رمضان اورانفاق فی سبیل اللہ

مولانا ندیم الواجدی
اللہ تعالیٰ نے ایمان کے تذکرے کے بعد سب سے پہلے جس عمل صالح کی طرف اہل ایمان کو متوجہ فرمایا ہے وہ انفاق فی سبیل اللہ ہے، جس کے معنی ہیں اللہ کی خوشنودی کی خاطر اس کے بندوں پر اپنا مال خرچ کرنا فرمایا : ’ کما ل اس میں نہیں کہ تم اپنا منھ مشرق کو کرلو یا مغرب کو کرلو، بلکہ کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوںپر، تمام آسمانی کتابوں پر، اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اللہ کی محبت میں اپنا من پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروںپر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کو رہائی دلانے پر خرچ کرے‘‘ (البقرۃ: ۱۷۷)انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں یہ جامع آیت ہے، اس میں مال لانے سے مراد خرچ کرناہے، اور مفسرین نے اس آیت میں انفاق کو اجباری انفاق ( زکوٰۃ اور صدقات واجبہ) قرار نہیں دیا ہے، یہ مال تو ہر حال میں دینا ہی ہے، بلکہ اس سے انفاق اختیاری مراد لیا ہے، جسے ہم صدقات نافلہ بھی کہہ سکتے ہیں ، یہ انفاق فرض نہیں ہے،مگر قرآن وحدیث میں اس کی بڑی ترغیب دی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ضرورت مندوں اورمحتاجوں پر اپنے مال میں سے خرچ کرنا ایک اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے، کیوں کہ اگر لوگ ہاتھ روک لیںگے، اور ضرورت مندوں کا خیال نہیں رکھیںگے تو ان کی زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی، زکوۃ ایک محدود مالی مدد ہے، بسا اوقات اہل ضرورت کو یہ محدود مالی امداد پوری نہیںہوتی، پھر بہت سے ضرورت مند ایسے بھی ہیں جو مال زکوٰۃ کے مستحق نہ ہونے کے باوجود ضرورت مند ہوتے ہیں، بہت سی سماجی ، معاشرتی اور دینی ضرورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی ، اس لیے مال دار مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اپنے مال میں سے خرچ کیا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انفاق کا بڑا اجر رکھا ہے، قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک انفاق کا ثواب کم از کم سات سو گناہے فرمایا: ’’ جولوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے اس عمل کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھادیتاہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘ (البقرۃ: ۲۶۱) اس بے پناہ اجر وثواب کے علاوہ انفاق کا عمل مغفرت کا سبب بھی ہے، جیسا کہ فرمایا: ’’ اللہ تم سے اپنی مغفرت اورفضل کا وعدہ کرتا ہے۔‘‘ ( البقرۃ: ۲۶۸) مکفّرسیّأت بھی ہے، ارشاد ربانی ہے: ’’ اللہ تعالیٰ (تمہارے اس عمل کو ) تمہارے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے اوراللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۷۱) سب سے بڑھ کر یہ کہ انفاق اللہ کے یہاں تقرب کا ذریعہ ہے، فرمایا: وِیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ ( التوبہ: ۹۹) ’’ اورجو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے یہاں ثواب کا ذریعہ بناتے ہیں۔‘‘
مال اورانفاق کا موضوع واحد موضوع ہے جس پر قرآن کریم نے اہل ایمان کو مسلسل کئی رکوع کی آیات میں ترغیب دی ہے، دیکھئے ( سورۂ بقرہ کے رکوع چھتیس سے انتالیس تک) اس سے پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ کو انفاق کس قدر پسند ہے، پھر یہی نہیںکہ مومن اپنا مال خرچ کرے بلکہ وہ مال خرچ کرے جو اسے پسند ہے، وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ایک تویہ کہ مال اللہ کی محبت میں خرچ کیا جائے، نام ونمود کے لیے اور دنیا دکھاوے کے لیے خرچ کیا گیا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نہیںہے، اور نہ اس پر کسی اجروثواب کی امید رکھنی چاہئے، دوسری تفسیر عَلٰی حُبِّہٖ کی یہ بھی کئی گئی ہے کہ اللہ کی راہ میں اچھا اور من پسند مال خرچ کرناچاہئے، یہ صحیح نہیں ہے کہ اچھا مال تو خود رکھ لیا جائے اور خراب مال اللہ کی راہ میں دے دیا جائے اس حقیقت کو قرآن کریم میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’ اورتم اس کی راہ میں دینے کے لیے مال میں سے بری چیزیں مت چھانٹو، حالاں کہ اگر کوئی تمہیںوہ چیزیں دینے لگے تم اس کو قبول نہ کروگے إلاَّ یہ کہ تم چشم پوشی سے کام لاؤ‘‘ ( البقرۃ: ۲۶۷)
مال داروں کو چاہئے کہ وہ مال کی نعمت کی قدر کریں، اوراس کی قدر کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، یا درہے کہ قیامت کے دن ہم سے ہمارے مال کے متعلق بھی سوال ہوگا، ایک حدیث میں ہے ابن آدم کے پاؤں اس وقت تک اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کریںگے جب تک اس سے ان پانچ چیزوں کے متعلق معلومات نہ کرلی جائیںگی، (۱) عمر کہاں لگائی، (۲) جوانی کہاں ضائع کی، (۳،۴) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، (۵) جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ ( سننترمذی:۸؍ ۴۴۲، رقم الحدیث: ۲۳۴۰) یہ حدیث اہل ثروت اور اصحاب دولت کے لیے لمحۂ فکر ہے، وہ اپنے مال کے بارے میں سوچیں کہاں سے آیا ہے، حلال ذرائع سے حاصل کیاہے یا حرام طریقے سے کمایا ہے، کہاں خرچ کیا ہے، ناجائز مدوں میں خرچ کیا ہے یا جائز مدوں میں صرف کیا ہے؟ مال انسان کو جنت تک بھی پہنچاسکتا ہے اور دوزخ تک بھی لے جاسکتا ہے، قرآن کریم میں ہے: ’’ جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی خوش خبری سنادیجئے۔‘‘ ( التوبۃ: ۳۴) دوسری طرف ان لوگوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیاگیا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں فرمایا: ’’ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ خرچ کرتے ہیںوہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو کبھی ماند نہ ہوگی تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دیں اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیں۔‘‘ ( الفاطر: ۳۹-۴۰)
حضرت ابو ذرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت بیت اللہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں، آپ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی، ابو ذرؓ کہتے ہیں یہ سن کر میں فکر مند ہوگیا، اورٹھنڈے ٹھنڈے سانس لینے لگا، مجھے خیال ہوا کہ کوئی خرابی مجھ میں پیدا ہوگئی ہے، ( جب ہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بات ارشاد فرمارہے ہیں) میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، وہ کون لوگ ہیں، فرمایا: بہت زیادہ مال ودولت رکھنے والے، إلاَّ یہ کہ وہ بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوں اورایسے لوگ بہت کم ہیں، ایک شخص مرے گا،اور اپنے پیچھے ایسی بھیڑ بکریاں، اونٹ اورگائے چھوڑے گا جن کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہوگی، قیامت کے روز یہ جانور انتہائی فربہ ہوکر اس کے سامنے آئیںگے، اسے اپنے کُھروں سے روندیںگے اوراپنے سینگوں سے زخمی کریں گے( صحیح مسلم:۵؍ ۱۴۷، رقم الحدیث: ۱۶۵۲)
اسلام نے صدقہ وخیرات کی بڑی ترغیب دی ہے، فقراء کے ساتھ ہمدردی اورخیر خواہی ، ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک ، ناداروں اور محتاجوں کے ساتھ تعاون سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیںہوسکتی، حدیث شریف میں یہاں تک فرمایاگیا کہ اگر کسی نے حلال کمائی کی ایک کھجور بھی صدقہ کی وہ کھجور قیامت کے روز پہاڑ جیسے اجر کا سبب بنے گی، ( صحیح البخاری: ۵؍ ۲۲۱، رقم: ۱۳۲۱) ایک روایت میں ہے کہ : اگر کسی شخص کے پاس کوئی زائد سواری ہو تو اسے چاہئے کہ وہ کسی ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے، اگر کسی کے پاس ضرورت سے زیادہ زاد سفر ہے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس زاد راہ نہ ہو (مسند احمد:۲۲؍ ۴۰۸، رقم: ۱۰۸۶۳) ابن مسعود ؓ فرمایا کرتے تھے کہ اس طرح کی ترغیبات سن کر ہم یہ خیال کیا کرتے تھے کہ زائد از ضرورت چیزوں میں ہمارا کوئی حق ہی نہیں ہے، جو کچھ بھی مال ومتاع اللہ کی راہ میں خرچ کیاجاتا ہے وہ قیامت کے دن اس وقت سایہ بن کر راحت وآرام پہنچائے گا جب سورج سروں پر آجائے گا۔حضرت عقبہ ابن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ہر شخص اس وقت تک اپنے صدقے کے سائے میں رہے گا جب تک اللہ لوگوں کا فیصلہ نہیں فرمادیںگے۔ (السنن الکبری للبیہقی: ۴؍ ۱۷۷، رقم: ۸۰۰۲) یہ خیال غلط ہے کہ صدقہ وخیرات سے مال کم ہوتا ہے حدیث شریف میں فرمایا: ’’صدقے سے مال کم نہیں ہوتا‘‘ (کشف الخفاء:۱؍۳۰۵، المنتقیٰ، شرح موطأ: ۴؍ ۴۷۶، رقم: ۱۵۹۰) اس کے برعکس اللہ کی راہ میں نکالنے سے مال میں خیروبرکت ہوتی ہے۔
ہر نیک عمل کی طرح انفاق بھی کچھ شرطوں کے ساتھ قابل قبول ہے، (۱) نیت صحیح رکھی جائے، یعنی صدقہ کرنے والا یہ نیت رکھے کہ میں اللہ کے لیے دے رہا ہوں، کسی پر احسان رکھنے کے لیے، نام ونمود کے لیے یا کسی دنیاوی مقصد کے لیے نہیںدے رہاہوں۔ (۲) حلال مال دیا جائے، حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓسے روایت ہے کہ اللہ خیانت سے کمائے ہوئے مال کا صدقہ قبول نہیںکرتا ( صحیح البخاری: ۵؍ ۲۱۹) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے: اللہ پاک وطیب ہے صرف پاک وطیب مال ہی قبول کرتا ہے، ( صحیح مسلم: ۵؍ ۱۹۲، رقم الحدیث: ۱۶۸۶) (۳) عمدہ مال دیا جائے: قرآن کریم میں ہے: ’’ اے ایمان والو تم اپنی کمائی میں سے اچھی چیزوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کیا کرو۔‘‘ (البقرۃ: ۲۶۷) (۴) عزیز واقارب کو ترجیح دی جائے: صدقہ کرنے والے کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ انصاریؓ سے جب وہ مدینہ منورہ کا مشہور ومعروف کنواں بیر حاء اور اس سے ملحقہ باغ صدقہ کرنے جارہے تھے فرمایا تھا کہ اسے اپنے قرابت داروں کو دے دو، حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں ایسا ہی کروںگا، چنانچہ انھوں نے اپنے چچا زاد بھائیوں کو اور دوسرے عزیزوں کو یہ کنواںاور باغ دے دیا ( صحیح البخاری: ۵؍ ۳۰۴، رقم: ۱۳۶۸) اقربا کو دینے میں دوہرا اجر ہے، حدیث شریف میںہے غریب مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہے، اور قریبی عزیز کودینے میں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ( سنن الترمذی: ۳؍ ۶۵، رقم: ۵۹۴، سنن النسائی: ۸؍ ۳۷۵، رقم:۲۵۳۵)
(۵) دین دار افراد کو ترجیح دی جائے، صدقہ دینے والے کو چاہئے کہ وہ اہل تدین کو تلاش کرے کیوں کہ دین دار لوگ صدقہ کی رقم اللہ کی معصیت کے بجائے اس کی اطاعت پر خرچ کریںگے۔
(۶) صدقہ چھپاکر کیا جائے: حتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہئے کہ صدقے کی رقم چھپاکر دی جائے، کیوں کہ اس میں زیادہ اخلاص ہے، ہاں اگر کسی دینی یا سماجی مصلحت سے اعلان واشتہار مقصود ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیںہے، قرآن کریم نے دونوں صورتوں کی اجازت دی ہے۔ (البقرہ: ۲۷۱)
(۷)غریبوں کے ساتھ مہر بانی سے پیش آیا جائے، فقراء ومحتاجیں کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے ، انھیں جھڑکنا، ان کی غربت کا مذاق اڑانا یا ان کو دے کر احسان جتلانا سخت گناہ ہے، قرآن کریم میں ایسے صدقے کو پسند یدہ قرار نہیں دیا گیا ، فرمایا: ’’ مناسب بات کہنا اور در گزر کرنا ایسی خیرات سے( ہزار درجہ) بہتر ہے جس کے بعد تکلیف پہنچائی جائے۔‘‘(البقرۃ: ۲۶۳)
رمضان کا مہینہ صدقہ وخیرات کے لیے بہترین وقت ہے، ایک تو اس لیے کہ اس مہینے میں ضرورت مندوں کی ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں، دوسرے یہ کہ اس ماہ میں نیکیوں کا ثواب ستر گنا تک بڑھ جاتا ہے، عام دنوں میں ایک انفاق کا سات سو گنااجر ہے، رمضان میں یہ ثواب ستر گنا اوربڑھ کر کہاں سے کہاں تک پہنچ جائے گا؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف رمضان ہی میں انفاق کیا جائے بلکہ اس کا سلسلہ ہر وقت اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق جاری رکھنا چائیے،کیوںکہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی ہر وقت سر اٹھائے کھڑی رہتی ہیں، رمضان کے انتظار میں ان کی ضرورتیں رک سکتی ہیں اوروہ پریشانی میں مبتلا ہوسکتے ہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! صدقہ کرو یہ تم پر واجب ہے، کسی نے عرض کیا ! یا رسول اللہ اگر کسی کے پاس مال نہ ہو، آپ نے ارشاد فرمایا مال کمائے پھر صدقہ کرے، کسی نے عرض کیا اگر کوئی شخص ایسا بھی نہ کرسکے، فرمایا کم از کم اپنے کو برائی سے محفوظ رکھے، یہ بھی صدقہ ہے۔
[email protected]

Comments are closed.