"نظم” ” ہائے وہ لڑکی”

 

آمنہ جبیں

جب بھی مجھ کو یاد کرے گا

یہ لفظ وردِ زباں کرے گا

معصوم سی سادہ سی

کچھ شوخی کچھ نخریلی سی

رنگوں سے پیار کرتی

خوشبوؤں کے جام بھرتی

وہ لڑکی

یوں چپکے سے چلی گئی

مجھ کو خاموشی سے چھوڑ گئی

آسمان کو گھنٹوں جو تکتی تھی

تاروں بھری رات میں

چاند کے حصار میں

گہری ندیا کے پانی میں

میرا چہرہ ڈھونڈا کرتی تھی

جب موسم انگڑائی لیتا

بہار دل کے گوشوں میں شور مچاتی

وہ سنور کر گھنٹوں گھنٹوں

انتظار میرا تب کرتی تھی

وہ کھل کر جینا چاہتی تھی

اپنے خوابوں کی دنیا میں

میرے سنگ بسنا چاہتی تھی

قوس قزح کے رنگوں میں ڈھل کر

کسی شام سورج کو

میرے کاندھے پہ سر رکھ کر

الوداع کہا وہ کرتی تھی

پہاڑوں کے جزیروں میں

اپنے چہرے کی روشنی سے

کچھ ناکارہ پتھروں کو

سنگ مرمر کرنا چاہتی تھی

کسی لمبی پگڈنڈی پر

ہاتھ تھامے میرا

گھنٹوں چلنا چاہتی تھی

اپنے ناز نخروں سے

میرے آنگن کی دہلیز میں

جی بھر کر کِھلنا چاہتی تھی

میرے غصے سے وہ ڈرتی تھی

میری مسکراہٹ پہ

خوش ہو کر کئی کئی دم بھرتی تھی

میں روٹھ جاتا جو اس سے

میں مناوں گا اسکو

یہ مان دل میں بسایا کرتی تھی

مگر دل جکڑا جو جاتا تھا میرا

دنیا کے سوالوں میں

تھک کر خود ہی پھر وہ

مجھ کو ہر صورت منایا کرتی تھی

دل کی بڑی ہی کچی تھی

میں لمحے کو ہو جاتا جو دور اس سے

آنسوؤں کے کٹورے بھر دیا کرتی تھی

پھر میری بدقسمتی کا باب کھلا

وقت کو میں نے قید کیا

اس کے جزبوں کو پامال کیا

پالیں تھیں جو اس نے دل میں

ان سبھی حسرتوں کو کنگال کیا

اس کے مان ٹوٹ گئے مجھ سے

اس کے خواب چھوٹ گئے مجھ سے

میں نے ظاہر کر دیا بے بس خود کو

اور اس سے پیچھے کر لیا خود کو

وہ محبتوں کی دیوی تھی

میں نے نہ جانے کیوں

اس سے بچا لیا خود کو

مجھے اب وہ یاد آتی ہے

جس نے میری آس میں ہی تھا کھو دیا خود کو

وہ بچھڑ گئی ہے خود سے

چپ چپ سنسان سی رہتی ہے

اپنے اندر چھپائے کوئی غم

بہت پریشان سی رہتی ہے

نہ وہ ڈھلتا سورج

نہ چاند نہ تارے

قوس قزح کے رنگ نہ بارشوں کی بوندیں

کچھ بھی نہیں بھاتا اب اسے

اب اس کی آنکھیں برسات کرتی ہیں

مجھے بہت ہی یاد کرتی ہیں

مگر میں نے کھو دیا اس کو

اپنی مجبوریوں کی ضد میں

اندر سے توڑ دیا اس کو

نہ جانے اب زندگی کیوں ویران سی لگتی ہے

اس کے جانے سے سب بہاریں

خزاں بن کر انجان سی لگتی ہیں

ہائے کہ میں نے کھو دیا اس کو

وہ جو میری تھی صرف میری

میں نے آہوں میں ڈبو دیا اس کو

کبھی جو بیٹھ کر سوچے گا

تڑپ کر وی بول اٹھے گا

محبت میں پگلی تھی وہ

اور میں نے کھو دیا اس کو

ہائے وہ لڑکی

وہ پگلی سی لڑکی

 

 

Comments are closed.