رمضان کا معرکۂ بدر

مولانا ندیم الواجدی
رمضان المبارک خیر وبرکت، طاعت وعبادت، اور جہد وعمل کا مہینہ ہے، اس مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں کفر واسلام کے درمیان سب سے اہم جنگی معرکہ بدر واقع ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتا ب کو الفرقان بھی کہا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن حق وباطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی اور ان کے فرق کو واضح کرنے والی کتاب ہے، قرآن کریم رمضان میں نازل ہوا، جنگ بدر بھی رمضان میںہوئی، قرآن کریم کو بھی الفرقان فرمایاگیا، اور اس دن کو بھی یوم الفرقان کہا گیا جس دن بدر کا معرکہ ہوا اور مسلمان فتح وکامرانی سے ہم کنار ہوئے، قرآن کریم میں ہے: ’’ اگر تم کو یقین ہے، اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری فیصلے کے دن جس دن بھڑیں دونوں فوجیں‘‘ ( الانغال: ۴۱)یوم بدر کو یوم فرقان کہنے کی حکمت مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ سب سے پہلے مادّی اورظاہری طورپر مسلمانوں کی واضح فتح اور کفار کی عبرتناک شکست اس دن ہونے کی بنا پر کفر واسلام کا ظاہری فیصلہ بھی اس دن ہوگیا، اوران دونوں کا فرق بھی واضح ہوگیا۔ (معارف القرآن: ۴؍ ۲۴۳)
جنگ بدر کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان مسلسل سعی وعمل کانام ہے، بھوک اور پیاس کے احساس کے ساتھ گوشہ نشین ہونے کا نام نہیںہے، یہ عجیب اتفاق ہے کہ جنگ بدر سمیت بہت سے فیصلہ کن معرکے اسی ماہ مبارک میں ہوئے، غزوہ بدر ۱۷؍ رمضان المبارک ، ۲ھ کو ہوا، اسلامی لشکر کی تعداد اور سازو سامان کے لحاظ سے یہ بہت معمولی جنگ تھی، لیکن جذبہ وجوش اور ایمانی طاقت وقوت کے اظہار کے اعتبار سے یہ غزوہ غزوات اسلام میں سب سے بڑا غزوہ ہے، اگراسے اسلام کی عزت وشوکت اور کفر وشرک کی ذلت ورسوائی کا نقطۂ آغاز قرار دیاجائے توغلط نہ ہوگا، بہ ظاہر مادّی اسباب کا فقدان تھا ، تین سو تیرہ سربہ کف مجاہدین کا لشکر شہادت کے جذبے کے ساتھ اس وقت کے جنگی اسلحہ سے لیس ایک بڑی فوج سے ٹکرایا اور اسے میدان چھوڑکر بھاگنے پر مجبور کردیا، میدان بدر آج بھی مسلمانوں کے عزم وحوصلے اور جذبۂ جاں نثاری اورکفر کی شرم ناک پسپائی کی داستان سنارہا ہے۔
آیئے اس ایمان افروز واقعہ کی کچھ تفصیلا ت پڑھیں، رمضان کے آغاز میں سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ قریش مکہ کا ایک بڑا تجارتی کارواں ابو سفیان کی سرکردگی میں شام سے وطن کی طرف پابہ رکاب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوجمع فرمایا اور یہ اطلاع دی کہ قریش کا تجارتی قافلہ واپسی کے سفر میں ہے، تم لوگ اس قافلے کا راستہ روکو، عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس قافلے کا سامان غنیمت میں عطا فرمائے، مسلمان یہ خبر سن کر اٹھ کھڑے ہوئے ، جنگ وجدال کا اور قتل وقتال کا نہ گمان تھا، نہ ارادہ تھا، اور نہ تیاری تھی، دوسری طرف ابو سفیان کواس مزاحمت کی سن گن لگ چکی تھی وہ ہر آنے جانے والے سے پل پل کی خبریں حاصل کررہا تھا، اسے جب یہ اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر قافلے پر حملہ کرنے کے لیے نکل چکا ہے تو اس نے اسی وقت کسی شخص کو کچھ پیسے دیکر مکہ مکرمہ جانے پر راضی کرلیا اوراس کے ذریعہ قریش کے سرداروں کو یہ خبر بھجوادی کہ جتنی جلد ممکن ہوقافلے کی حفاظت کے لیے روانہ ہوں، ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ ہمارا سامان تجارت لوٹ لیںگے، اور ہمیں قتل کرڈالیں گے۔
مسلمانوں کا قافلہ اپنے قائد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ۱۲؍رمضان کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوا، بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ تین سو تیرہ افراد پر مشتمل لشکر میں صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے ،لوگ پیدل چلتے یا باری باری سوار ہوتے، ایک اونٹ تین آدمیوں میں تقسیم کیا گیا تھا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جو اونٹ آیا اس میں ابو لبابہؓ اور علیؓؓ شریک تھے، جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ پا چلنے کے لیے اونٹ سے اترتے تو یہ دونوں حضرات عرض کرتے یا رسول اللہ! آپ تشریف رکھیں ہم پیدل چلیںگے، آپ ارشاد فرماتے تم چلنے میں مجھ سے زیادہ مضبوط نہیں ہو اور میں اجر کے معاملے میں تم سے کم ضرورت مند نہیںہوں۔
دوسری طرف ابو سفیان کے قاصد کی خبر نے مکہ کے قریش کو حواس باختہ کردیا ، مکہ کا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس نے اپنی جمع پونجی قافلے والوں کو سامان کی خریداری کے لیے سپرد نہ کررکھی ہو، اس قافلے کے لٹنے کا مطلب تھا کہ قریش مکہ اقتصادی طورپر دیوالیہ ہوجاتے، پورے مکہ میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی، ہر شخص جوش انتقام میں پاگل ہوا ٹھا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار جوانوں پر مشتمل لشکر ترتیب دیاگیا اور ابو جہل کی سرکردگی میں روانہ کردیاگیا، اس لشکر میں ابو لہب کے علاوہ تمام سرداران قریش شریک تھے۔
مسلمانوں کا قافلہ ابھی صفراء کے مقام پر تھا کہ جاسوسوں نے آکر اطلاع دی کہقریشی لشکر، تجارتی قافلے کی حفاظت کے لیے روانہ ہوچکا ہے، یہ سن کر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو جمع کرکے آگاہ فرمایا کہ قریش کی فوج مکہ سے نکل چکی ہے اس صورت حال میں ہمیں کیا کرناچاہئے، یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ وغیرہ حضرات کھڑے ہوئے انھوں نے صاف صاف عرض کردیا کہ واپسی کا کوئی سوال ہی نہیںہے، ہم ہر حال میں لڑیںگے، مقداد ابن اسودؓ نے سب کی طرف سے ترجمانی کے فرائض انجام دئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! جس چیز کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے اس کو انجام دیجئے، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، خداکی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح ہرگز یہ بات کہنے والے نہیں ہیں کہ اے موسیٰ تم اورتمہارا رب جاکر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں، ہم تو یہ کہیں گے، جہاں آپ اور آپ کا پرور دگار جنگ کرے گا ہم بھی آپ کے ساتھ وہاں جنگ کریںگے، یا رسول اللہ! ہم آپ کے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے سے لڑیں گے، روایات میں ہے کہ مقداد ؓ کی یہ تقریر سن کر چہرہ انور فرط مسرت سے دمکنے لگا، اس موقع پرایک انصاری صحابی حضرت سعد بن معاذ ؓ نے بھی جوشیلی تقریر کی، انھوں نے کہا خدا کی قسم! اگر آپ ہم کو سمندر میں کودنے کے لیے کہیںگے تو ہم سمندر میں کود پڑیںگے، اور ہم میں سے کوئی بھی شخص پیچھے نہ رہے گا، اللہ ہم میں آپ کو وہ چیز دکھائے گا کہ جس کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھندی ہوںگی‘‘ جذبۂ نیاز مندی اور جاں نثاری سے بھرپور جوابات سن کر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، اور فرمایا! اللہ کے نام پر چلو، تمہارے لیے خوش خبری ہے، اللہ نے مجھ سے یہ وعدہکیا ہے کہ وہ تمہیں کفار کی دو جماعتوں، ابو سفیان کے قافلے اور ابوجہل کی فوج میں سے کسی ایک پر ضرور غالب کرے گا، قریش کی فوج مدینہ کی طرف کوچ کررہی تھی دوسری طرف ابو سفیان نے قافلے کا رخ بدل دیا، اور ساحل کے راستے سے ہوتا ہوا صحیح سالم نکل گیا، اس نے قریش کو یہ اطلاع بھی بھجواد ی کہ قافلہ صحیح سالم پہنچ رہا ہے، تم قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے قافلہ محفوظ ہے، اب تم سب مکہ واپس چلے جاؤ، مگر ابو جہل واپسی پر آمادہ نہ ہوا، اس نے اعلان کیا اب ہم بدر ضرورجائیںگے، اور تین دن تک وہاں ٹھہر کے کھائیںپئیںگے مزے اڑائیںگے پھر واپس ہوںگے۔
قریش کا لشکر مسلمانوں سے پہلے بدر پہنچا اوراس نے وہاں کے اہم مقامات پر جاتے ہی قبضہ کرلیا، پانی کا چشمہ بھی ان کے قبضے میں آگیا مسلمانوں کو نہ مناسب جگہ ملی اورنہ پانی ملا، ریتیلا میدان تھا، جہاں چلنا دشوار تھا، ریت میں پیر دھنس دھنس جاتے تھے، لیکن اللہ کی مدد نازل ہوئی اور جم کر پانی برسا، تمام ریت جم گئی اور مسلمانوں نے چھوٹے چھوٹے گڑھے کھود کر پانی ذخیرہ کرلیا، جس صبح معرکہ کارزار گرم ہوا اس کی رات تنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیام گاہ پر جاگتے رہے، حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ بدر کی شب ہم میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو سویا نہ ہو، مگر آپ تمام رات بیدار رہے، نمازدُعا ، اورگریہ وزاری میں مشغول رہے، طلوع فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے لیے صحابہ کو آواز دی، نماز سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں جہاد کے فضائل بیان فرمائے کچھ دیر کے بعد مسلمانوں کی نہتی فوج میدان جنگ کی طرف بڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے اے اللہ یہ قریش کا گروہ ہے، جو تکبر وغرور کے ساتھ مقابلے کے لیے آیا ہے، یہ گروہ تیری مخالفت کرتا ہے، تیرے پیغمبر کی تکذیب کرتا ہے، اے اللہ تو اپنی فتح ونصرت نازل فرما، جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اے اللہ انھیں ہلاک کر، جنگ شروع ہوئی اعداء اسلام کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے، تمام بڑے سردار اور ان کے ہم نوا ہلاک ہوگئے جو بچے وہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے کچھ قید کرلئے گئے، بہت سا مال غنیمت میں حاصل ہوا،اس طرح بدر کا یہ میدان ایک عظیم واقعے کی یاد گار بن گیا۔
[email protected]

Comments are closed.