دعائوں کا موسم

مولانا ندیم الواجدی
دعاکو مومن کے ہتھیار کہاگیا ہے، حقیقت میں ایک مجبور اورمظلوم انسان کے لیے دعا سے بڑھ کر کوئی سہارا نہیںہوتا، ہر طرف سے مایوس ہوکر بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی طرف ہی دوڑتا ہے، اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتاہے، اسی سے مدد مانگتا ہے، اسی کے درپر سر عجز ونیاز جھکاتا ہے، دعا کی اپنی انفرادیت ہے، اپنی شان ہے، اپنی اہمیت ہے، حدیث شریف میں اسے عبادت بھی کہا گیا ہے، فرمایا: الدعاء ہو العبادۃ(ابوداؤد: ۴؍ ۲۷۸، رقم الحدیث: ۱۲۵۴، ترمذی: ۱۰؍ ۲۲۹، رقم: ۲۸۹۵) ’’دعا ہی عبادت ہے، ‘‘ ایک حدیث میں اسے تمام عبادتوں کا جوہر ، خلاصہ اور نچوڑ بھی فرمایا گیا: الدعاء مخ العبادۃ(سنن الترمذی: ۱۱؍ ۲۲۰، رقم: الحدیث: ۳۲۹۳) ’’دعا عبادت کا مغز ہے،‘‘ ایک حدیث میں اسے افضل ترین عبادت قرار دیاہے: افضل العبادۃ الدعاء(کنز العمال: ۲؍ ۶۴ ، الجامع الصغیر: ۷؍ ۲۹۹۷، رقم: ۲۸۵۰)’’ عبادات میں سب سے افضل عبادت دعا ہے‘‘ دیکھا جائے تو اصل دین دعا ہی ہے، اس میں توحید اپنی تمام حقیقتوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے، ایک بندے کا اپنے معبود حقیقی کے ساتھ جو رشتۂ احتیاج ہے وہ فی الحقیقت دعا میں جھلکتا ہے، عاجزی اورانکساری، محتاجگی، اور بندگی جیسے الفاظ دعا کے سانچے میں ڈھل کر اپنا صحیح مفہوم ادا کرتے ہیں ،اسی لیے اللہ کو دعا کی عبادت بہت زیادہ پسند ہے، حدیث شریف میں ہے : لیس شئ اکرم علی اللّٰہ تعالیٰ من الدعاء(کنز العمال: ۲؍ ۶۶، مجمع الزوائد:۱؍ ۸۱) ’’اللہ رب العزت کو دعا سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیںہے۔‘‘
اللہ اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اس سے مانگیں، اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائیں،اس کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں کا اظہار کریں، اپنی تمنائیں اور آرزوئیں اس کے سامنے رکھیں تاکہ وہ عطا کرے، وہ بغیر مانگے اتنا کچھ دیتا ہے، بلا طلب اس قدر نواز تا ہے، مانگنے پر کتنادے گا، جب کوئی اس کے سامنے دست طلب دراز کرتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے، اور وہ بندے کو اس کی حیثیت سے زیادہ عطا کرتا ہے، قرآن کریم میں ہے: وَقَالَ رَبُّکُمْ اَدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(المؤمن: ۶۰) ’’تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوںگا، جو لوگ میری عبادت سے منھ پھیرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوںگے‘‘ اس آیت میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو، یہ صیغۂ امرہے جو حکم دینے کے موقع پر استعما ل کیا جاتا ہے، دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اگر تم دُعا مانگوگے تو میں قبول کروںگا، ایسا نہیں کہ تمہاری دعا رائگاں جائے گی، بلکہ تمہیں اس در سے کچھ نہ کچھ ملے گا ضرور، ابھی یا کچھ وقت کے بعد، اسی دُعا کی صورت میں جو تم نے مانگی ہے یا اس سے بھی بہتر شکل میں، بہ ہر حال تمہاری دُعا قبول ضرور ہوگی، اگر تم نے مانگنے کے طریقے پر مانگی ، تیسری بات یہ ہے کہ جو لوگ گھمنڈ اورتکبر میں مبتلا ہیں، خود کو بڑا سمجھ کر دُعا سے اعراض کرتے ہیں، میری عبادت نہیں کرتے وہ بہت جلد جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں، ذلیل وخوار ہوکر دوزخ میں جانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگو تو اس یقین واذعان کے ساتھ مانگو کہ وہ کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا، ہر ایک کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈالتا ضرور ہے، إن ربکم تبارک تعالیٰ حیی کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یردہما صفرا(ابو داؤد:۴؍ ۲۸۷، رقم: الحدیث: ۱۲۷۳ ) ’’ تمہارا پرور گار صاحب عزت وتکریم اور پیکر شرم وحیاء ہے جب کوئی بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ وہ انھیں خالی اور نامراد لوٹادے‘‘ اللہ تعالیٰ کو بندہ کی یہ ادا بڑی پسند ہے کہ وہ اس سے مانگتا ہے، اسی کو منعم حقیقی سمجھ کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، ایسے بندوں کو یہ بتلا بھی دیاگیا ہے کہ اللہ ان سے بے حد قریب ہے، ان کی سن رہا ہے، ان کی دعائیں قبول بھی کررہا ہے، مگر صرف دعائیں مانگنا ہی کافی نہیں ہے، کچھ اور تقاضے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے، قرآن کریم میں ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ والْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ(البقرۃ: ۱۸۶) ’’جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں( تو آپ ان سے فرمادیجئے کہ) میں ان سے قریب ہوں، دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انھیں چاہئے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں، اور مجھ پر ( پختہ ) ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ چل سکیں‘‘ یہ کتنا پیار بھرا انداز ہے ربّ کریم کا کہ اگر میرا کوئی بندہ میرے متعلق یہ پوچھتا ہے کہ میرا رب میری دعائیں سن رہا ہے یا نہیں تو آپ اس سے کہدیجئے کہ وہ تجھ سے بے حد قریب ہے،
تیری دعائیں سنتا بھی ہے اور انھیں قبول بھی کرتا ہے، تیرا کام تو بس ایمان لانا اور اطاعت کرنا ہے، دوسری طرف جو لوگ اللہ سے مانگنے کو عار سمجھتے ہیں، اور اس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اللہ ان پر ناراض بھی ہوتاہے، ایک حدیث میں ہے: من لم یسأل اللّٰہ یغضب علیہ(سنن الترمذی: ۱۱؍ ۲۲۳، رقم الحدیث: ۳۲۹۵)جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘ ایک حدیث میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے : اعجز الناس من عجز من الدعاء وابخل الناس من بخل بالسلام(المعجم الاوسط للطبرانی:۱۲؍۳۲۷، رقم: ۷۵۹۴)’’ عاجز ترین انسان وہ ہے جو دعا مانگنے سے عاجز رہ جائے، اور بخیل ترین شخص وہ ہے جو سلام کرنے میں بھی بخل سے کام لے۔‘‘
بعض اوقات ہم دعا مانگتے ہیں مگر دعا قبول نہیںہوتی، اس سے مایوس نہ ہونا چاہئے، ہوسکتا ہے دُعا قبول نہ ہونے ہی میں ہمارے لیے خیر ہو، یہ بھی ممکن ہے جو چیز ہم مانگ رہے ہوں اس سے بھی بہتر چیز ہمیں دنیا یا آخرت میں ملنے والی ہو، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ما من احد یدعو بدعاء إلا آتاہ اللّٰہ ما سأل، أو کف عنہ من سوء مثلہ مالم یدع باثم اوقطیعۃ رحم(سنن الترمذی: ۱۱؍ ۲۳۷، رقم الحدیث: ۳۳۰۳، مسند احمد: ۲۹؍ ۳۹۹، رقم: ۱۴۳۵۰) ’’کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ وہ دُعا مانگے اور اس کی دعا قبول نہ ہو، یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ہٹانہ دی جائے، (مگر) یہ اس وقت ہوتاہے جب بندہ گناہ اور قطع رحمی سے دور رہتا ہو‘‘ اس حدیث سے تیں باتین معلوم ہوئیں ایک تویہ کہ بندے کی دُعا قبول ضرور کی جاتی ہے،دوسرے اگر دعا جوں کی توں قبول نہ کی گئی تو اس جیسی کوئی مصیبت کوئی تکلیف دہ اور اذیت ناک چیز مانگنے والے سے دور کردی جاتی ہے، گویا یہ بھی قبولیت دُعا کی ایک صورت ہے، تیسری بات یہ کہ قبولیت دُعا کی بھی کچھ شرائط ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ دُعا کرنے والے کو گناہوں سے دور رہنا چاہئے، رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے چاہئیں ، اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہئے ،ایک اور حدیث میں ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ما من مؤمن ینصب وجہہ للّٰہ یسألہ مسألۃ إلاّ اعطاہ إیاہا، اما عجلہا لہ فی الدنیا واما اخرہا لہ في الآخرۃ مالم یعجل، یقول: قد دعوت دعوت فلا أراہ یستجاب(شعب الإیمان للبیہقی:۳؍ ۱۸۳، رقم: ۱۱۳۵، المسند الجامع:۴۴؍ ۱۴) ’’ کوئی بندہ مومن اللہ کے سامنے منھ اٹھاکر کوئی چیز مانگتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا کرتے ہیں، یا تو دنیا میں فوری عطا کردیتے ہیں، یا آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ فرمادیتے ہیں، بشرطیکہ بندہ جلدی نہ کرے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! بندہ کی عجلت کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں دُعا کی تھی، فلاں سوال کیا تھا، شاید میری دُعا قبول نہیں کی گئی۔‘‘
رمضان کے ساتھ دُعا کو خاص مناسبت ہے، ایک تو پورا ماحول ہی رمضان میںنور ایمان سے جگمگاتا رہتا ہے، دل گناہوں سے دور ہونے کی بناپر نیکیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں، ان حالات میں آدمی خود بہ خود اپنے پرور دگار کی طرف متوجہ رہتا ہے، کبھی نماز کے ذریعے، کبھی تلاوت کے ذریعے، کبھی ذکر کے ذریعے، کبھی صدقہ وخیرات کے ذریعے اور کبھی دُعا کے ذریعے وہ اپنے ربّ کے حضور حاضر رہتاہے، دعا کے لیے رمضان سے بہتر زمانہ کوئی دوسرا نہیں، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ سورۂ بقرہ کی جن آیات میں روزے کے احکام بیان کئے گئے ہیں ان میں ایک آیت :وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِی بھی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے روزوں کے احکام پر عمل کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ دُعا مانگیں، اس وقت جب خیر وخوبی کے ساتھ روزے مکمل ہوجائیں، یا ہر دن اس وقت جب روزہ تکمیل کو پہنچ رہاہو، بلکہ یہ دوسری صورت زیادہ قرین قیاس ہے، کیوں کہ اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے: ان للصائم عند فطرہ دعوۃ لاترد(سنن ابن ماجہ: ۵؍۲۹۵رقم: ۱۷۴۳) ’’افطار کے وقت روزہ دار جو دُعا کرتا ہے وہ رد نہیں کی جاتی‘‘(تفسیر ابن کثیر: ۱؍ ۳۲۸) رمضان میں ایک رات ایسے بھی آتی ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہوتی ہے، گویا اس رات میں جو دُعا مانگی جائے گی وہ ہزار راتوں کی دُعا سے افضل ہوگی۔
دُعا مانگنے کے کچھ اداب ہیں، کچھ شرائط ہیں، کچھ اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے دُعا قبول کرلی جاتی ہے، اورکچھ ایسے ہیں جن کی وجہ سے دُعا رد کردی جاتی ہے، دُعا مانگنے والے کو آداب دُعا کی رعایت بھی رکھنی چاہئے، مثلاً یہ کہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ کی حمدو ثنا کرے، فخر موجودات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی خدمت عالیہ میں درود کا تحفہ بھیجے، اخلاص کے ساتھ مانگے، اس یقین کے ساتھ مانگے کہ دُعا قبول ضرور ہوگی، دُعا کے وقت دل پوری طرح اللہ کی طرف متوجہ ہو، سوزوگداز کی کیفیت بھی مطلوب ہے، آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں تضرع بھی ہو، اپنی ہر ادا سے ہر کیفیت سے عاجزی وانکساری کا اظہار بھی کرے، بار بار گناہوں سے استغفار کرتا رہے، اس کی نعمتوں کا شکر بھی ادا کرے، دُعا میں مسجع مقفع عبارتیں لانے کی ضرورت نہیںہے، باوضوہوکر قبلہ رُخ بیٹھے، ہاتھ اٹھاکر دُعا مانگے، پہلے اپنے لیے دُعا مانگے پھر دوسروں کے لیے دُعا کرے، دُعا کے دوران اللہ کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کا ذکر بھی جاری رہے، اپنے یا کسی نیک وصالح شخص کے اعمال صالحہ کا حوالہ بھی دے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا وسیلہ ضرور اختیار کرے، دعا کرنے والے کی غذا حلال ہونی چاہئے، قبولیت دُعا کے لیے اعمال صالحہ کا خوگر ہونا ضروری ہے، دُعا کرنے سے پہلے صلاۃ التوبۃ یا صلاۃ الحاجۃ پڑھ لینی چاہئے، دُعا کے وقت آواز دھیمی رکھے، تمام مسلمانوں کو اپنی دعا میں شامل کرے، امید ہے ان آداب کی رعایت کے ساتھ مانگی جانے والی دُعا قبول ہوگی، ویسے بھی مؤمن کو کسی بھی حال میں مایوس نہ ہونا چاہئے، اگر دُعا قبول نہ ہو تو اسے اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ سمجھنا چاہئے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی لمبا سفر کرکے بکھرے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ آتاہے اورآسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر یارب یارب کہہ کر دُعا کرتا ہے جب کہ اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، اس کی پوری غذا حرام ہے، بھلا اس کی دُعا کیسے قبول ہوگی۔‘‘(الجامع الصغیر: ۱۰؍ ۴۵۷، رقم: ۴۵۱۰) ۔
[email protected]
Comments are closed.