کر ظالموں کو نیست و نابود کردے۔
ایک طرف ہم خدائی احکام کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور دوسری طرف ہم اللہ سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
یاد رکھو مسلمانوں! اگر ہماری یہی حالت رہی اور ہم نے خدائی احکامات کی قدر نہیں کی تو ہمیں ان سے بھی برے اور بدتر حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
اگر دنیا و آخرت کی کامیابی درکنار ہے تو ہمیں شریعت اسلامیہ کو مکمل طور پر سینے سے لگانا ہوگا، اللہ نے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عطاء فرمایا ہے اس کی قدر کرنی ہوگی، پچھلے رمضان میں نہ جانے کتنے لوگ ہمارے ارد گرد بسے ہوے تھے لیکن اب ان کا ٹھکانہ قبر بن چکا ہے، اب وہ رمضان المبارک جیسی نعمت سے محروم ہوچکے ہیں اور ہوسکتا ہے اگلے رمضان تک ہمارا ٹھکانہ بھی قبر بن جائے، اس لئے اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی بخشش اور مستحق جنت ہونے کی فکر کریں!
اللہ ہمیں اس مہینے کی قدردانی کے ساتھ ساتھ تمام خدائی احکامات پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العلمین
Comments are closed.