روزہ؛ضبط نفس کی مشق

تانیہ شہزاد
روزہ صرف صبح سے لے کر شام تک کھانے پینے سے رک جانے کا نام نہیں بلکہ ضبط نفس کی مکمل مشق ہے۔دراصل انسان کی بندگی کے راستے میں دو بہت بڑی رکاوٹیں حائل ہیں ایک تو شیطان اور دوسرا انسان کا اپنا نفس۔ شیطان تو چوں کہ رمضان کی مبارک گھڑیوں کے آتے ہی قید ہو جاتا ہے,مگر ہمارا نفس وہ ہمیشہ ہی آذاد رہتا ہے۔سو اس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ لیکن انسان کے نفس کی تربیت کبھی ہوئی ہی نہیں ہوتی,جب سے ہم ہوش سنبھالتے ہیں, ہم نفس پرستی کرنا سیکھتے ہیں۔ہمارے اردگرد کی دنیا بھی ذیادہ تر نفس پرست ہی ہوتی ہے اور ہوش سنبھالتے ہی ہمارے پاس نفس پرستی کی بے شمار صورتیں موجود ہوتی ہیں۔اسی طرح ہوش سنبھالتے ہی ہم نفس کی لذتوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔اس سے کیا ہوتا ہے کہ ہمارا نفس طاقت پکڑتا جاتا ہے۔
ہم سمجھتے ہی نہیں کہ آخر ہم کرنے کیا آئے ہیں دنیا میں۔ اللّٰہ پاک نے تو ہمیں اس دنیا میں اپنی عبادت و بندگی کے لیے بھیجا ہے اور ہم تو نفس پرستی میں پڑے ہوئے ہیں۔ہمارے نفس کی تربیت نہیں ہوتی نہ کبھی ہمارا دھیان جاتا ہے۔کیوں کہ نفس کی لذتیں بے شمار ہیں۔ اوپر سے ہمارا ماحول اس رغبت کو بھڑکانے میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ ہر طرف تو نفس پرستی کے نت نئے طریقے دستیاب ہوتے ہیں اور نفس کی لذتوں کو ابھارنے کے لیے بھی ہمارے اردگرد بہت کچھ ہوتا ہے۔پھر شیطان بھی تو ہے انسان کا کھلا دشمن اس نے تو قسم ہی کھا رہی ہے انسان کو بھٹکانے کی۔
بس وہ انسان کو مزید رغبتیں دلاتا ہے خواہش نفسانی کو مزید ابھارتا ہے اور نفس کی لذتوں کو انسان پر مزید دلکش بنا کر پیش کرتا ہے۔ایسے میں انسان کے دل و دماغ پر نفس قابض ہوتا جاتا ہے, روح کے تقاضے دبتے جاتے ہیں اور انسان کا نفس د ماغ اور جسم کو اپنی لذتیں پانے کی ہدایت دیتا ہے اور چوں کہ دماغ ہی پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے اور دماغ پر نفس قابض ہوتا ہے تو پھر انسان اپنی تمام تر صلاحیتیں نفس کی لذتیں پوری کرنے میں ہی کھپاتا ہیا ور روح کے تقاضے دبتے جاتے ہیں اور نفس طاقت پکڑتا جاتا ہے۔نفس کی خوراک ہے نفس کی لذتیں اور جب کسی چیز کو اس کی خوراک ملتی ہے تو وہ طاقتور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب کسی چیز کو اس کی خوراک نہ ملے تو پھر وہ کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے تقاضے بھی دھب جاتے ہیں۔تو انسان کی روح کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
پھر نفس پرستی سے نجات پانے کے لیینفس کو کمزور اور روح کو طاقتور کرنا ہوتا ہے۔اس کے لیے نفس کی خوراک یعنی لذات نفس کو ترک کرنا ہوتا ہے اور دوسری طرف روح کے تقاضے یعنی ذکر اذکار کرنا ہوتا ہے اور ذکر مخض زبان سے نہیں,ذکر ایسا کہ دل اللّٰہ کی یاد میں مگن ہو جائے,تب روح سکون پائے گی اور طاقت پکڑے گی ا ور نفس کو کمزور کرنے کے لیے ناجائز لذتیں تو ترک کرنی ہی ہیں مگر نفس کی خائز لذتوں پر بھی قابو پانا ہے۔ روزہ دراصل انسان کو ضبط نفس کی مشق کروانے کا بہترین ذریعہ ہے کہ اس میں انسان نے ناجائز چیزیں تو ترک کرنا ہی ہوتی ہیں مگر چند خائز کاموں سے بھی اللّٰہ کی رضا کے لیے رک جانا ہوتا ہے۔
لیکن اگر ہم سارے دن کی بھوک پیاس برداشت کرنے کے بعد بھی ممنوعات سے خود کو بعض نہیں رکھتے, ذکر خدا میں مگن ہو کر روح کے تقاضے پورے نہیں کرتے تو ضبط نفس کی مشق نہیں ہو گی اور اگر سارا دن ضبط نفس کر کے افطار کے وقت افطاری کے لوازمات سے اس طرح سیر ہو جائیں گے کہ اٹھنا بھی محال ہو جائے اور عشاء اور مغرب افطاری کے چکروں میں نکل جا ئے یا ذیادہ کھانے کی وجہ سے خشوع خضوع حاصل نہ ہو پائے تو اس سے ضبط نفس کی مشق نہیں ہوگی۔ روزہ غریب کی بھوک پیاس کا احساس دلاتا ہے اور آج کل کے حالات میں تو غریب کی بھوک پیاس کا احساس کرنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسے میں روزے کے ذریعے ضبط نفس کا حصول اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ا یک طرف تو انسان اپنی ناجائز لذتوں کو ترک کرے اور جائز لذتوں پر قابو پائے دوسری طرف انسان دوسروں کا احساس کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کرے۔ نا صرف اپنی ضرورت سے زائد دوسروں پر خرچ کرے بلکہ اپنی ضروریات کو دوسروں کی ضروریات پر ترجیح دیتے ہوئے ان کی مدد کرے اور اپنی ضروریات کو کم کرے تاکہ دوسروں کی مدد ہو سکے۔
یہ ایک سنہری موقع ہے رمضان میں ضبط نفس کی مشق کر کے نفس کو خوب کمزور کرنے کا تاکہ شیطان جب آزاد ہو تب بھی وہ نفس کو رغبتیں نہ دلا سکے اور انسان بندگی کے تقاضے پورے کر سکے۔
اللّٰہ پاک علم و عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Comments are closed.