رمضان میں تہجد کی اہمیت

مولانا ندیم الواجدی
اللہ جسے توفیق دے اسے سال کے بارہ مہینے تہجد کی نمازضرورپڑھنی چاہئے، اگر تمام سال تہجد کی پابندی ممکن نہ ہو تو رمضان میںتو پڑھ ہی لینی چاہئے،ویسے بھی یہ نماز رمضان میں سہولت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے، تہجد اور سحری کا وقت تقریباً ایک ہی ہوتاہے، اگر سحری کے لیے کچھ دیر پہلے اٹھنے کا معمول بنالیا جائے تو بہ آسانی نوافل تہجد ادا کئے جاسکتے ہیں، اگر سحری اول وقت کرلی جائے توصبح صادق سے پہلے بھی تہجد پڑھنے کی گنجائش ہے، بس تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے، نماز تہجد یہ ہے کہ عشاء کے بعد رات کو سوکر اٹھیں اور کچھ نوافل پڑھیں، سونے سے قبل جو نفلیں پڑھی جائیںگی وہ تہجد میں شمار نہیں ہوں گی، حدیث کی کتابوں میں نماز تہجد کے بے شمار فضائل مذکور ہیں، ایک حدیث میں ہے : ’’ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے،‘‘ (صحیح مسلم ۲؍ ۸۲۱، رقم: ۱۱۶۳) دور صحابہ ؓ سے لے کر آج تک تمام بزرگان دین اور اولیاء اللہ کا معمول تہجد کی نمازپڑھنے کا رہا ہے، صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ کوئی شخص تہجد کی نماز پڑھے بغیر درجۂ ولایت تک نہیں پہنچ سکتا، تہجد کی نماز سنت ہے ، اوررات کا آخری حصہ اس کا بہترین وقت ہے، اس نماز کی کم از کم دو رکعتیں اورزیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ہیں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات آٹھ رکعت پڑھا کرتے تھے(عمدۃ الفقہ: ۲؍ ۱۶۳)۔
قرآن کریم میں سب سے پہلے تہجد کا ذکر سورۂ مزل کی ابتدائی آیات میں آیا ہے، یہ مکی سورت ہے، اور بالکل ابتدائی سورتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے، روایات میں ہے کہ سب سے پہلے غار حرا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور سورۂ اقراء کی ابتدائی آیات آپ کو سنائیں، فرشتے کی آمد اور وحی کے نزول کا یہ بالکل پہلا اور انوکھا واقعہ تھا، آپ پر اس کا طبعی اثر ہوا، گھبراہٹ اور اضطراب کی کیفیت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ سردی بھی محسوس فرمارہے تھے، آتے ہی فرمایا زمّلونی زمّلونی مجھے چادر اوڑھادو، مجھے کپڑے سے ڈھانپ دو،اس واقعے کے بعد کچھ دنوں تک سلسلۂ وحی بند رہا ،اس زمانے کو جس میں وحی کا سلسلہ بند رہا فترۃ الوحی کہا جاتا ہے، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف لے جارہے تھے، آپ نے چلتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ آسمان وزمین کے درمیان معلق کرسی پر بیٹھا ہو انظر آیا جو غار حرا میں آیا تھا، آپ پر خوف واضطراب کی وہی کیفیت دوبارہ طار ہوئی، آپ فوراً گھر تشریف لے گئے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا مجھے ڈھانپ دو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یا ایہا المدثر(بخاری:۱۵؍ ۲۳۸، رقم: ۴۵۴۴)بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں یا ایہا المدثر کا ذکر ہے، ہوسکتا اس حالت کو بیان کرنے کے لیے یا ایہا المزمل بھی فرمایاگیا ہو، اس عنوان خاص سے خطاب فرماکر آپ کو نماز تہجد کا حکم دیا گیا: فرمایا ’’اے کپڑوں میں لپٹنے والے رات کو (نمازمیں) کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات ( کہ اس میں آرام کرو) یا اس نصف سے کسی قدر کم کرو یا نصف سے کچھ بڑھادو اور (اس قیام لیل میں) قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو‘‘۔ (المزمل: ۱-۴) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ بغوی نے لکھا ہے کہ اس آیت کی روسے قیام اللیل یعنی رات کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تمام امت پر فرض تھی اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب امت پر پانچ نمازیں فرض نہیں ہوئی تھیں، اس آیت میں صرف قیام اللیل ہی کو فرض قرار نہیں دیا گیا بلکہ کم ازکم ایک چوتھائی رات اور زیادہ سے زیادہ دوتہائی رات تک قیام لیل بھی فرض کیاگیا ، حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے کہ ’’ قیام لیل تو امر وجوبی سے فرض ہوا مگر مقدار وقتِ قیام میں تین صورتوں میں اختیا رہے نصف شب، دوتہائی شب، ایک تہائی شب(تفسیر بیان القرآن:۲؍ ۷۰۸) ۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ اس حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رات کا اکثر حصہ نماز تہجد میں گزار اکرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے پاؤں پر بھی ورم آجاتا تھا، یہ حکم بڑا سخت تھا، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ نے اس حکم کی پابندی کی ، اور یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا، ایک سال کے بعد اس سورت کا دوسرا رکوع نازل ہوا جس میں یہ آیت فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ اس آیت کے ذریعے تہجد میں طویل قیام کی پابندی منسوخ کردی گئی اور اختیار دے دیاگیا کہ جتنی دیر کسی کے لیے آسان ہوسکے اتنی دیر کے لیے نمازمیں کھڑا ہوجائے، یہ مضمون ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عائشہؓ سے منقول ہے، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب پانچ نمازوں کی فرضیت شب معراج میں نازل ہوئی تو نماز تہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ سنت پھر بھی رہی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس نماز پر مداومت فرمائی، اکثر صحابۂ کرام بھی پابندی کے ساتھ تہجد کی نماز ادا کرتے تھے(تفسیر مظہری:۱۲؍ ۱۰۴)۔
نماز تہجد کی حکمت خود اسی سورۂ المزمل کی اس آیت میں مذکور ہے: ’’ ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں‘‘( المزمل: ۵) حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ قیام لیل کو شاق نہ سمجھنا ہم تو اس سے بھی بھاری کام تم سے لینے والے ہیں‘‘(تفسیر بیان القرآن:۲؍ ۷۰۸) اس بھاری کام سے مراد نزول قرآن ہے، احادیث میں ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو سخت سردی کے موسم میں بھی آپ پسینے پسینے ہوجاتے تھے جس اونٹنی سوار ہوتے وحی کے بوجھ سے وہ گردن ڈال دیتی ،ایک مرتبہ آپ کی ران حضرت زید بن ثابتؓ کی ران پر رکھی ہوئی تھی کہ وحی نازل ہوئی، وحی کے بوجھ سے زید بن ثابت کی ران ٹوٹنے کے قریب ہوگئی، بہ ہر حال اس آیت میں اس طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ نماز تہجد کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ انسان مشقت برداشت کرنے کا خوگر بنے ،گویا تہجد رات کو نیند کے غلبے اور نفس کی راحت کے خلاف ایک جہاد ہے، اس سے اگلی آیات میں تہجد کی یہ حکمتیں بیان کی گئی ہیں: (۱) اس نماز سے نفس کو قابو میں رکھنے اور ناجائز خواہشات پر اڑنے سے روکنے میں بڑی مدد ملتی ہے، (۲) رات کا وقت عموماً کاموں سے فراغت اور شورو شغب سے نجات اور سکون کا ہوتاہے، اس وقت کان بھی ذکر الٰہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دل بھی حاضر ہوتاہے، (۳) رات کے وقت تلاوت قرآن زیادہ درست اور جماؤ وثبات کے ساتھ ہوسکتی ہے، اس وقت مختلف قسم کی آوازوں اور شور شغف سے ذہن منتشر نہیںہوتا، (۴) دن میں طرح طرح کی مصروفیات ہوتی ہیں ، مختلف قسم کے مشاغل رہتے ہیں، فراغت قلبی کے ساتھ عبادت میں توجہ مشکل ہوتی ہے، رات کا وقت اس کام کے لیے رہنا چاہئے کہ بہ قدر ضرورت آرام بھی ہوجائے اور قیام لیل کی عبادت بھی(تفسیر معارف القرآن: ۸؍ ۹۵۲)۔
رات کے آخری پہر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ رہتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میںہے اللہ تعالیٰ ہر رات اس وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں جب ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتے ہیں کون ہے جو مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنوں کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہتا ہے میں اس کی مغفرت کروں (سنن ابی داؤد:۴؍۸۳، رقم: ۱۱۲۰)۔
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۷۹؍ میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطا ب کرتے ہوئے فرمایا گیا : ’’اور کسی قدر رات کے آخری حصے میں بھی نماز تہجد پڑھا کریں جو آپ کے لیے زائد چیز ہے امید ہے آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل: ۷۹) حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے لکھاہے کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اول نماز تہجد کا حکم دیا گیا پھرآپ سے مقام محمود یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیاگیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقام شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے۔ (تفسیر معارف القرآن: ۵؍ ۵۲۰)، اللہ کے جو نیک بندے رات کی نیند اورآرام قربان کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں نیاز مندی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ان کا ذکر جمیل قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ موجو د ہے : ’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اس طور پر کہ وہ اپنے رب کو امید اور خوف کے ( ملے جلے جذبات ) کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘ (السجدۃ: ۱۶)مفسرین نے اس آیت میں یدعون کے معنی یصلون لکھے ہیں یعنی نماز یں پڑھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے اس عظیم انعام کا وعدہ بھی کیا گیا ہے : ’’ پھر جو کچھ آنکھوں کو ٹھنڈا رکھنے کا سامان ان کے اعمال کے بدلے میں چھپاکر رکھا گیا ہے اس کی کسی کو خبر نہیں ہے۔‘‘ (السجدۃ: ۱۷) علامہ اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
واقف ہو اگر لذت بیدارئ شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
کہتے ہیں کہ رات کے آخری پہر فرشتوں کی ڈیوٹی تبدیل ہوتی ہے، ایسے وقت میں اگر بندگان خدا مصروف عبادت ہوں تو آنے والے فرشتے بھی اور جانے والے فرشتے بھی اس عمل کو نامۂ اعمال میں درج کریںگے، ڈاکٹروں کی رائے میں یہ وقت بڑا خطرناک ہے، عموماً دل کے دورے اسی وقت پڑتے ہیں، ایسے وقت میں غفلت کی نیند سونے کے بجائے اللہ کی عبادت میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے، اطباء کا خیال ہے کہ رات کے آخری حصے میں ہواؤوں کا مزاج بدلتا ہے، صبح کی فرحت بخش ہوائیں جسم وروح دونوں کے لیے صحت بخش ہوتی ہیں بشرطیکہ بیدار ہوکر ان ہواؤں سے لطف اٹھایا جائے۔
[email protected]

Comments are closed.