روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا

الصوم لی وأنا اجزی بہ
مولانا ندیم الواجدی
عربی کی جس عبارت کو اس مضمون کا عنوان بنایاگیا ہے وہ ایک طویل حدیث کا ٹکرا ہے، روزے کی فضیلت اور اس کے زبردست اجرو ثواب کے سلسلے میں اس حدیث کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہ حدیث بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور مؤطا مالک سمیت حدیث کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں موجود ہے، اس کے راوی ہیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہؓ ، ہم یہاں بخاری ومسلم سے اس حدیث کا متن اور اس کے نیچے ترجمہ پیش کررہے ہیں: ’’سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، بنی آدم کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوتاہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مگر روزہ کہ وہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس اجر دوںگا ( کیوں روزہ دار) اپنی خواہش نفس، اور اپنا کھانا میرے ہی لیے چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک تو روزہ کھولنے کے وقت او ردوسری خوشی اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت ہوگی، یاد رکھو روزہ دار کے منھ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ لطیف اور پسندیدہ ہے، روزہ ڈھال ہے ( کہ اس کی وجہ سے بندۂ مومن دنیا میں شیطان کے مکروفریب سے اورآخرت میں دوزخ کی آگ سے محفوظ رہتا ہے) تم میں سے جب بھی کوئی شخص روزہ سے ہو تو وہ نہ فحش گوئی کرے، اور نہ ہنگامہ مچائے، اور اگر کوئی شخص اسے برا کہے یا لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘(صحیح البخاری: ۶/ ۴۷۴، رقم: ۱۷۷۱، وصحیح مسلم: ۶/ ۱۸، رقم: ۱۹۴۵)۔
اس حدیث کے کئی مضامین پہلے بھی گزر چکے ہیں، یہاں صرف ایک جزء پر بات کرنی ہے، حدیث شریف میں فرمایاگیا ہے کہ ’’ روزہ میرے ہی لیے ہے اور میںہی اس کی جزا دوں گا‘‘ سوال یہ ہے کہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہوتی ہیں قرآن کریم میں بھی ہے: ’ آپ فرمادیجئے کہ میری نماز میری تمام عبادتیں میرا جینا اور میرا مرنا (سب) اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پرور دگار ہے‘‘ (الانعام: ۱۶۲)اس صورت میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ صرف روزہ اللہ کے لیے ہے، پھر ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جزا وسزا کا تمام نظام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہی قیامت کے دن نیکو کاروں کو ان کی نیکی کا اور گنہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ دینے والا ہے، اس مضمون کی بے شمار آیات موجود ہیں، پھر آخر روزہ کو کیوں مستثنیٰ کیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام عبادات میں صرف روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا ثواب اللہ خود دے گا۔ باقی عبادتوں کا ثواب دوسروں کے ذریعے ملنے والا ہے؟
شارحین حدیث نے اس سوال کے متعدد جوابات دئے ہیں، ہر جواب اپنے آپ میں مکمل جواب ہے، جو اشکال حدیث کے ان الفاظ کو پڑھ کر ذہن میں آتا ہے وہ ان جوابات سے بالکل ختم ہوجاتاہے، ذیل میں یہ تمام جوابات حدیث کی کتابوں سے نقل کئے جاتے ہیں۔
(۱) روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا کا کوئی دخل نہیںہے، یعنی اس کا علم صرف روزہ رکھنے والے کو ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو ہوتاہے جو غیب کی تمام باتوں سے واقف ہے، کوئی دوسرا شخص روزے پر مطلع ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا، اس کے بر عکس دوسری عبادتیں لوگوں کی نظروں میں آجاتی ہیں، مثلا آپ نماز پڑھ رہے ہیں ، مسجدکے تمام حاضرین واقف ہیں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں، حج کررہے ہیں، ہر دیکھنے والا جانتا ہے کہ آپ ارکان حج کی ادائیگی میں مشغول ہیں، زکوٰۃ ادا کررہے ہیں، آپ کتنی بھی خاموشی کے ساتھ یہ کام کریں کم از کم زکوٰۃ لینے والا تو اس سے واقف ہی ہے کہ آپ نے فریضۂ زکوٰۃ ادا کیا ہے، یا کوئی چیز اسے صدقہ کی ہے، صرف روزہ ہی ایسی عبادت ہے جس سے روزہ دار کے علاوہ کوئی دوسرا واقف نہیں ہوتا، اور کیوں کہ کوئی دوسرا واقف نہیں ہوتا اس لیے اس میں نا م ونمود کی طلب اور ریا کاری کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا، إلاّ یہ کہ ہم خود اپنے روزے کا اعلان کرتے پھریں، ایسی بے ریا عبادت کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نسبت اپنی طرف کریں۔
(۲) جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نیکیوں کا ثواب دس سے سات سو گنا تک ہے، بلکہ بعض مقامات کے شرف کی بنا پر یہ اجر اوربھی بڑھ جاتا ہے ، جیسے مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے، اس کے پیش نظر شارحین حدیث نے انا اجزی بہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روزے کے ثواب کی مقدار اور اس کی وجہ سے ہونے والی تضعیفِ حسنات کو میں ہی جانتا ہوں جب کہ دوسری عبادات ایسی ہیں جن کی جزاء کا اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں کوبھی علم ہے، گویا روزے کی جزا بھی باری تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اس کی مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔
(۳) ایک جواب یہ بھی دیا گیاہے کہ روزہ مجھے تمام عبادات میں سب سے زیادہ محبوب ہے، (۴) اللہ رب العزت کھانے پینے ، اور نفسانی خواہشات سے مستغنی ہے، بندہ کم از کم روزہ کی حالت میں ان چیزوں سے پرہیز کرتا ہے، اس طرح وہ اللہ تعالیٰ سے خصوصی تقرب حاصل کرلیتا ہے، الصوم لی روزہ میرے لیے ہے فرماکر اسی ثواب کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، (۵)اسی طرح کھانے پینے اورخواہشات سے استغناء فرشتوں کا وصف ہے جو خدا کی مقرب مخلوق ہے، مومن جب روزہ رکھتا ہے تو وہ ملائکہ کے مشابہ ہونے کی بناپر اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوجاتاہے، (۶) روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو باری تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اس میں بندے کے لیے کسی قسم کی کوئی منفعت نہیںہے، کوئی حظ نہیںہے(۷) روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو کسی غیر اللہ کے لیے نہ کی گئی ہے نہ کی جاتی ہے اس کے بر عکس رکوع وسجود، اور طواف وغیرہ غیر اللہ کے لیے بھی ہوتے ہیں، (۸) روزہ کے علاوہ جتنی عبادتیں ہیں وہ قیامت کے دن گناہوں کا کفارہ بنیں گی اور ان کے ذریعے بندوں کے واجب الاداء حقوق چکائے جائیںگے، یہاں تک کہ جب یہ عبادتیں ختم ہوجائیں گی اور صرف روزہ باقی رہ جائے گا اس وقت روزہ کو بقیہ واجب الاداء حقوق کا کفارہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اللہ رب العزت اپنی جانب سے اصحاب حقوق کو بہتر جزا عطا فرمائیںگے، روزہ کی جزاء کو ان حقوق کا کفارہ نہیں بنایا جائے گا، بلکہ اس کے عوض روزہ دار کو جنت میں داخل کردیا جائے گا، (۹) روزہ ایک ایسی مخفی عبادت ہے جس پر سوائے باری تعالیٰ کے کوئی مطلع نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ فرشتوں سے بھی مخفی رہتا ہے، کراماً کاتبین بھی اسے نہیں لکھتے، (۱۰) اسی لیے حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے یہ توجیہ ارشاد فرمائی ہے کہ روزہ کی جزا بلا واسطۂ ملائک ہم خود دیںگے جب کہ دوسری عبادات کی جزاء میں فرشتوں کا واسطہ ہوگا۔(۱۱) روزہ میں صبر کا عنصر زیادہ ہے، اس میں ترک لذات پر صبر ہے، ترک شہوات پر صبر ہے، اس عبادت کے دوران بندے کو جس قدر صبر اور آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے اس سے زیادہ کسی اورعبادت میں نہیں گزرنا پڑتا اور صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے: ’’صبر کرنے والوں کو بلا حساب اجر دیا جائے گا۔‘‘(الزمر: ۱۰)
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے (فتح الباری: ۴/ ۱۰۷، التعلیق الصبیح: ۲/ ۳۷۱، نفحات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ۳/ ۱۶۸، درس ترمذی: ۲/ ۶۰۴)روزہ کی عبادت کا اس سے بڑھ اور کیا شرف ہوگا کہ اللہ نے اس کو اپنے لیے مخصوص کرلیا ہے، اور وہ خود ہی روز قیامت اس کی جزاء بھی دے گا، باقی اعمال کا اجر تو ہمیں معلوم ہے کہ ان کا اجر دس گنا بھی ہوسکتاہے، اور سات گنا بھی، بلکہ ایک لاکھ گنا تک بھی ہے، لیکن تنہا روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا اجر نا معلوم ہے، اگر معلوم ہے تو یہ کہ جو اجر روزہ داروں کو ملنے والا ہے وہ بے حساب ہے، نہ اسے کسی ترازو سے تولا جاسکتا ہے، نہ کسی پیمانے سے ناپا جاسکتا ہے، اور نہ اسے شمار کیا جاسکتا ہے، اللہ ہی جانتا ہے اس اجر کے بارے میں بھی اور اس کی کمیت اورکیفیت کے بارے میںبھی ۔
[email protected]
Comments are closed.