پیامِ رمضان

ازقلم: طاہرہ لیاقت(خوشاب)
ارشادِ ربانی ہے:’’رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا "۔
آیتِ کریمہ کے ترجمے سے ہی رمضان کی عظمت و فضیلت کا پتہ چل جاتا ہے۔رمضان کا مطلب ہے جھلسا دینے والا مطلب شدت و حرارت والا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ شدید گرمی کے مہینے میں اس کا نزول ہوا اس لیے اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔اور کچھ کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ پاک مسلمانوں کے گناہ جھلسا کر کم کر دیتا ہے۔روزے کا اصل مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔رمضان کی فرضیت قرآن میں نماز کے ساتھ بیان کی گئ ہے۔ارشاد ربانی ہے:
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر تا کہ تم پرہیزگار بنو”۔
رمضان کی فضیلت وفرضیت تو عیاں ہے مگر کیا رمضان ہمیں جو پیغام دے رہا ہے اس کی پیروی ہم کر رہے ہیں یا نہیں؟ رمضان کا استقبال تو بہت جوش و خروش کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر اس کے اصل مقصد اور پیغام کو بلکل بھول ہوئے ہیں۔روزے کا مقصد صرف اور صرف بھوکا رہنا نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں، صبر کریں اپنے ہر اعضا کو قابو میں رکھیں۔کیونکہ اللہ تعالٰی کو ہمارے بھوکا رہنے سے کوئی سروکار نہیں۔روزے کا مقصد ہی تب پورا ہوتا ہے جب اس کے تمام فرائض کو پورا کیا جائے۔حدیث پاک ہے:
"جس نے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔”
روزے سے تزکیہ نفس ہوتا ہے۔کیونکہ اس میں سب سے زیادہ نفس پر ہی قابو پایا جاتا ہے اور اپنے آپ کو تمام شہوانی حرکات سے روکا جاتا ہے۔اپنے نفس کو پاک کیا جاتا ہے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بس بھوکے رہیں اور باقی برے کام نہ چھوڑیں۔اگر ہم باقی کام بھی چھوڑیں گے تب ہی تزکیہ نفس کر پائیں گے۔روزہ ہمیں سب سے زیادہ صبر کا درس دیتا ہے۔اگر ہم کھانے پینے سے مختلف گناہ کے کاموں سے پورا ایک مہینہ صبر کر سکتے ہیں تو کیا ہم اسے اپنی زندگیوں کا حصہ نہیں بنا سکتے؟ رمضان کا ہم سے تقاضہ ہی یہی ہے کہ ہم اس میں جو نیک عمل بجا لائیں ان کو اپنی زندگی میں شامل کر لیں تاکہ دنیاوآخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہو۔بھوکہ رہنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے بس کھانا پینا چھوڑ دینا ہے بلکہ ہم نے اپنے اللہ سے لو لگانی ہے، اس کے ذکر سے اپنی روح کو سیر کرنا ہے۔اگر اس مہینے میں ہمارے جسم کی غذا میں قلت ہوتی ہے تو روح کی غذا کا حصول ہوتا ہے۔ہمارے پاس اچھا موقعہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی روحانی غذا کا خیال رکھیں اور زیادہ سے زیادہ ذکرِ الٰہی کریں۔
اس کے علاوہ روزہ ہمیں ہمدری و احساس کا پیغام دیتا ہے تاکہ ہم اپنے ہمسائیوں، غریب غربا اور حاجت مندوں کا احساس کریں ان کو بھی رمضان کی خوشیوں میں شریک کریں اور انکی دل کھول کر مدد کریں تاکہ یہی عمل ہماری نجات کا ذریعہ بنے۔ہمدری کے ساتھ ساتھ ہمیں اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کرنی چاہیئے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی یہی شیوہ تھا۔رمضان ہمیں اجتماعیت کا سبق دیتا ہے۔اس مبارک مہینے میں سب مل اکٹھے عبادات کرتے ہیں جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ سب کے سب ایک ہی خالق کی پیداوار ہیں کوئی کسی سے برتر نہیں تو پھر یہ غرور کس بات کا؟رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ گناہ کرنے سے بچا جائے۔لیکن رمضان ختم ہوتے ہی سب اپنی پرانی روٹین میں آجاتے ہیں اور یہی افسوس کی بات ہے۔حالانکہ رمضان تو ہماری اس مصروف زندگی میں ایک تحفہ بن کر آتا ہے ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور ہمارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ یہ تو ہمارے لیے ایک مہینے کی مشق ہوتی ہے کہ باقی دنوں میں ہم نے کس طرح سے اپنے رب سے جڑے رہنا ہے۔اور اس سے مستفید صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھتے ہیں اور اپنے اللہ سے اجر کے طلبگار ہوتے ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ایمان کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،رمضان کی بابرکت پر نور ساعتوں سے محظوظ ہونے کا شرف نصیب فرمائے اور ہماری عبادات کو منظور و مقبول فرمائے۔آمین ثمٰ آمین

 

Comments are closed.