آپ کے شرعی مسائل

فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
اگر سفیر سے زکوٰۃ کی رقم ضائع ہو جائے
سوال: آج کل مدارس کے سفیر مختلف شہروں میں زکوٰۃ وصول کرنے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ایسے حادثات بھی پیش آتے ہیں کہ جیب کٹ جاتی ہے، یا غنڈے عناصر رقم چھین لیتے ہیں، کبھی دوڑ بھاگ میں جیب سے رقم گر جاتی ہے، اگر یہ حادثات زکوٰۃ کی رقم میں پیش آئے تو زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ (عبادہ شارب، کریم نگر)
جواب: اس مسئلے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خود زکوٰۃ ادا کرنے والے نے اپنی طرف سے زکوٰہ کی رقم کسی کے حوالہ کر دی، اور اس سے وہ رقم گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اور صاحب مال کو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے؛ لیکن موجودہ نظام مدارس میں علماء کی رائے ہے کہ مدرسہ کا ناظم یا سفیر طلبہ کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا وکیل ہوتا ہے، اور جب کوئی چیز وکیل کے قبضے میں آجائے تو وہ مؤکل کے قبضہ کرنے کے درجے میں ہے؛ اس لئے زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ادا ہوگئی، اور اس کو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں: لو ضاعت لا تسقط عنہ الزکوٰۃ ولو مات کانت میراثا عنہ، بخلاف ما اذا ضاعت في ید الساعي لأن یدہ کید الفقراء (رد المحتار:۲؍۲۷۰) اب اگر رقم ضائع ہونے میں سفیر کی کوتاہی نہیں ہو تو اس پر ہرجانہ لازم نہیںہوگا؛ لیکن وہ اپنی محنت کا مستحق بھی نہیں ہوگا: ولو ھلکت الزکوٰۃ في ید العامل سقط أجرہ ؛لأن حقہ فیما أخذ وأجزأت من أخذ منہ (الاختیار لتعلیل المختار: ۱؍۱۱۹) اور اگر اس کی کوتاہی کی وجہ سے رقم ضائع ہوئی تو وہ اس کا ضامن ہوگا، جیسا کہ دوسرے مالِ امانت کا حکم ہے۔
نابالغ شادی شدہ لڑکی کا صدقۃ الفطر
سوال: ہمارے علاقہ میں نابالغ بچوں اور بچیوں کا بھی نکاح ہوا کرتا ہے؛ چنانچہ زید نے اپنی نابالغہ لڑکی ہندہ کا نکاح راشد سے کر دیا، اور لڑکی کی رخصتی بھی ہو گئی، اب اس کا صدقۃ الفطر کون ادا کرے گا، باپ یا شوہر؟ جب کہ شوہر بھی نابالغ ہے۔(عبدالرحمٰن، جے پور)
جواب: بہتر طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کیا جائے؛ تاکہ نکاح میں خود ان کی رضامندی شامل ہو؛ لیکن اگر نابالغہ کا نکاح کر ہی دیا گیا اور اس کی رخصتی بھی ہو گئی تو باپ پر اس کا صدقۃ الفطر نہیں ہے: زوج ابنتہ الصغیرۃ من رجل وسلمھا الیہ ثم جاء یوم الفطر لا تجب علی الأب صدقۃ الفطر ( ہندیہ: ۱؍۱۹۲، کتاب الزکوٰۃ ، باب الثامن فی صدقۃ الفطر) اور اس کے شوہر پر بھی واجب نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وہ ابھی نابالغ ہے، اور لڑکا یا لڑکی جب تک بالغ نہ ہو جائے فرائض وواجبات ان سے متعلق نہیں ہوتے ہیں۔
اعتکاف کی حالت میں گھر سے سحری لانا
سوال: میں نے اپنے محلہ ہی کی مسجد میں اعتکاف کی نیت کر رکھی ہے؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ سحری کے وقت کھانا لانے کے لئے کوئی بڑا آدمی میسر نہیں، گھر میں بعض نوجوان بچے ہیں؛ لیکن وہ اس وقت نیند سے بیدار نہیں ہو پاتے، ایسی صورت میں کیا میں گھر جا کر کھانا کھا سکتا ہوں۔ (محمد افروز، بنگلور)
جواب: اگر نفل اعتکاف ہے یعنی دس دنوں سے کم کے اعتکاف کی نیت ہے، اور اِس اعتکاف کی نذر بھی نہیں مانی تھی تو گھر جا کر کھانا کھا کر آسکتا ہے، اور اگر اعتکاف کی نذر مانی تھی تو اب یہ اعتکاف واجب ہے، اگر نذر مانتے وقت ہی نیت کر لی تھی کہ گھر جا کر کھانا کھایا کروں گا تب تو اس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ منت کے طور پر جو اعتکاف ہو، اس میں اگر کسی عمل کو مستثنیٰ کر لیا جائے تو اس کا اعتبار ہے، تیسری شکل اعتکاف مسنون کی ہے، جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتاہے، تو اس میں گھر یا ہوٹل میں جا کر کھانا کھانا درست نہیں ہے، اس سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا: لا یخرج لأکل وشرب ونوم ولا عیادۃ مریض ولا صلاہ جنازۃ، فان خرج فسد اعتکافہ عمداََ أو ناسیاََ بخلاف ما لو خرج مکرھاََ ( البنایۃ بشرح الہدایۃ: ۴؍۱۳۰)البتہ جا کر کھانا کھانا اور کھانا لے کر آنا دونوں میں فرق ہے، اگر کوئی کھانا لانے والا نہیں ہے، اور بھوک کا تقاضہ ہے، اگر سحری نہ کھائے تو آئندہ دن روزہ رکھنے میں مشقت ہوگی تو اس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ یہ بھی ایک حاجت ہے اور حاجت انسانی کے لئے معتکف کا باہر نکلنا جائز ہے: ولا یخرج من المسجد الا لحاجۃ الانسان أو الجمعۃ (ہدایہ: ۱؍۱۲۹) البتہ اس صورت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ کھانا لے کر فوراََ آجائے، مزید رکنے سے اجتناب کرے اور مسجد میں لاکر ہی کھائے۔
شیئرز کی زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ
سوال: اس وقت شیئرز کی خریدوفروخت کا رواج بہت بڑھ گیا ہے، مگر اس کی قیمت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا ہے، ہمیشہ اس کی قیمت بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، ایسی صورت میں کیا اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور واجب ہوگی تو اس پر زکوٰۃ کا حساب کس طرح کیا جائے گا؟ (محمد فیاض، ممبئی)
جواب: آج کل عام طور پر شیئرز تجارتی کمپنیوں کے ہوا کرتے ہیں؛ لہٰذا وہ مال تجارت ہے اور شیئرز لینے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کو بیچنے ہی کی نیت سے لیا جائے تو یہ پورا کا پورا مال تجارت ہے، جس روز زکوٰۃ ادا کرنی ہو، اس دن دیکھنا چاہئے کہ مارکیٹ میں اس کی کیا قیمت ہے، جو مارکیٹ قیمت ہو اس کے لحاظ سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، اگرشیئرز رکھتے ہوئے صرف اس کا سالانہ فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے خرید کیا تو اس صورت میں کمپنی سے معلوم کرنا چاہئے کہ اس کا کتنا فیصد سرمایہ ٹھوس اثاثہ جیسے زمین، مکان، گاڑی وغیرہ کی شکل میں ہے، اور کتنا فی صد سرمایہ سیال شکل میں ہے، یعنی نقد رقم ہے، یا کسی کاقرض ہے، تو اس سیال سرمایہ کے بقدر مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی، مثلاََ پچاس فی صد سرمایہ ٹھوس اثاثے کی شکل میں ہے، اور پچاس فی صد سیال اثاثے کی شکل میں، تو شیئرز کی’’ مارکیٹ قیمت‘‘ کے پچاس فی صد پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور پچاس فی صد پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
مریض کو دوا کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی
سوال: میرے پاس بعض مریض آتے ہیں، جو زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں، اگر میں ان کو نقد رقم دے دون تو وہ اسے دوسرے کاموں میں خرچ کر لیں گے، اور علاج کا مسئلہ اپنی جگہ باقی رہ جائے گا، تو کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے بجائے دوائیں دی جا سکتی ہیں؟ (ڈاکٹر منصور احمد، کوکٹ پلی)
جواب: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جار ہی ہے، وہ زکوٰۃ کا مستحق ہو، اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ زکوٰۃ کس شکل میں دی جارہی ہے، زکوٰۃ کا مقصد ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا ہے، اور دوا تو انسان کی اہم ترین ضرورت ہے؛ اس لئے جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اتنی قیمت کی دوا زکوٰۃ کے مستحق مریض کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
اگر طلاق دینے میں شک ہو جائے
سوال: زید اپنے سسرال والوں کے گالی گلوج اور حملہ آور ہونے کی وجہ سے غصہ میں بے قابو ہوگیا، اور اپنی بیوی کو خطاب کر کے کہا کہ میں تم کو تین طلاق دے دوں گا، پھر دو مرتبہ طلاق ، طلاق، کہا، او ر اسے شک ہے کہ تیسری بار کہا یا نہیں، تو ایسی صورت میں اس کی بیوی پر کتنی طلاق واقع ہوگی؟
جواب: اولاََ تو غصہ کا حل طلاق نہیں ہے؛ بلکہ اس کو بیوی کے اس طرز عمل کے لئے سمجھانا اور کوئی دوسری تدبیر اختیار کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلاق آخری درجہ کا عمل ہے، اور بہت مجبوری ہی میں طلاق دینے کی گنجائش ہے؛ لیکن چوں کہ اسے دو طلاق دینے کا یقین ہے اور تیسری بار طلاق دینے اور نہ دینے کے سلسلے میں شک ہے، اور طلاق کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ صرف شک کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لئے اس صورت میں دو طلاقیں واقع ہوگئیں، صرف شک کی وجہ سے تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی: عدم الشک من الزوج في الطلاق وھو شرط الحکم بوقوع الطلاق حتی لو شک فیہ، لا یحکم بوقوعہ حتی لا یجب علیہ ان یعتزل امرأۃ ؛ لأن النکاح کان ثابتاََ بیقین ووقع الشک في زوالہ، بالطلاق فلا یحکم بزوالہ بالشک ۔(بدائع الصنائع: ۳؍۱۲۶)
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.