Baseerat Online News Portal

نام کتاب : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات

 

مصنف : ڈاکٹر راحت حسین

 

صفحات: ۲۰۰(دوسو)

 

قیمت: پچاس روپے

ناشر : ارم پبلشنگ ہاؤس، دریا پور، پٹنہ۔٤

 

مبصر : راجو خان 9122780122

 

عام طور پر شخصیات سے متعلق لکھے جانے والے تحقیقی مقالات،قدر مردم بعد مردن، کی تصویر پیش کرتے ہیں؛ لیکن کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر کی جانے والی تحقیقات” قدر مردم در زیستن”کی مصداق ہوا کرتی ہیں، ایسی ہی شخصیات میں ایک نام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ، صدر مجلس اردوصحافت، نائب صدر اردو کارواں اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر محترم کا ہے

میرے پیش نظر ڈاکٹر راحت حسین ایم آر جنتا کالج مہیش پٹی، اجیار پور سمستی پور کا تحقیقی مقالہ بعنوان”مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات” ہے؛ کتاب کی ضخامت دو سو صفحات ہے اور یہ ٦/باب اور قول فیصل پرمشتمل ہے،تفصیلات اس طرح ہیں ۔

باب اول : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے سوانحی کوائف

باب دوم : مفتی صاحب کی شاعری کا ناقدانہ مطالعہ

باب سوم : مفتی صاحب کی افسانہ نگاری

باب چہارم : مفتی صاحب کی تنقیدی بصیرت

باب پنجم : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی خاکہ نگاری

باب ششم : مفتی صاحب کی طرز نگارش اور انشاء پردازی

 

قول فیصل

 

کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کتاب ڈاکٹر راحت حسین کے مفصل پی ایچ ڈی کے مقالہ کا ملخص ہے؛ جس میں مفتی صاحب کے سوانحی نقوش کے ساتھ ساتھ ادب کی مختلف صنفوں سے ان کی وابستگی نیز ان کے ذریعہ ان ادبی اصناف کے اثاثے اور سرمایے میں کیے گئے قابل قدر اضافے کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔

ادب کا زندگی سے اور زندگی سے ادب کا بڑا گہرا رشتہ ہے ؛ بلکہ چولی دامن کا ساتھ ہے ؛ اس لیے کہ ادب تنقید حیات ہے: جہاں تک ادبی نظریات ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کا تعلق ہے تو میرے نقطۂ نظر سے زندگی کے کثیر الجہات تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں نظریوں میں توافق و تطابق بھی پیدا کیا جاسکتا ہے اور تباین و تغایر کی بھی صورت نکالی جاسکتی ہے؛ البتہ اس کا انحصار ان دونوں نظریے کے حاملین کے تصورات و خیالات پر ہے۔

 

زبان و ادب اور فکر و فن پر نگاہ رکھنے والے سبھی افراد جانتے ہیں کہ ادب کا مے خانہ شراب فکر و فن سے آراستہ ہوتا ہے جس کا جام، جام جم سے کم نہیں ہوتا اور اس میں بھری شراب جب حلق سے اتر کر راز ہستی کے پردے کو ہٹاتی ہے تو تشنگی حیات میں وجد طاری ہو جاتا ہے، شاعری اس کی ایک درخشاں مثال ہے۔

شاعری، انسان کے اندرون میں نہاں ہوتی ہے، شرط یہ ہے کہ اس کے اس ذوق کی آبیاری، جلا بخشی اور صیقل گری کے لیے مطلوبہ عوامل اور درکار اسباب فراہم ہوں، دنیاۓ شاعری اس طرح کے شعری نمونوں اور خزینوں سے معمور و آباد ہے، مفتی صاحب کی شعر گوئی کا جائزہ اسی پس منظر میں اس کتاب میں لیا گیا ہے، مذکورہ باب مفتی صاحب کے شعری مجموعے حرف تازہ غیرمطبوعہ کے شعری نمونوں سے مزین ہے، اس کا ناقدانہ جائزہ قارئین کو دعوت مطالعہ دیتا ہے۔

افسانہ جسے زندگی کی قاش کہا جاتا ہے، اس سے بھی مفتی صاحب کا تعلق رہا ہے، "دعوت و فکر و عمل” میں کچھ افسانوی جھلکیاں پہلے چھپ چکی ہیں ، زیر تبصرہ باب ان کے افسانوی مجموعے”دکھتی رگیں” سے نقل کردہ عبارات اوراقتباسات سے لبریز ہے جن سے ان کے افسانوی کیف و کم، پیچ و خم اور زیرو بم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

باب چہارم مفتی صاحب کی تنقیدی بصیرت سے متعلق ہے، کچھ عرصہ قبل راقم کی نظر سے ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ "نقد معتبر” گزر چکا ہے جو ان کی تنقید کی جولان گاہ ہے۔اس باب میں اس کتاب کے علاوہ ان کی دوسری کتاب "حرف آگہی”سے ماخوذ تنقیدی مباحث کو بھی پیش کیا گیا ہے، اس باب میں ان کی دیگر تنقیدی نگارشات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے؛ جن سے ان کی تنقیدی بصیرت و بصارت اور انفرادیت کا پتہ چلتا ہے۔

خاکہ نگاری سوانح نگاری کی ہی ایک مختصر صورت ہے جو یادوں کی رہین منت ہوا کرتی ہے، یادیں بہت قیمتی سرمایہ ہیں، وقت اپنی رو میں یادوں کی بڑی بڑی چٹانوں کو بہا لے جاتا ہے؛ لیکن کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے جاہ و جلال کو نظر انداز کرتے ہوئے یوں سر اٹھاۓ کھڑی رہتی ہیں گویا انہیں کوئی سر نہیں کرسکتا اور جب کوئی انہیں اپنے قلم کا رنگ و آہنگ عطا کرتا ہے تو یادوں کا یہ گنج ہائے گراں مایہ یادوں کی بارات، بادش بخیر، ہم نفسان رفتہ، پرانے چراغ، صحبتے با اہل دل، یادوں کی رہ گذر،یادوں کے چراغ کی شکل میں ظہور پذیر ہوکر یادوں کی حسین کہکشاں سجاتے ہیں اور اجالے اپنی یادوں کے میرے ساتھ رہنے دے

نہ جانے کس گلی میں زند گی کی شام ہو جائے۔کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔

کتاب کا باب پنجم یادوں کے چراغ کے ذریعے پیش کی جانے والی خاکہ نگاری کا احاطہ کرتا ہے،

 

رب کریم نے مفتی صاحب کےان حسین خاکوں اور مرقعوں میں ایسی جان ڈال دی ہے کہ جو زبان حال سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:-

 

مجھے لمحے نہیں صدیاں سنیں گے

سلامت تم میرے انداز رکھنا

دعا ہے کہ دل کا داغ اور سینے کا چراغ بننے والے یادوں کے اجالے کو پیش کرنے والے ایسے ہی یادوں کے چراغ روشن کرتے رہیں (آمین)

کتاب کا باب ششم مفتی صاحب کی طرز نگارش کو محیط ہے اور ان کی مختلف کتابوں نیز ان کی دیگر رشحات، شذرات اور لمعات سے ماخوذ نمونہ جات سے مملو اور معمور ہے؛ جو ان کے اسلوب کی جدت و ندرت پر دال ہیں، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں اور انوار الحسن وسطوی کے آراء مفتی صاحب کی اسلوبیات کے حسن و وزن اور وقار و اعتبار میں چار چاند لگاتے ہیں اور ان کے ڈکشن(duction)ڈائرکشن(darection)اور ڈائمنشن (dimmention) افہام و تفہیم میں ممدود و معاون ہیں۔

قول فیصل، حاصل مطالعہ اور تلخیص مقالہ ہے جو جامع، مانع اور، ماقل و دل کی صحیح مصداق ہے

بہر طور ڈاکٹر راحت حسین تبریک و تہنیت کے مستحق ہیں کہ مفتی صاحب کی ہشت پہلو شخصیت اور ان کی کثیر الجہات خدمات کو موضوع سخن بنا کر ثناء الہدیٰ شناسی اور فہمی کی راہ آسان کردی، ان کی یہ کاوش قابل قدر اور لائق صد ستائش ہے؛ کیوں کہ یہ جہاں ایک طرف وردی پوش ادبا کو مدارس کے فارغین کے تئیں اپنے نقطۂ نظر و زاویۂ نگاہ میں تبدیلی لانے کی داعی و محرک ہے تو وہیں دوسری طرف مفتی صاحب کے وابستگان کے لئے سرمایہ اعتبار اور سرمہ افتخار ہے۔

Comments are closed.