رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں

قاضی محمد ریاض ارمان القاسمی
مدرسۃ الصالحات ،اندھیری ممبئی
موبائل نمبر:۸۵۲۹۱۵۵۵۳۵
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی رحمتوں ، برکتوں کا علم ہو تا، تو وہ خواہش اورتمنا کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو (رواہ البیھقی وابن خزیمہ)۔اسی طرح مشہور حدیث شریف ہے کہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے ۔ مومن کا مقصد زندگی ہی عبادت اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، برکتوں کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے ۔ اللہ کی بے شمار نعمت واحسان میں سے ایک احسان وکرم یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں ان تمام چیزوں کو اکٹھا کر دیا جس کی ضرورت ہم مسلمانوں کو ہو سکتی تھی ۔
رمضان المبارک کی اہمیت کا اندازہ ہم اس حدیث سے بھی لگا سکتے ہیں کہ :رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :منبر کے پاس آجاؤ،صحابہ رضوان اللہ اجمعین منبر کےپاس تشریف لے گیے ،جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم منبر کے ایک زینہ پر چڑھے تو فرمایا :آمین ۔ دوسرے زینہ پر چڑھے تو فرمایا: آمین۔ اور جب تیسرے زینہ پر چڑھےتوفرمایا :آمین ،جب منبر پر سے اترے تو صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے فرمایا کہ یا رسول اللہ !ہم نے آج آپ سے ایک ایسی چیز سنی، جو پہلے نہیں سنا کرتے تھے ۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل امین میرے پاس آئے اور کہا جسے رمضان کا مہینہ ملا، لیکن اسے بخشا نہیں گیا ،وہ بد قسمت ہو گیا۔ میں نے کہا آمین۔
خود نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ کی عظمت وبرکت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ،اے لوگو !تمہارے سروں پر ایک بابرکت اور عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہو نے والا ہے ،اس میں ایک ایسی رات ہے ،جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کا روزہ فرض اور اس کی رات میں نماز کو نفل قرار دیا ہے ،اگر کوئی اس میں نفل ادا کرے گا اوراللہ کا قرب حاصل کرتا رہے ،تو وہ ایسا ہے جیسے اس ماہ مبارک کے علاوہ میں فرض ادا کرنے والا ہو ،اور جو کوئی اس میں فرض اد اکرتا ہے،وہ ایسا ہے جیسے اس کے علاوہ کسی ماہ میں ستر فرض ادا کیا ہو،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔یہ غمخواری کا مہینہ ہے ۔یہ وہ مہینہ ہے کہ ا س میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتاہے ۔جس نے اس ماہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرا یا ،اس کے گناہوں کی مغفرت ہے ،اور اسے جہنم سے رہائی کی بشارت ہے ،اور اس کے لئے وہی ثواب ہے جو روزہ دار کو ہے ،مگر روزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہوگا ۔کسی نے سوال کیا یا رسول اللہﷺ ! ہر ایک کو اتنی وسعت کہا ں کہ و ہ روزہ دار کو افطار کرائے ؟آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جو ایک کھجور کھلا کر، ایک گھونٹ پانی یا لسی پلا کر افطار کرادے ؛یہ مہینہ !اس کا پہلا حصہ رحمت ہے ،درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے ۔اس ماہ میں جس نے اپنے خادم کے کام میں تخفیف کر دی ،اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں کے بوجھ سے ہلکا کردیں گے ،اور جہنم سے آزاد فرما دیں گے ،اس مہینہ میں چار کام کثرت سے کرو، دو کام وہ ہیں ،جن سے تم اپنے رب کو راضی کر لو گے ،اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز اور بے پرواہ نہیں ہو سکتے ،وہ کام جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو،وہ یہ ہیں لاالٰہ الا اللہ کی گواہی دو ،اور اس سے مغفرت مانگو ،اور وہ کام جن سے تم کو بے نیازی نہیں ہو سکتی ،وہ یہ ہے کہ اللہ سےجنت کا سوال کرو اور جہنم سے اس کی پناہ چاہو ،جس نے روزہ دار کو پانی پلایا ،اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائیں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی (رواہ السنن البیھقی وصحیح ابن خزیمہ )۔
یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نوع بنوع عبادتوں کو جمع فرما دیا ہے ، روزہ ،تراویح ،اعتکاف ،شب قدر ،عبادت وریاضت اس مہینہ کا خاصہ ہے ہی۔ ساتھ ساتھ مسلمان ا س ماہ میں تہجد کا اہتمام بھی کرتے ہیں ،اسی طرح بر صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت اسی مہینہ میں زکوۃ کے نکالنے کا اہتمام کرتی ہے ، روزہ کے شکرانے کے طور پر عید سے قبل صدقۃ الفطر کا نکالنا یہ سب رمضان المبارک کی برکت اور رحمت خداوندی کا نتیجہ ہے ۔
ہمارے اکابرین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ پورے سال ہی رمضان المبارک کا انتظار کیا کرتے تھے ، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اس متبرک مہینہ کے استقبال میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں،ہم اپنے آپ کو دنیاوی جھمیلوں سے پہلے ہی فارغ کرلیں ،جن کے پاس مال کی فراوانی ہے، وہ اپنے کام کو سمیٹ لیں ،جو لوگ اپنے آفس سے چھٹی لے سکتے ہوں ،وہ اس مہینہ کے اہتمام میں چھٹی لے لیں ،جو اپنے کام کے اوقات کو مختصر کر سکتے ہوں وہ مختصر کر لیں ،جو جماعت میں جا کر اپنے وقت کو صحیح استعمال کرنا چاہتے ہوں وہ اپنا نظام بنا لیں ،جو لوگ لاک ڈاون کی وجہ کر اپنے اپنے گھروں سے کام کرتے ہوں ،اور ان کا آمد ورفت کا وقت بچتا ہو ،وہ اس میں تلاوت قرآن کریم اور ذکر واذکار کے لیے نظام بنائیں ،جو کسی پیر ومرشد سے وابستہ ہوں وہ اپنے پیر کے پاس وقت گزارنے کا نظام بنائیں ،یا اپنے مرشد کے مشورہ سے پورے رمضان المبارک کی ترتیب بنالیں،صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک کا بھی ایک نظام الاقات بنایا جاسکتا ہے کہ پانچوں نمازوں کے درمیان کونسی کونسی عبادت کرنی ہے ،اور تراویح کے بعد کا وقت کس عبادت میں استعمال کرنا ہے اسی طرح تہجد اور سحری کے وقت کا بھی صحیح استعمال ہو اس کی فکر بھی کرنی چاہئے ،تاکہ ہم نیکی کے سیزن کا صحیح طور پر استعمال کرسکیں۔
رمضان المبارک کے تعلق سے ہم صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ مہینہ عبادتوں وریاضتوں کاہے ،اور ہے بھی یہ مہینہ عبادتوں اور اپنے رب کو راضی کرنے کا ،لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ روزہ نام ہے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور صنفی ضرورت کے پورا کرنے سے رکنےکا۔اور روزہ کی تعریف بھی یہی ہے ،لیکن پکے ،سچے، مومن ،متقی سے رمضان المبارک کا مہینہ اس سے زیادہ کا تقاضہ کرتا ہے وہ یہ کہ جب ہم عام حالات میں اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کھانا پینا اور جماع سے روزہ کی حالت میں رک جاتے ہیں تو وہ چیزیں جو پورے سال ہر حال میں حرام ہیں ،یعنی جھوٹ ،غیبت، چغل خوری ،سود خوری ،رشوت خوری ،لڑائی، جھگڑا ،مال حرام کا کھانا ،حسد، بغض ،بد نظری وغیرہ ،ہمیں ان سے بھی رکنے کی پوری فکر کرنی چاہئے تبھی جا کر ہم روزہ کا پورا پورا حق اد اکرسکتے ہیں ،ورنہ منھیات سے رکے بغیر روزہ صرف او ر صرف بھوکے رہنے کا نام ہوگا ،جس کے قبولیت کی امید کم ہی ہوگی ۔
ہم میں سے جن لوگوں کی کمائی حلال نہیں ہے ،یا اکثر کمائی تو حلال ہے ،لیکن کچھ فیصد حرام مال کی بھی آمیزش ہے ،یا آدھی کمائی حلال ہے اور باقی آدھی حرام ہے ،ان سے گزارش ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ رمضان کے مہینہ میں ایک لقمہ بھی حرام کا پیٹ میں نہیں جانے دیں گے ،اس لیے کہ حرام کھانے کے ساتھ افطار کیا گیا ،یا سحری حرام مال سے کھائی گئی ،تو روزہ کی ابتداء وانتھاء دونوں خراب ہوگئی ہو ، فانی یستجاب لہ الدعاء تواس کی دعا کہاں قبو ل ہوگی ،جیسا کہ حضور پر نور ﷺ کا ارشاد گرامی قدر ہے:
عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:أیھا الناس إن اللہ طیب لا یقبل إلا طیبا وإن اللہ أمرالمؤمنین ما أمربه المرسلین فقال: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔ وقال يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمدیدیه إلی السمآء یارب یارب و مطعمه حرام و مشربه حرام و ملبسه حرام و غدي بالحرام فأنی یستجاب لذالك”(صحیح مسلم۱۰۰۷)
”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں! اللہ تعالیٰ اچھے ہیں او راچھی چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو بھی حکم دیا ہے جورسولوں کو دیا۔ فرمایا، ”اے میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو مجھے اس کی خوب خبر ہے۔” نیز فرمایا ہے، ”اے ایمان دارو! ہم نے تمہیں جو کچھ دیا اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ”
اس کے بعد آپؐ نے ایسے آدمی کا ذکر کیا جوطویل سفر کرے، گرد آلود اور پراگندہ کیفیت ہو، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر ”یارب یارب” پکارے مگر اس کا حال یہ ہو کہ اس کا کھانا، پینا او رلباس حرام ہواور اس نے حرام غذا کھائی ہو تو دعا کیسے قبول ہو؟”لہذا ہم چاہئے کہ ایسی مبارک گھڑی میں ہماری دعائیں سنی جائیں تو ہمیں اپنا کھانا پینا حلال وپاکیزہ بنا نا ہوگا ۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں پورے طور پر حلال چیزوں کے استعمال کی صورت یہ ہے کہ جن کی آمدنی اکثر حلال ہے ،وہ اس مہینہ میں کم سے کم پورے طور پر حلال کمائی کا استعمال کریں، اور جن کی کمائی حرام ہے وہ کسی سے قرض لے لیں اور اس کو استعمال کریں ،اس نیت سے کہ اس مہینہ میں حلال کھاوں گا تو اللہ تعالیٰ آئندہ بھی حلال کھانے کی توفیق دے گا ۔
میں اپنی اس تحریر کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ملفوظات کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں ۔
فقہاء رحمھم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شئی قرض کے روپیہ سے خریدی جائے اور وہ قرض حرام آمدنی سے ادا کر دیا جائے ،تو اس شئ میں خبث کا اثر نہیں آتا ،گو حرام آمدنی کا گناہ ہوگا تو آپ یہ کیجئے کہ رمضان بھر کے لئے تمام اشیاءکھانے پینے کی نقد نہ خریدئیے بلکہ کسی مہاجن سے یا کسی دوسرے مسلمان سے جس کی آمدنی حلال ہوقر ض لے کر تمام سامان خرید لیجئے ،اور پھر وہ قرج جہاں سے چاہے ادا کر دیجئے ،اس طور سے آپ حرام مال کے اثر سے رمضان بھر کے لئے بچ سکتے ہیں ۔اس صورت میں گو حرام روپیہ سے قرض ادا کرنے کا گناہ ہوگا مگر حرام کھانے سے تو بچ گیا (احکام رمضان ،صفحہ ۴۲)۔
Comments are closed.