Baseerat Online News Portal

آہ مولانا عبد المومن صاحب!

رہے نام اللہ کا
ایک امان دینے والے کا بندہ اس کی ہمیشہ کی امان میں پہنچ گیا۔
انا لله وإنا إلیہ راجعون
آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی، آنسو بھی خشک ہو گئے جب استاد محترم حضرت مولانا عبد المومن صاحب سنبھلی ندوی نقشبندی رحمہ اللہ کے انتقال کی اطلاع موصول ہوئی۔
فجر کی نماز کے بعد معمول کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت سے فارغ ہوکر بستر استراحت پر جب حاضری ہوئی، موبائل فون ہاتھ میں تھا جس میں کچھ پیغامات بطور معلومات اور بغرض جوابات زیر نظر تھے کہ استاد محترم قاری محمد ساجد صاحب ڈھکوی دامت برکاتہم کا پیغام ملا جس میں یہ اطلاع تھی کہ حضرت مولانا عبد المومن صاحب کا انتقال ہوگیا، مانو کہ ہوش اڑگئے ہوں، یہ ایک خبر نہیں بلکہ بجلی تھی، سچ کہو تو ایک زلزلہ تھا جو وطن عزیز سنبھل اور اہل سنبھل کو دہلاتے ہوئے ملک بھر میں پھیل گیا ہو۔
فورا بھائی شارق میرٹھی کو اطلاع پہنچائی، فیسبک اور وہاٹس ایپ پر خبر کو شائع کیا،جس کے بعد فون کالز اور پیغامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، اور احباب کی طرف سے بھی افسوسناک خبریں ملتی رہیں۔
بہتوں کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا، لیکن حقیقت کو کون نکار سکتا ہے۔
ل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام.
ہر ایک اس دنیا میں ایک عارضی مدت کے لئے آیا ہے ایک نا ایک دن اس فانی دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
حضرت مولانا عبد المومن صاحب سنبھلی سنبھل کی عظیم ترین علمی واصلاحی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ تقریباً ٥٦ سال کی عمر میں آپ نے عظیم ترین خدمات انجام دیں جو قوم کے لئے اس پر ایک بہت بڑا احسان ہیں۔
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ مدینۃ العلوم انجمن معاون الاسلام سنبھل کی باگ ڈور سنبھالی، ایک مثالی مہتمم و ناظم کا ثبوت پیش کیا، اور اسی کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مدرس اور مربی ثابت ہوئے۔ انداز تدریس نہایت ہی عمدہ، فن تفہیم اتنا سہل کہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، تفسیر ہو یا حدیث، علوم شرعیہ میں ایک زبردست مہارت تھی۔ اتنی کم عمری میں کامیاب شاگردوں کا ایک جتھا جو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں بھی اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور علم دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں حضرت الاستاد کی شاندار تربیت کی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله تعالى عنه: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ ابنُ آدم انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
جب انسان انتقال کر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، مگر تین چیزیں اگر اس نے کی ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ اس کے لیے ( مرنےکےبعدبھی) کام آتی ہیں، صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔
الحمد للہ حضرت الاستاذ ان تینوں اوصاف کے مالک رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے۔
اس کے علاوہ حضرت کا ایک خاص وصف مؤثر ترین خطیب ہونا ہے جس کے ذریعے آپ نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دلوں پر بادشاہت کی، آپ کی رقت آمیز اور اثر انداز تقریروں اور خطبوں کے ذریعے سے کتنے دل بدلے اس کی صحیح تعداد صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
تقریبا ۸ سال پہلے حضرت الاستاذ کو سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت مولانا پیر ذوالفقار مد ظلہ کی طرف سے خلافت کا شرف حاصل ہوا اور اس کے ذریعے بھی حضرت والا نے کتنے لوگوں کی اصلاح اور راہ راست کا ذریعہ بنے۔
إن لله ما أخذ وله ما أعطى. وكل شيء عنده بأجل مُسمى.
اللہ نے جو لیا اور دیا وہ سب اسی کا ہے، اور ہر چیز اس کے پاس ایک متعین وقت کے لئے ہے۔
حضرت الاستاذکا رمضان المبارک کے اس رحمت والے عشرے میں مزید جمعہ کے دن اللہ کے دربار میں حاضر ہونا آپ کی مقبولیت کی گواہی ہے۔
اللہ تعالٰی حضرت کے سیئات کو حسنات میں تبدیل فرمائے، بال بال مغفرت فرمائے، غریق رحمت فرمائے، قبر کو نور سے منور فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اور انبیاء صدیقین شہداء و صالحین کے ساتھ حشر فرمائے۔
آپ کے شاگرد
صدام حسین سنبھلی / حافظ حنان حسین احمد انصاری سنبھلی

 

Comments are closed.