رمضان

علیشاء بٹ (ڈسکہ)
رمضان جو کے عربی زبان کے لفظ ”رمض” سے لیا گیا ہے جس کے معنی ”کسی چیز کا جلنا” یا ”حرارت” کے ہیں۔ اس معنی سے ہی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس مبارک مہینے میں ہمیں کیا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔اس حقیقت کے گہرے ادراک کےلیےہم تطبیق دیتےہیں تویہ بات کھل کرسامنےآتی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے جو رحمان ہے، رحمۃ للعالمین ہے، اس نے ایک اسلام کے اہم ستون کی نشانی گرمی اور حرارت سے کیوں منطبق فرمائی؟
اگر معنی پرہی غور کیا جائے تو اس میں رحمت ہے، مغفرت ہے، برکت اور نجات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس پاک مہینے کے پہلے عشرے میں رحمت، دوسرے عشرے میں مغفرت (گناہوں سے توبہ)، اور تیسرے عشرے میں جہنم کی آگ سے نجات حاصل ہوتی ہے۔”
اسی طرح غور کیا جائے تو اس بات کو ادراک کرنا مشکل نہیں کے کیسے پہلے عشرے میں حرارت تھوڑی سی سرایت کرتی ہے اور عبادت کی روشنی ہماری جسم، روح کو پاک اور منور کرنے لگتی ہے۔ پھر دوسرے عشرے میں وہ روحانیت کی جلا رحمت بن کر نازل ہوتی ہے اور انسان اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتا ہے، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے، توبہ کرتا ہے اور پھر آخری مطلب تیسرا عشرہ جس میں اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو مخفی رکھا ہے اس عشرے میں جہنّم کی آگ سے نجات کی نوید ہے۔ تیسرے عشرے تک انسان کی کثافتیں اس حد تک دور ہوجاتی ہے کے انسان اور پاک پروردگار کے درمیان کوئی شیطانی وسوسے داخل نہیں ہو سکتے۔
روزے کی حرارت نفسِ امارہ کو جلا کر انسانیت کو خراج تحسین بخشتی ہے اور حرارت ایمان پیدا کرتی ہے۔ یہ حرارت انسان کو کندن بنا دیتی ہے بالکل اُس طرح جیسے سونے کو ملائم، چمکدار اور کثافتوں سے پاک کرنے کے لیے آگ میں تپایا جاتا ہے۔ رمضان میں ہر چیز کا ثواب دُوگنا ہوجاتا ہے خواہ وہ قرآن کریم کی تلاوت ہو یا کوئی نوافل کی ادائیگی ہو یا کوئی ذکرِ الٰہی ہو۔ پھر بھی ہم اس بات سے فائدہ نہیں اٹھاتے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ایسا کیوں ہے کے یہ امت جس کے لیے سرورِ عالم حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو عبادت کرتے، جس کی مغفرت کے لیے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری رات آنسو بہاتے کہ ”اے اللہ! میری امت کو بخش دے۔” وہ کیوں غفلت برت رہی ہے اس مہینے سے۔ یہ مہینہ یقیناً رحمت کا مہینہ ہے، مغفرت کا مہینہ ہے، رحم کا مہینہ ہے، ہر اجر دُوگنا ہوجاتا ہے، اللہ اکبر کبیرا۔ بیشک یہ مہینہ رحم کا مہینہ ہے لیکن یہ مہینہ غضب (غصّہ) کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ مہینہ اللہ سبحان وتعالیٰ کے غصّے کا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مہینہ آپ کے لئے پچھتاوے کا بھی ہوسکتا ہے اور یہ سب کیوں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: ”رَغِمَ أنْفُ” ”ناک خاک آلودہو”استغِرُاللہ یا ربی! یہ کون فرما رہے ہیں سرورِ کونین، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کو اپنے دشمنوں سے ہمدردی تھی، جن کو اسلام کے دشمنوں سے ہمدردی تھی، جن کے دل میں کفار کے لیے ہمدردی تھی۔ جنہوں نے اپنے پہ ظُلم کرنے والوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا مانگی تھی۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ °ترجمہ: ” اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کےلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا”.
کیسا لگے گا آپ کو جب آپکا کا کوئی بہت قریبی، بہت عزیز آپکو بددُعا دے۔ آپکی ماں، آپکے استاد یا کوئی بھی عزیز جس کا آپکو معلوم ہوکے اس شخص کی دعا اللہ ضرور قبول فرمائے گا۔ وہ شخص آپکو بددُعا دینے ہی والا ہوکہ آپ اس کو روک لیتے ہیں نہیں خدا کا واسطہ نہیں یہ الفاظ ایسے مجھے نا کہے۔ اور یہاں تو اللہ کے حبیب پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو بددعا دے رہے ہیں۔ استغِرُاللہ انہوں نے اس حدیث میں یہ الفاظ فرمائے کے:”ناک خاک آلودہو، جو رمضان تک زندہ رہا لیکن پھر بھی اللہ سبحان و تعالی نے اسے معاف نہیں فرمایا”استغفر اللہ! لمحہ فکریہ ہے کہ اگر اللہ آپکو اس پاک مہینے، اس مغفرت والے مہینے، اس رحمت والے مہینے، اس مہینے جب آپکی ساری برائیاں نیکیوں میں تبدیل ہونا شروع کردیتی ہے اس مہینے میں معاف نہیں فرمائے گا تو کب فرمائے گا؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیےجاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔”
سبحان اللہ! اللہ یہ رحمت کرتا ہے اپنے بندوں کے لیے اور وہاں بندے اس رحمت سے غفلت برت رہے ہوتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اس مہینے میں اگر کچھ چھوٹ گیا تو خیر ہے نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے. روزہ فرض ہے، واجب ہے تھوڑی سی چوٹ آئی، ہلکا سا کہیں درد ہے، آج گرمی بہت ہے، کہیں سفر پر جانا ہے چلو پھر روزہ نہیں رکھتے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا ہے روزہ فرائض میں سے ایک فرضی عبادت ہے۔ یاد رہے جتنی روزے میں آپ مشقتیں برداشت کریں گے اتنا ہی دگنا ثواب آپ کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بلا عذر رمضان کا ایک بھی روزہ چھوڑے، تو زمانے بھر کے روزے اُس کےلیے کافی نہ ہونگے۔”
روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ اس لیے خدرا چھوٹی چھوٹی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے اس عبادت سے محروم نہ رہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔”ایک خوشی ہر روزے دار کو اس وقت میسر ہوتی ہے جب وہ کڑے دن شدید گرمی کی بھوک اور پیاس کے بعد لذتِ طعام سے آسودہ ہوتا ہے۔ دوسری خوشی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس وقت نصیب ہوگی جب عالمِ اخروی میں اسے دیدارِ الٰہی کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا جائے گا۔
ہمارےملک میں فرقہ واریت کی وجہ سے ایک دوسرے کی مسجدوں میں نہیں جاتے، ایک دوسرے کی اذانوں کو الگ الگ مانتے ہیں جب کہ ہم کچھ بھی ہونے سے پہلے مسلمان ہیں اور یہی بات سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔ زندگی کا ایک عرصہ میں نے مدینہ منورہ میں گزارا اور اس پورے عرصے میں نہ ہم سنی تھے، نہ وہابی، نہ شیہ، نہ دیو بندی، نہ لبیک ہم صرف ”مسلمان” تھے۔
وہ رمضان کا مہینہ
وہ مدینہ کی گلیاں
وہ مسجدِ نبوی
وہ آواز آذان کی
وہی راحت ہے
وہی سکون ہے
جیسے وہ سحری کے لیے رونقِ لگنا، افطاری کے لیے دسترخوان کا سجنا، تراویح میں صف بندی کا ہونا، جس میں ہر طرح کے مسلمان ہوتے ہیں نا کوئی فرقہ واریت ہوتی ہے سب مل کر ایک صف میں کھڑے اللّٰہ کی عبادت میں گُم ہوتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔”
اللہ سبحانہ وتعالی ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
Comments are closed.