روزہ

حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل،چیرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن
موبائل نمبر:9431432702

رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے، اس میں ایک نفل کاثواب فرض کے برابر اورایک فرض کاثواب ستر فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ہرمسلمان مردوعورت،عاقل وبالغ پررمضان کا روزہ فرض ہے۔رمضان شروع ہوتوہربالغ وعاقل مسلمان یہ سمجھتے ہوئے روزہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کا روزہ ہم پر فرض کیا ہے اوراس کے ذریعہ اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل ہوگی۔روزہ اسلام کاایک اہم رکن ہے،روزہ کی فرضیت کوبتاتے ہوئے اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے:اے لوگو! جوایمان لائے ہو تم پرروزے فرض کردئیے گئے،جس طرح تم سے پہلے جو لوگ گزرے تھے،ان پر فرض کیے گئے تھے؛تاکہ تم بچ سکو۔ چند مقرر دن ہیں،پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو،یاسفرپرہوتودوسرے دن میں اتنی ہی تعداد پوری کرلو اور جولوگ روزہ رکھنے کی قدرت بمشکل رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تووہ ایک مسکین کو کھانا کھلا کر فدیہ دیں اور جو اپنی مرضی سے زیادہ بھلائی کرے،وہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے،اگر تم سمجھو۔(سورۃالبقرۃ:۳۸۱۔۴۸۱)
دوسری جگہ اللہ نے یہ فرمایا ہے:سوجوکوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کوتوضرورروزہ رکھے اس کے اور جو کوئی بیمار، یا مسافرہوتواس کوگنتی پوری کرنی چاہیے۔(سورۃ البقرۃ:۵۸۱)
عبادتوں میں سب سے زیادہ اثرانسانوں کے جسم،روح اوراخلاق پربیک وقت روزہ کاپڑتاہے،یہ انسان کوکئی طرح کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتاہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے:”روزہ رکھو،صحت مندرہوگے“۔(کشف الخفاء ومزیل الالباس عما اشتھرمن الاحادیث علی ألسنۃالناس للشیخ إسماعیل العجلونی:۱/۹۳۵)
اگرروزہ میں آداب وارکان کوملحوظ رکھاجائے تویہ تقویٰ پیداکرتاہے اورتقویٰ اصلاح کی بنیادہوتی ہے اورتقویٰ کے نتیجہ میں ایسی سعادت اورخوش بختی نصیب ہوتی ہے،جس سے سارے غم اورخوف وہراس مٹ جاتے ہیں۔اللہ جل شانہ فرماتے ہیں:(جوکوئی تقویٰ اختیارکرے گااورنیک عمل کرے،اسے نہ توکوئی خوف ہوگااورنہ رنج وغم۔(سورۃالأعراف:۵۳)
غرضیکہ روزہ اخلاق کوسنوارنے اوراچھے کاموں پرآمادہ کرنے میں اہم کردار نبھاتا ہے۔روزہ کھانے،پینے اورمباشرت وغیرہ سے رکنے کانام ہے اوریہ سب خواہشات اگر حد بڑھ جائیں تو یہ انسان کورسوائی اورذلت کے گڑھے میں گرانے کاسبب بنتی ہیں۔اس کے برخلاف روزہ انسان کوعفت وپاکیزگی کاعادی بناتاہے اوراسے نفس کے وسوسوں اورشہوت انگیزیوں سے محفوظ رکھتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر ایسا بالغ مردو عورت،جو رمضان کا مہینہ پائے،اس کے اوپر رمضان کے پورے مہینہ کا روزہ رکھنافرض ہے،جولوگ رمضان کا مہینہ پانے کے باوجود روزہ نہ رکھیں،وہ حقیقت میں بڑے بدقسمت ہیں،قیامت کے دن روزہ چھوڑنے کا گناہ عذاب کی شکل میں آئے گا؛اس لیے رمضان کا روزہ کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہئے، البتہ جو شخص اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتاہو،یا ایسا بوڑھا کمزور شخص ہو،جس کی صحت روزہ کو برداشت نہ کرسکتی ہو،یا کوئی مسافر ہو، یا کوئی ایسی خاتون ہو،جوایام حیض ونفاس میں ہو، ان کے لیے اجازت ہے کہ اس حالت میں روزہ نہ رکھ کر رمضان کے بعد اس کی قضا کرلیں۔ روزے کا وقت شرعی طورپر صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہے، لہٰذا جو کوئی ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ رکھے گا اور اپنے آپ کو کھانے پینے اور مباشرت سے بچائے گا اور دیگر گناہوں سے بھی بچے گا تو اللہ رب العزت اس کے روزہ کونہ صرف قبول کرے گا؛بلکہ اس کے سارے گناہوں کو معاف کرے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:جس نے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ روزہ رکھا،اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے گئے۔(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب صوم رمضان،رقم الحدیث:۸۳)
مگرایمان واحتساب کا روزہ اسی وقت ہوگا،جب کہ وہ کامل اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے رکھے اور اپنے آپ کو غیر اخلاقی کاموں سے بچائے۔لڑائی جھگڑا، غیبت، جھوٹ اور فتنہ وفساد سے بچے؛کیوں کہ روزے کا مقصد تقویٰ ہے اور تقویٰ بُری باتوں اور بُرے کاموں سے بچ کر اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے؛اس لیے روزے داروں کو چاہئے کہ وہ روزہ کے مقصد پرنگاہ رکھیں اور غلط کاموں،یا کسی طرح کے گناہ کے ذریعہ اپنے روزہ کو خراب نہ کریں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:بہت سے روزہ دار ایسے ہیں،جن کو روزہ کے نام پر صرف بھوک پیاس ملتی ہے اور بہت سے رات کو نماز پڑھنے والے ایسے ہیں،جن کو قیام لیل کے نام پررات کا جاگنا ہی ملتاہے۔(سنن ابن ماجۃ،باب ماجاء فی الغیبۃ والرفث للصائم،رقم الحدیث:۰۹۶۱)
دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:روزہ گناہوں سے ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ گناہوں کاکام نہ کرے،نہ جہالت کی بات کرے، اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے،یاگالی گلوج کرے تووہ اس سے دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں،قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، روزے دار کے منہ کی بواللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے؛کیوں کہ روزہ دار نے اللہ کی خاطر کھانے پینے اور شہوت کو ترک کردیاہے۔(صحیح البخاری، باب فضل الصوم،رقم الحدیث:۴۹۸۱)
روزہ درحقیقت ایک ایسی عبادت ہے،جس کا کوئی بدل نہیں ہے،ہرعبادت کی اپنی ایک شان اور لذت ہے،روزہ کی شان سب سے جداگانہ ہے،ہرعبادت ظاہری عمل پرمبنی ہے؛لیکن روزہ داخلی عبادت ہے،اگر کوئی چھپ چھپا کر کھاپی لے تواسے اللہ جل شانہ کے سوا کون دیکھ سکتاہے؟مگربندہ اللہ کی اطاعت اورخوشنودی کے لیے کھانے پینے کوچھوڑتاہے؛اس لیے اس کااجرتمام عبادتوں سے زیادہ ملتاہے۔ حدیث قدسی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کافرمان ہے:بنی آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہے،سوائے روزہ کے؛کیوں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی ا س کا بدلہ دوں گا۔(صحیح البخاری،باب ہل یقال رمضان،رقم الحدیث:۴۰۹۱)
اللہ کی رضاکے حصول اور دنیا کی محبت کم کرنے کے لیے روزہ ہردور کی شریعت میں فرض کیاگیا تھا اور ہر امت کو روزہ رکھنے کا حکم تھا،البتہ روزہ کی صورت اور مدت الگ الگ تھی،اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ پر رمضان المبارک کا روزہ فرض کیا ہے۔ارشاد فرمایا:جوشخص رمضان کا مہینہ پائے،اس کا روزہ ضرور رکھے۔(سورۃ البقرۃ:۵۸۱)
رمضان کی عظمت وبرکت کا کیا پوچھناکہ اس میں ہرطرح کی نیکیاں پروان چڑھتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں سے جکڑ دیئے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری،باب ھل یقال رمضان،رقم الحدیث:۹۹۸۱)
روزہ کی دواہم سنتیں ہیں،ایک سحری اور دوسری افطار، سحری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور برکت کاذریعہ ہے۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:سحری کھاؤ؛کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔(صحیح البخاری،باب برکۃ السحور من غیرإیجاب،رقم الحدیث:۳۲۹۱)
اگر سحری کھانے کی خواہش نہ ہو،پھربھی ایک دو خرما(کھجور)،یاایک گلاس دودھ،یا پانی پی لے؛تاکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے محروم نہ رہے۔سحری کاوقت صبح صادق سے پہلے پہلے ہے؛اس لیے وقت سے پہلے سحری کھانے کو مکمل کرلیناچاہیے۔
دوسری سنت افطارہے،افطارکاوقت غروب آفتاب ہے؛اس لیے غروب کے بعد افطار میں تاخیرنہیں کرنی چاہیے؛ بلکہ جلدی کرنی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تک لوگ افطا رمیں جلدی کریں گے تووہ فائدے میں رہیں گے اور یہود افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔(سنن ابن ماجۃ،باب ماجاء فی تعجیل الإفطار،رقم الحدیث:۸۹۶۱)
روزہ کی حالت میں تلاوت قرآن پاک کااہتمام کرناچاہیے؛کیوں کہ رمضان المبارک کی فضیلت نزول قرآن کی وجہ سے بھی ہے،اسی مبارک مہینہ میں قرآن نازل ہوا۔اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:رمضان وہ مہینہ ہے،جس میں قرآن نازل کیاگیا۔(سورۃ البقرۃ:۵۸۱)
اللہ رب العزت نے رمضان کے آخری عشرہ میں خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے؛ کیوں کہ اسی عشرہ میں لیلۃ القدرآتی ہے،جو ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل ہے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کوخطاب کرتے ہوئے فرمایاہے:یہ ماہ مبارک آچکاہے،اس کی ایک رات ایسی ہے،جوہزارمہینوں کی راتوں سے افضل ہے،جواس رات سے محروم رہا،وہ ساری بھلائیوں سے محروم رہااوراس کی بھلائیوں سے بدنصیب ہی محروم رہ سکتاہے۔(سنن ابن ماجۃ،باب ماجاء فی فضل شہررمضان،رقم الحدیث:۴۴۶۱)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:جب رمضان المبارک کاآخری عشرہ آتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازار کس لیتے، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل خانہ کو جگاتے۔(صحیح البخاری،باب العمل فی العشرالأواخر من رمضان،رقم الحدیث:۴۲۰۲)
اسی آخر ی عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم سنت اعتکاف کااہتمام ہے، مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اعتکاف فرماتے اورصحابہ کرام کواس کی ترغیب دیتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے،جب آپ کا وصال ہوگیا توآپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی تھیں۔(سنن أبی داؤد،باب الاعتکاف،رقم الحدیث:۲۶۴۲)
محلہ اورگاؤں دیہات کی پوری بستی کی کسی ایک مسجد میں اعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ ہے۔مردوں کے لیے اعتکاف کی جگہ مسجدہے ا ورعورتوں کے لیے اعتکاف کی جگہ گھر ہے،اس اعتکاف کی سنت اداکرنے کے لیے روزہ دار ہونا ضروری ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی روزہ نہ رکھے، مگر اعتکاف کرے،معتکف کو اعتکاف کی حالت میں صرف کھاناپیناجائزہے،بیوی سے مباشرت صحیح نہیں ہے،اس سے اعتکاف ختم ہو جائے گا،اسی طرح معتکف کا بلاضرورت طبعی اور شرعی کے مسجد سے باہر نکلنااعتکاف کے منافی ہے۔
بہرحال رمضان کے روزہ کواللہ کی رضاکے لیے رکھنااوراس کاپورااہتمام کرنا،دن میں روزہ کے ساتھ ذکروتسبیح اورتلاوت کااہتمام کرناچاہیے اوررات میں تراویح کی نمازوں کے ساتھ تہجدکااہتمام بھی کرناچاہیے۔اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک کی فضیلتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے اور رمضان المبارک میں جب کہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے، آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی،حضرت جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، آپ سے قرآنِ کریم کا دور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی وسخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے؛(صحیح البخاری،کیف کان بدء الوحی إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،رقم الحدیث:۶)اس لیے اس مہینہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور وجوبی صدقات تو ادا کرناانسان کے ذمہ ہیں،ان کے ساتھ ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ نفلی صدقات کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کسی نادار روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، کسی محتاج کی مدد کرنا، کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا، یتیم اور بیواؤں کا خیال رکھنا وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں کہ انسان ان کو اس ماہِ مقدس میں ضرور ادا کرے۔
یہ رمضان بھی تمام ملکوں اورہمارے ملک ہندوستان میں ایسی حالت میں آرہا ہے،جس میں کووڈ۹۱(انیس)کی وبائی بیماری عام ہورہی ہے؛اس لیے حفظان صحت کے لیے نماز واجتماعی افطار میں کووڈ کے ضابطوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
رمضان کے علاوہ سال کے باقی مہینوں میں نفلی روزہ کا اہتمام رکھنا چاہیے،یہ اللہ کی رضا کا بڑا ذریعہ ہے،اس سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے اور دنیا کی محبت اور شیطانی جال سے بچنا نصیب ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر ہر مہینہ میں چند دن روزہ رکھتے تھے، خاص طور پر قمری مہینہ کے ۳۱، ۴۱ یا ۴۱، ۵۱ کو روزہ رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اسی طرح یوم عاشورہ کے روزہ کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہوئی ہے؛اس لیے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔(آمین)

 

Comments are closed.