حساب ہو گا

ماہ نور نثار احمد (شکرگڑھ)

کون جانے جزا ملے گی
یا عذاب ہو گا
دل اسی سے کانپ اٹھتا ہے
حساب ہو گا ,حساب ہو گا
حشر کا دن کہ اٹھیں گے پردے
عیاں سب پہ رازو نیاز ہو گا
حساب ہو گا ,حساب ہو گا
جو بھی بویا ہے زندگی میں
جمع کیا ہے, وہاں ملے گا
اس دن بس اعمال اپنوں کا نصاب ہو گا, حساب ہو گا
نہ رشوت سے مل پائے گی جنت
نہ سفارش سے کوئی کام ہو گا
چلے گا سکہ عدل کا اس دن
اور انصاف عام ہو گا
حساب ہو گا ,حساب ہو گا
توحید, روزہ, نماز سب ہی
کا پوچھیں گے حشر میں
اخلاق سب سے ہے آگے اس دن
بھاری اس کا سوال ہو گا
حساب ہو گا, حساب ہو گا
وہ جس کی دنیا ہی زندگی ہے
نفس کو خود پہ برتری ہے
ظلم پہ اس کا اختتام ہو گا
اور قصہ تمام ہو گا ,
حساب ہو گا ,حساب ہو گا
نہ کوئی آسرا کسی کو دے گا
نہ کوئی دوست قریب ہو گا
اسی سے ہو گی امید سب کو
اسی کی رحمت کا سائبان ہو گا
اور حساب ہو گا, حساب ہو گا
کون جانے جزا ملے گی
یا عذاب ہو گا
دل اسی سے کانپ اٹھتا ہے
حساب ہو گا ,حساب ہو گا

Comments are closed.