منظوم تعزیت

بوفات مفکر اسلام حضرت مولانا سید ولی رحمانی صاحب نور اللہ مرقدہٗ
نتیجۂ فکر: سید مظاہر عالم قمر شمسی، چک اولیا(ویشالی)
حیف !کیسا وقت تھا وہ اور تھی کیسی گھڑی
جب اچانک کان میں یہ بدخبر آ کر پڑی
چھوڑ کر ہم سب کو رخصت ہو گئے حضرت ولی
لگتی ہے کیسی امارت کی یہ سونی گلی
آسمان علم و عرفاں کا وہ اک مہر مبیں
تھی منور جس کے دم سے ہند کی یہ سرزمیں
رہبر راہ طریقت مرشد روشن ضمیر
عالم دین متیں تھے، اور شریعت کے امیر
رزم باطل میں تھے رکھتے جرأت حضرت علیؓ
بزم حق میں تھے نظر آتے ولی ابن ولی
خلد میں وہ ہوچکے ہیں گر چہ اب مسند نشیں
بستے ہیں آنکھوں میں اب بھی اور ہیں دل میں مکیں
کھل گیا ان کے لئے اب باب فردوس بریں
کہہ رہا ہے دل ہمارا اور ہے سب کو یقیں
درد ملت کا لئے سب، چل دیئے حضرت ولیؒ
دے گئے وہ اس طرح امت کو بھی درد دلی
فکر امت رکھتی تھی بے چین حضرت کو مدام
کرتے رہتے تھے ہمیشہ آپ امت ہی کا کام
ہو امارت یا پرسنل بورڈ کا کچھ معاملہ
آپ کی حسن قیادت ہی نے مستحکم کیا
ہے جو رحمانی یہ تھرٹی نونہالوں کے لئے
اک بڑی نعمت ہے مسلم نوجوانوں کے لئے
فکر تھی امت کی ہر دم آپ کے سر پر سوار
رہتے تھے تیار کرنے کو یہ اپنی جانثار
جامعہ رحمانی جو ہے معدن علم و ہنر
نکلے ہیں یہاں سے قیمتی لعل و گہر
منبع رشد و ہدایت ہے یہاں اک خانقاہ
جس نے دکھلائی ہے دائم گمرہوں کو نیک راہ
صدمہ پہنچا آپ کو جو حضرت احمد ولی
تعزیت کرتے ہیں ہم ارکان شمسی فیملی
حضرت منت کے احساں کو نہ بھولیں گے کبھی
آپ کے کیونکر شریک غم نہ ہوں پھر ہم سبھی
خانقاہ و جامعہ کو یا خدا آباد رکھ
حضرت احمد ولی، حامد ولی کو شاد رکھ
کررہے ہیں یہ دعا اللہ سے سب خاص و عام
کرعطا اپنے ولی کو خلد میں اعلیٰ مقام
کرعطا یارب امارت کو بھی اک نعم البدل
روشنی میں دین کی ہوں، مسئلے امت کے حل
اے قمرؔ دل میں تیرے بھی حب لافانی رہے
خانقاہ و جامعہ پر فضل رحمانی رہے
Comments are closed.