Baseerat Online News Portal

رمضان المبارک اور قرآن کے حقوق کی ادائیگی

قاضی مفتی محمد ریاض ارمان القاسمی
مدرسہ الصالحات ،اندھیری ویسٹ ممبئی
موبائل نمبر:۸۵۲۹۱۵۵۵۳۵
رمضان المبارک اور قرآن مجید کا تعلق بے حد گہرا ہے ، اسی ماہ مبارک میں تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے قرآن کریم سماء دنیا پر نازل ہوئی، مفسرین کے بیان کے مطابق اس مہینہ میں قرآن مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ اول پر بھیجا گیا ، پھر اسی مبارک مہینہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآن اترنا شروع ہوا،اس طرح رمضان کا مکمل مہینہ قرآن مجید کی نعمت سے منسوب ہوا ، چنانچہ ارشاد ربّانی ہے ”شَہْرُ رَمَضَانَ الذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنَ“(سورۃ البقرۃ:۲آیت نمبر ۱۸۵)۔

رمضان اور قرآن مجید کے درمیان چند مشترک خصوصیات ہیں: پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے ۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد ۶۶۲۶) ،تیسری مشترک خصوصیت قرب الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے ، روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ میرے لیے اورمیں خود ہی اس کا بدلہ ہوں(صحیح مسلم ۱۱۵۱)۔

ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں: ۱:۔ایمان وتعظیم۔۲:۔تلاوت وترتیل۔ ۳:۔تذکروتدبر۔۴:۔حکم واقامت۔ ۵:۔تبلیغ وتبیین ۔

قرآن کاپہلا حق:۔ایمان وتعظیم ،ایمان کے دو حصے ہیں: ایک اقرار اور دوسرا تصدیق۔ ہم قرآن کے اللہ کی کتاب ہونے کااقرار تو کرتے ہیں، لیکن یقین اور تصدیق کی ہمارے اندر کمی ہے، لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ آیا ہم قرآن کو متوارث مذہبی عقیدے کی بناء پر ایک آسمانی مقدس کتاب سمجھتے ہیں، جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے تعلق نہ ہو، یا یہ یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں؟۔

قرآن کادوسرا حق:۔ قرأت وتلاوت :قرآن مجید کا دوسرا حق اس کی قراء ت اور تلاوت ہے۔قراء ت کا لفظ ہر کتاب کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ تلاوت کا لفظ صرف قرآن کے لیے خاص ہے۔ تلاوت کے حقوق(۱)تلاوت کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کو تجوید کے قواعد کا لحاظ کرکے تلاوت کیا جائے، یعنی مخارج، صفات اور رموز واوقاف کا علم ہونا چاہیے، تاکہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا ہوسکے۔ (۲)تلاوت کا دوسرا حق یہ ہے کہ روزانہ تلاوت کا معمول ہونا چاہیے۔(۳)تلاوت کا تیسرا حق خوش الحانی ہے، فرمایا: ’’زَیِّنُوْا الْقُرْأٰنَ بِأَصْوَاتِکُمْ‘‘۔(سنن ابی داؤد، ج:۱،ص:۵۴۸،دارالکتاب العربی، بیروت) ترجمہ:’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرکے پڑھو‘‘۔(۴)تلاوت کا چوتھا حق یہ ہے کہ آدابِ ظاہری وباطنی کا خیال رکھا جائے، یعنی باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ کر تعوذوتسمیہ پڑھ کرحضوریِٔ قلب، اور مسلسل تذکروتدبر اور تفہم وتفکر کرکے تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ (۵)تلاوت کا پانچواں حق ترتیل ہے، یعنی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ‘‘۔’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘۔ ٹھہر ٹھہر کرپڑھنا تثبیت قلبی کا ذریعہ بھی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ’’وَکَذَالِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً ‘‘۔(الفرقان:۳۲) ترجمہ:’’اور اسی طرح(اتارا)تاکہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا کریں۔(۶)تلاوتِ قرآن کا چھٹا حق یہ ہے کہ اس کو حفظ بھی کیا جائے۔ حفظ میں یہ ضروری نہیں کہ پورا ہی حفظ کیا جائے، بلکہ حسب توفیق زیادہ سے زیادہ حفظ کیا جائے۔

قرآن کاتیسرا حق:تذکروتدبر یعنی قرآن کو سمجھنا۔ بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کا جواز ان لوگوں کے لیے ہے جو پڑھنے لکھنے سے محروم رہ گئے ہیں اور اب ان کی عمر اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لیے سیکھنا ناممکن ہو چکا ہے،ایسے لوگ اگر ٹوٹی پھوٹی تلاوت کریں یا تلاوت نہ کرسکیں محض عقیدت کی بنا پر سطروں پر اپنی انگلیاں ہی پھیریں تو بھی ان کو ثواب ملے گا۔ پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے دنیا کے مختلف علوم وفنون حاصل کرنے میں زندگیاں صرف کیں، اپنی تو کیا غیرملکی زبانیں بھی سیکھیں،ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا فہم حاصل کریں۔

قرآن کاچوتھا حق:۔حکم ،اقامت اورعمل ،قرآن مجید کا چوتھاحق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید نہ تو جادومنتر کی کتاب ہے کہ محض اس کا پڑھنا دفع بلیات کے لیے کافی ہے اور نہ ہی یہ محض حصول برکت اور ثواب کی کتاب ہے کہ دکان ومکان میں برکت یا مردے بخشوانے کے لیے اس کی تلاوت کی جائے، بلکہ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے، اس کا مقصد ِنزول اس ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اُسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنانا ہے۔ پھر اس عمل کے دو پہلو ہیں: ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی، ایسے احکام جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، ان کا تو انسان فی الفور مکلف ہے، البتہ ایسے احکام جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ان کا فی الفور مکلف تو نہیں، لیکن ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا یہ ضروری ہے۔

قرآن کاپانچواں حق:۔بلیغ وتبیین ۔قرآن مجید کا پانچواں حق اُسے دوسروں تک پہنچاناہے،جسے ہم تبلیغ کے نام سے جانتے ہیں ، آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْأٰیَۃً‘‘۔(سنن الترمذی،ج:۴،ص:۳۳۷، ط:دارالغرب الاسلامی،بیروت) لیکن مقام افسو س یہ ہے کہ قرآن کا حق تبلیغ بھلایا اور فراموش کیا ہوا حق ہے ، یہ ایسا حق ہے جس کی طرف ہمارا ذہن بھی نہیں جاتا اور جس کو ادا کرنے کے لئے ہمارے سینہ میں کوئی عزم بیدار نہیں ہوتا ، یہ حق ہے اﷲ کی اس کتاب کو اﷲ کے تمام بندوں تک پہنچانا ، قرآن مجید کی ایک صفت ” ہدیٰ ” ہونا ہے ، ہدیٰ کے معنی سراپا ہدایت کے ہیں ، ہدایت و رہنمائی کے لئے ضروری ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں تک پہنچائی جائے جو ہدایت سے محروم ہیں ، قرآن کسی خاص قوم کی جاگیر یا ملکیت نہیں ہے ، یہ اﷲ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس امانت کا حق ہے کہ اسے پوری انسانیت تک پہنچایا جائے ۔
قرآن مجید میں ساڑھے چھ ہزار سے اوپر آیتیں ہیں ، ان میں سے پانچ سو آیات احکام سے متعلق ہیں ، جن میں عملی زندگی کے بارے میں شرعی قوانین بیان کئے گئے ہیں ، بقیہ آیات براہِ راست یا بالواسطہ دعوتِ دین سے متعلق ہیں ، یا تو ان میں لوگوں کو ایمان کی دعوت دی گئی ہے یا انبیاء کے دعوتی واقعات اور قصص کو ذکر فرمایا گیا ہے ، غرض یہ ایسا فریضہ ہے جو قرآن مجید کے تقریباً نوے فیصد مشتملات کا نچوڑ اور اس کا خلاصہ ہے ، خود قرآن مجید میں تبلیغ قرآن کے فریضہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
یا ایہا الرسول ! بلغ ما انزل إلیک من ربک وإن لم تفعل فما بلغت رسالتہ واﷲ یعصمک من الناس ، ان ﷲ لا یہدی القوم الکافرین ۔ (سورۃ المائدہ :آیت ۶۷)۔اے رسول ا ! جو کتاب آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اسے پہنچا دیجئے ، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ، اور اﷲ تعالیٰ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے ، بے شک اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو کفر پر بضد ہیں ۔
غور کیجئے ! اس آیت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کتنی بلیغ تاکید کے ساتھ تبلیغ قرآن کا حکم دیا جارہا ہے اور یہ بھی فرمایا جارہا ہے کہ اگر آپ نے یہ کام نہیں کیا ، تو آپ نے رسالت و پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس ذمہ داری کا اس قدر احساس تھا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی راتوں کو انسانیت کی ہدایت کے لئے خدا کے سامنے رونے ، گڑ گڑانے اور التجا کرنے میں گزاردی اور دن بندگانِ خدا کو اﷲ کی طرف بلانے اور بندوں کو خدا سے جوڑنے میں صرف کیا ، اسی لئے آپ نے طائف میں پتھر کھائے اور لہولہان ہوگئے ، اُحد میں چہرۂ مبارک کا زخمی ہونا گوارہ فرمایا ، شعب ِابی طالب میں بھوک و پیاس کی لذت اُٹھائی ، مکہ سے تلواروں کے سایہ میں مدینہ کے لئے روانہ ہوئے ، آپ کے عم محترم کا کلیجہ چبایا گیا اور آپ کی صاحبزادی کو طلاق دی گئی ، ان ساری آزمائشوں اور ابتلاؤں اور مخالفتوں وعداوتوں سے آپ کیوں کر گزرے ؟ اسی لئے کہ حق رسالت کی یہ ذمہ داری ادا ہو ۔
چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع سے جب ایک لاکھ سے زائد صحابہ ث آپ اکے ساتھ تھے ، آپ انے اپنے اثر انگیز وداعی خطبہ میں صحابہ کرام ثسے دریافت فرمایا کہ کیا ہم نے تم تک اﷲ کے دین کو پہنچادیا ، ہل بلغت ؟ تم اس بارے میں کیا کہوگے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم گواہ ہیں کہ آپ نے ہم تک اﷲ کی کتاب پہنچادی ، نبوت کا حق ادا فرما دیا اور ہمارے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ فرمایا : ” نشہد انک قد بلغت وأدیت ونصحت” آپ نے جواب میں فرمایا : اے اﷲ ! آپ گواہ رہیں ، اے اﷲ ! آپ گواہ رہیں ، اے اﷲ ! آپ گواہ رہیں ۔ ( مسلم باب حجۃ النبی)۔لہذا اس مبارک مہینہ میں قرآن کریم کے تمام حقوق کی ادائیگی کی کوشش بلیغ کرنا، خاص طور پر امت کے ہر فرد تک قرآن کے پیغام کو عام کرنے کا عزم مصمم کرنا باعث اجروثواب ہے۔

Comments are closed.