Baseerat Online News Portal

روزہ کے آداب

مولاناندیم الواجدی
اسلام میں صرف عبادت مطلوب نہیںہے، بلکہ ظاہر وباطن میں عبادت کا شریعت کے مطابق ہونا بھی مطلوب ہے، ایک مسلمان کے لیے تمام عبادات اور معاملات میں قابل اقتداء اور لائق اتباع ہستی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی اتباع کو آخرت کی کامیابی کا مدار قرار دیا گیا ہے، فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ(الاحزاب: ۲۱) ’’ تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے ، ‘‘آج ہم میں سے بہت سے مسلمان روزہ رکھتے ہیں، لیکن ان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو روزہ رکھنے کے عمل کو سنت کے مطابق بنانے کا اہتمام کرتے ہیں ، یاد رکھئے دس پندرہ گھنٹے بھوکا پیاسا رہنے کا نام روزہ نہیں ہے، بلکہ روزہ ضبط نفس اور تقوی کی عملی تربیت کا ایک حصہ ہے جس کے کچھ ظاہری آداب بھی ہیں، اور باطنی بھی، پھر ان آداب میں بعض آداب وہ ہیں جو واجب کے درجے میں ہیں یعنی جن پر عمل نہ کرنے سے روزہ دار گنہ گار ہوتا ہے، بعض مستحب ہیں کہ اگران پر عمل کیا جائے تو روزہ کا اجر وثواب بڑھ جائے گا، اور عمل نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن ان آداب پر عمل کرنے سے روزے کا درجہ بڑھ جاتا ہے، ذیل میں ایسے ہی کچھ آداب لکھے جاتے ہیں، اگر ان آداب کی رعایت کی جائے تو ہم صحیح معنی میں روزہ دار کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں۔
روزہ کی قبولیت کی شرط اوّلین اخلاص ہے، یعنی روزہ دار کی نیت اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کا اجر وثواب ہونا چاہئے، دنیا کی واہ واہ لوٹنا، یا روزہ دار کی حیثیت سے شہرت پانا مقصود نہ ہو، اخلاص ہر عمل کی روح ہے، اس کے بغیر نہ نماز قبول ہے نہ روزہ اور نہ کوئی دوسری عبادت، اسی کو حدیث شریف میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے، من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ(صحیح البخاری: ۷/۱۴۰، رقم الحدیث: ۱۸۵۷، صحیح مسلم: ۴/ ۱۴۶، رقم الحدیث: ۱۲۶۸) ’’ جو ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتاہے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔‘‘ ایمان واحتساب در اصل روزہ میں تقرب کی نیت کا استحضار ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ محض عرف وعادت کے تحت روزے رکھتے ہیں، ہوسکتا ہے اس طرح کے روزوں سے فرض کی تکمیل ہوجاتی ہو، لیکن حدیث شریف میں جس ایمان واحتساب کی بات فرمائی گئی ہے وہ حاصل نہیں ہوتی۔
روزہ دار کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ روزے کی حالت میں ذکر وتلاوت اورنوافل جیسی عبادتوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام رکھے، اور جو وقت بھی ملے اس کو دعا واستغفار ، حمد وثنا اور تکبیر وتہلیل سے معمور رکھے، راتوں کو تراویح اورتہجد کی نمازوں میں مشغول رہے، حسب گنجائش صدقہ وخیرات بھی کرتا رہے، بہت سے روزہ دار ان چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے، دن کا بیشتر حصہ سونے میں گزار دیتے ہیں اور راتوں کو لہو ولعب کی محفلیں سجا کر بیٹھ جاتے ہیں، انھیں ذرا خیال نہیں آتا کہ یہ مبارک اوقات خدا تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا سر چشمہ ہیں، انھیں لغویات میں گنوانا نہیں چاہئے بلکہ جہاں تک ہوسکے اس سر چشمے سے اپنی روح کو سیراب کرنا چاہئے، جھوٹ، فریب چغلی، غیبت اور دوسرے گناہوں سے بچنا عام حالات میں بھی نہایت ضروری ہے لیکن روزے کی حالت میں ان سے دور رہنا اور بھی اہم ہوجاتا ہے، طاعت اور معصیت کبھی یکجا نہیں ہوسکتے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ روزہ رکھ کر اللہ کی اطاعت بھی کررہے ہوں، اور جھوٹ بول کر یا غیبت کرکے اس کی معصیت میں بھی مبتلا ہورہے ہوں، ایک حدیث میں ہے: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ ان یدع طعامہ وشرابہ(سنن ابی داؤد: ۶/ ۳۱۶، رقم: ۲۰۱۵، سنن الترمذی: ۳/ ۱۴۱، رقم: ۶۴۱) ’’ جو شخص فحش گوئی نہیں چھوڑتا اورفواحش پر عمل کرنا ترک نہیں کرتا اللہ کو اس کی کوئی ضرور ت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ کر بیٹھ جائے ۔‘‘ معلوم ہوا کہ دن بھر بھوک اور پیاس کی مشقت میں مبتلا رہنا عبادت نہیں
ہے یہ تو فاقہ کشی ہے، اصل چیز معاصی سے اجتناب کرنا ہے، حضرت جابرؓ سے مروی ہے، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذا صمت فلیصم سمعک وبصرک ولسانک عن الکذب والمأثم ودع أذی الجار ولکن علیک وقار وسکینۃ یوم صو مک ولا تجعل یوم صومک ویوم فطرک سواء(شعب الایمان للبیہقی: ۸/ ۱۵۷رقم ۳۴۹۱) جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان آنکھ اور زبان بھی جھوٹ اورگناہ سے رُکے رہیں، پڑوسی کو ایذا نہ دو، روزے والے دن تم وقار اور تحمل کے ساتھ رہو، تمہارے روزے اور بغیر روزے والے دن یکساں نہ ہونے چاہئے ‘‘ ان دونوںحدیثوں میں ان لوگوں کے لیے دعوتِ فکر ہے جوروزہ تو رکھتے ہیں، لیکن ان کے تمام اعضاء گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں، ذرا سی ذراسی بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، قوت برداشت کھوبیٹھتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ روزے کے نتیجے میں ہورہا ہے، حالاں کہ روزے کا اس سے کوئی تعلق نہیںہے، روزہ دار کو چاہئے کہ وہ ہر ایسے عمل سے اجتناب کرے جس سے اس اس کا روزہ خطرے میں پڑجائے، بہت سے لوگ روزے کا دن بھی عام دنوں کی طرح گزارتے ہیں، اور کوئی گناہ ایسا نہیں ہوتا جو ان کی زبان، کان اورآنکھ سے سرزد نہ ہوتاہو، روزہ دار کو تو انتہائی حلیم اوربردبار ہونا چاہئے، نہ کسی سے بد زبانی کرے، نہ کسی سے جھگڑے، نہ گالم گلوچ کرے، بلکہ اگر کوئی دوسرا شخص اسے کسی جھگڑے میں ملوث بھی کرنا چاہے، یا بلاوجہ آکر الجھنے کی کوشش بھی کرے تو اس سے صاف صاف کہدے کہ بھئی اپنی راہ لگو، میں روزے سے ہوں، حدیث شریف میں ہے اذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب فان سابّہ احد أو قاتلہ فلیقل انی امرؤٌ صائم( صحیح البخاری: ۶/ ۴۷۴، رقم: ۱۷۷۱، صحیح مسلم: ۶/ ۱۷، رقم: ۱۹۴۴) اگر تم میں سے کوئی شخص کسی دن روزے سے ہو تو اسے چاہئے کہ وہ گالم گلوچ نہ کرے، نہ چیخ پکار کرے، اوراگر کوئی شخص اسے گالی دے یا لڑائی کرنا چاہئے تو اس سے کہدے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘
عام حالات میں بھی وقت پر فرض نمازوں کی دائیگی ضروری ہے، لیکن رمضان کے دنوں میں تو اس کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرنا چاہئے، بہت سے لوگ روزہ رکھ کر سوجاتے ہیں، انھیں نمازوں کی پرواہ بھی نہیں ہوتی، حالاں کہ قرآن کریم میں صاف طورپر فرمادیاگیا : اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰابًا مَّوْقُوْتًا(النساء: ۱۰۳) ’’یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے‘‘ مسلمان کے لیے ہر حالت میں ضروری ہے کہ وہ نماز کو اپنے وقت پرادا کرے، کسی عذر شرعی کے بغیر نماز کو وقت متعین سے مؤخر کرنا جائز نہیںہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ایک عبادت کے لیے دوسری عبادت میں کوتاہی کررہے ہیں، حالاں کہ ہر عبادت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو صحیح وقت پر صحیح طریقے سے ادا کیا جائے، روزے کی حالت میں دعائوں کااہتمام بھی کرنا چاہئے، سحر وافطار کی دعائیں پڑھنے کا معمول بنائے، افطار سے پہلے اللہ کی طرف متوجہ ہوکر ضرور بیٹھے اور دعا میں مشغول رہے، حدیث شریف میں ہے، ان للصائم عند فطرہ لدعوۃ ماترد(ابن ماجہ: ۵/ ۲۹۵، رقم : ۱۷۴۳) ’’ افطار کے وقت روزہ دار کی دُعا رد نہیں کی جاتی‘‘ حدیث شریف میں آنکھ کان، اور زبان کا ذکر ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اعضائے جسم کے لیے کوئی پابندی نہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلویؒ نے لکھا ہے کہ باقی اعضائے بدن کی حفاظت بھی ضروری ہے، مثلا ہاتھ کا ناجائز چیز کے پکڑنے سے، پاؤں کا ناجائز چیز کی طرف چلنے سے روکنا، پیٹ کا مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھنا، اسی طرح باقی اعضاء بدن کی محرمات سے حفاظت کرنا، حضرت شیخ نے روزے کا ایک ادب یہ بھی لکھا ہے کہ افطار کے وقت حلال مال سے کھائے اور اتنا نہ کھائے کہ شکم سیر ہوجائے اس لیے کہ اتنا کھانے سے روزے کی غرض ہی فوت ہوجائے گی، کیوں کہ روزے سے مقصود قوت شہوانیہ اور بہیمیہ کا کم کرنا ہے اور قوت نور انیہ اور ملکیہ کا بڑھانا ہے، گیارہ مہینے تک بہت کچھ کھایا ہے، اگر ایک مہینے کچھ کم کھالیا تو کیا جان نکل جائے گی، مگر ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افطار کے وقت تلافی ما فات میں اور سحر کے وقت حفظ ما تقدم میں اتنا زیادہ کھالیتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ دنوں میں اتنا کھانے کی نوبت نہیں آتی(فضائل اعمال : ۵۹۰)۔
[email protected]

Comments are closed.