غزوۂ بدر: حق و باطل کے درمیان پہلا عظیم الشان معرکہ

حافظ معراج المو منین ۔انجینر پاور گرڈ۔رانچی
غزوۂ بدر تاریخ انسانی کا عظیم الشان اور تاریخ ساز معرکہ ہے۔ مورخین اس معرکہ کو’’ غزوۂ بدرۃ الکبریٰ ‘‘اور’’ غزوۂ بدرۃ العظمیٰ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیںلیکن دنیا کی سب سے سچی اور لافانی کتاب قرآن کریم میں اللہ جلّ شانہ‘ نے اس عظیم معرکہ کو یوم الفرقان (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن )کے نام سے تعبیر فرمایا ہے ۔یعنی یہ وہ عظیم دن ہے جب حق و باطل، خیرو شر، ہدایت و ضلالت اور کفرو اسلام کے درمیان فرق آشکارہو گیا۔حق غالب رہا اور باطل مغلوب ۔اور اقوام عالم کو بھی پتہ چل گیا کہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون ہے۔ اس تاریخی معرکہ میں لشکر اسلام میں صرف تین سو تیرہ فرزندان اسلام کی تعداد تھی جو کفار کی تعداد سے ایک تہائی تھی ۔ وسائلِ جنگ کے اعتبار سے بھی بظاہر بہت کمزور تھے۔ اس وقت ساری قوم کہہ رہی تھی کہ سامنے والے لشکر سے لشکر اسلام کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ لشکر اسلام کے غلبے اور فتح مند ہونے کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی تھی ۔ لوگ تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ( نعوذو با اللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی خودکشی کے لئے نکلے ہیں۔لیکن جو اللہ کے نام اپنی جانوں کو ہتھیلی پرلے کر نکلے تھے انہیں کوئی نہ مار سکا وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔بدری صحابہ کے نام سے مقبول ہیں۔
طلوع اسلام اور دعوت حق کہ بعد رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اور قریش کی طرف سے سخت مصائب و آلام کا سامنا رہا۔ لیکن بات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کران مسلمانوں کی جانوں تک جا پہنچی جو نئے نئے اسلام لائے تھے تو ربّ کائنات کے حکم سے مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔ اسلام دنیا کا سب سے معتدل دین ہے۔ اسلام امن سلامتی کے آفاقی و عالمگیر پیغام کولے کر مکہ سے مدینہ تک پہنچ چکاتھا ۔ مدینہ پہنچنے پر عالمی سطح پر با لخصوص عرب کے سیاسی و مذہبی منظرنامے پر بہت تبدیلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ یثرب کی وادی کو مدینہ منورہ بنا چکے تھے۔آپ ؐ اپنی حکمت عملی کو برئوے کار لاتے ہوئے متعدد قبائل کے ساتھ معاہدات وصلح فرمائے ۔ اسلام کو مزید تقویت، مضبوطی اور استحکام پہنچانے کے لئے دور رس فیصلے صادر فرما ئے۔دوسری طرف قریش مکہ اسلام کے فروغ، اہل اسلام کی خوشحالی اور عزت ووقار کو کسی طرح بھی برداشت کرنے کے لئے قطعاََ آمادہ نہیںتھے۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے سکون حاصل نہ ہو سکا۔ قریش جو کہ اپنا اثر رسوخ مکہ سے مدینہ تک رکھتے تھے اس کی بدولت تمام قبائل کو اسلام مخالف بنا لیا تھا۔ یوں مکہ میں جو مصیبت تھی وہ گو سخت تھی لیکن تنہا اور منفرد تھی مدینہ میں آکر وہ متعد اور گو ناگوں بن گئی۔ پے درپے حملے شروع کر دئے۔ ہجرت کے ساتھ ہی قریش نے مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم و تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کر نتیجہ اللہ پرچھوڑنے کا فیصلہ فرمایا۔اور نتیجہ وہی نکلا جو آپ نے سوچا تھا۔ یعنی حق فتح مند ہوااور باطل ذلت آمیز شکست سے دوچار ۔
حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے میدان میں ہوا یہ مقام مدینہ منورہ سے ۱۵۵ کیلومیٹر اور مکہ معظمہ سے ۳۱۰ کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا ۔ قریشیوں کی فوج نے یہںپر پڑائو ڈالا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات کی جب اطلاع ہوئی تو اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا ۔ جناب حضرت ابوبکرصدیق اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نہایت جاں نثارانہ ومجاہدانہ تقاریر کیں اورجاں نثاری کا یقین دلایا۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا کی قسم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاںتشریف لے جائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں، جو حکم فرمائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ ہیں، بدر کیا آپ سمندر میں کود جانے کا حکم دیں بلا چوں چرا کود پڑیں گے‘۔حضرت مقدار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا ’ ہم قوم موسیٰ جیسی بے وفا قوم نہیں ہیں جنہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جاکر لڑو ہم یہں بیٹھے ہیں بلکہ ہر وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں گے اور آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ کے تابعدار ہوں گے،جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیںگے بسم اللہ کیجیے انشاء اللہ اسلام ہی غالب آئے گا۔ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے ۔جب صحابہ کرام کے اس سرفروشانہ جذبے اور جوش ایمانی کو دیکھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس فرط مسرت سے چمک اٹھا پھر آپ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لئے بارگاہ خداوندی میں دعا خیر رفرمائی اور ارشاد فرمایا اللہ نے مجھ سے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے
۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ اور قسم ہے اللہ کی ! میں ابھی اسے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں ۔بدر کے قریب ایک چشمے پر پڑائو ڈالنے کا حکم دیا ۔۱۶ رمضان المبارک کو دونوں فوجیں پڑائو ڈال چکی تھیں۔
۱۷ رمضان المبارک کی مبارک شب تھی ، تمام مجاہدین اسلام آرام فرما رہے تھے جب کہ کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گذار دی ۔صبح کو نماز فجر کے لئے تمام سرفروشان اسلام مجاہدین کو بیدار کیا اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرماکر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدین اسلام کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و جذبے کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد از جلد معرکہ کے لئے تیار ہونے لگے ۔ ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی صف بندی کی ا ور دست رحمت کو بارگاہ رحمت میں دراز کرتے ہوئے التجا کی ائے پروردگار! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا فرما ۔ائے اللہ!اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک تمام رئوے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اس طرح خشوع خضوع سے دعا کر رہے تھے کہ آپ کی چادر مبارک آپ کے دوش اقدس سے گر گئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر مبارک اٹھا کر آپ کے کاندھے مبارک پرڈال دی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ نے جو فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا فرمائے گا۔جب ددست بہ دست عام جنگ شروع ہو گئی تو لشکر اسلام کا ہر سپاہی پورے جوش و جذبے کے ساتھ لڑ رہا تھا اور سر دھڑکی بازی لگا رہا تھا۔ ابو جہل نے بلند آواز میں یہ نعرہ لگایا ’ ہمارا مددگار عزیٰ ہے اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں جو تمہاری مدد کرے‘۔ حضو سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرزندان توحید کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں یہ نعرہ بلند کریں۔ ’اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہمارے مقتول جنت میں اور تمہارے مقتول جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی اٹھائی اور لشکر کفار کی طرف پھینکی اور فرمایا ’’شاھت الوجوہ‘‘ ’’ برے ہو گئے یہ چہرے‘‘چنانچہ کوئی کافر ایسا نہیں بچا جس کی آنکھوں اور ناک وغیر میں نہ لگا ہو۔ ان کی قوت و طاقت با لکل ٹوٹ گئی اور لشکر کفار میں بھگدر مچ گئی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان کنکریوں کو مارنا یوں بیان فرمایا ہے ’’اور (اے حبیب!)آپ نے (حقیقتاََ وہ خاک) نہیں پھینکی، جس وقت(بہ ظاہر) آپ نے ( خاک)پھینکی تھی، لیکن وہ (خاک) اللہ نے پھینکی ۔ (الانفال ۱۷)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا مخالفین کو شکست ہوئی اور مئومینین کو فتح حاصل ہوئی ۔ لشکر اسلام کے پاسبان و محافظ ،جان باز اور جاں نثار سپاہیوں نے تھوڑے ہی عرصے میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کر دیا۔ حضو سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مستجاب دعائوں کے صدقے رب ذوالجلال کی تائید و نصرت کی بدولت کفار کو شکست فاش ہوئی کہ جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ لشکر اسلام میں صرف ۱۴ خوش نصیب سرفروش مجاہدوں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا ۔ جب کہ قریش کے ۷۰ آدمی مارے گئے جن میں تقریباََ سبھی بڑے بڑے سردار شامل تھے۔میر کارواں سرور کائنات سالار اعظم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت صحابہ کرام ؓ نے جرأت و استقامت کی عظیم تاریخ رقم کی ، وہیں یہ تاریخ ساز غزوہ کفرو اسلام کا فیصلہ کن معرکہ بھی ثابت ہوا۔ یوم الفرقان، یوم البدر درحقیقت اسلام کی عظمت و سر بلندی کا مظہر اور بدر کی فتح اسلام کی عالمگیر ترویج و اشاعت کا دیباچہ ثابت ہوئی۔
غزوہ بدر وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ تھی جس میں امت اسلامیہ کی تقدیر اور دعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہوا۔ اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو جتنی فتوحات اور کامیابیاںحاصل ہوئیں اور ان کی جتنی حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں وہ سب اسی فتح مبین کی مرہون منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی۔ اس لئے اللہ نے اس جنگ کو قرآن مجید میں یوم الفرقان (حق و باطل میں فرق کا دن) کہا ہے۔ یعنی اس معرکہ میں مسلمانوں کی فتح و غلبہ نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اسلام حق ہے اور کفر و شرک باطل ہے۔
Comments are closed.