شب قدر اہمیت و فضیلت (۱)

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
قرآن و حدیث میں شب قدر کی عظمت و فضیلت بہت اہمیت کے ساتھ متعدد جگہ بیان کی گئ ہے ،اور ایک مکمل سورہ ،سورہ قدر کے نام سے اللہ تعالٰی نے نازل فرمایا ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
*انا انزلناہ فی لیلة القدر * وما ادراک ما لیلة القدر* *لیلة القدر خیر من الف شھر* *تنزل الملائكة و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر* *سلام ھی حتی مطلع الفجر* (سورہ قدر )
بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا ہے ،اور آپ کو خبر ہے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے،اس رات فرشتے اور روح القدس اترتے ہیں، اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کے لئے ،سلامتی ( ہی سلامتی ) ہے ،وہ رہتی ہے طلوع فجر تک ۔
یہ پوری سورہ شب قدر کی فضیلت اور اہمیت سے متعلق ہے اس سورہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس رات کو دیگر راتوں پر کتنی فوقیت اور برتری حاصل ہے ۔
خدائے وحدہ لا شریک نے ہی تمام زمان و مکان میں پھیلی ہوئ ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے ،کسی کو فضیلت و برتری سے نوازا اور کسی کو ذلت و پستی کے قعر مذلت میں ڈال دیا، یہ سب خدا کی حکمت ہے اور اس کی شان عالی کو زبیا ہے ،جس طرح تمام مہینوں پر رمضان المبارک کو اہمیت و فضیلت حاصل ہے اور جمعہ کو تمام دنوں کا سردار بنایا گیا ہے ،اسی طرح شب قدر کو تمام راتوں سے افضل اور ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ۰۰ شب قدر میں جو ایمان و احتساب کے ساتھ عبادت کرے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے، ( متفق علیہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات بیدار رہتے تھے، اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے ،اور کمر کس لیتے تھے ۔ ( متفق علیہ )
*امت محمدیہ* چوں کہ پہلی امتوں کے مقابلے میں جسمانی طاقت کے اعتبار سے کمزور ہے اور اس کی زندگی نسبتا کم ہوتی ہے ،اس لئے وہ اپنی جسمانی کمزوری اور کم عمری کی وجہ سے اللہ کی عبادت و بندگی میں سابقہ امتوں کی برابری نہیں کر سکتی تھی ، لہذا اللہ تعالی نے اس پر خصوصی عنایت اور رحم و کرم کا معاملہ فرماکر شب قدر عطا کی اور اس کی خیر و برکت اور خصوصیت کو بیان کرنے کے لئے مذکورہ سورت نازل فرمائ،اور دیگر مواقع پر بھی قرآن میں اس کی اہمیت کو واضح کیا ۔
مفسر قرآن مولانا قاضی ثناء اللہ پانی رح پتی کی تحقیق کے مطابق، اس سورت کے شان نزول کے سلسلے میں جتنی روایات آئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ صحیح وہ روایت ہے ،جو *موطا امام مالک* میں مرسلا ذکر کی گئ ہے –
امام مالک رح لکھتے ہیں :
۰۰ میں نے ایک قابل اعتماد عالم سے سنا ہے ،وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی عمریں چونکہ تھوڑی ہیں اس لئے دوسری امتوں کے اعمال کی تعداد کے برابر تو ان کے اعمال نہیں ہو سکتے ،کیونکہ ان کی عمریں زیادہ تھیں ،اس لئے اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو شب قدر عطا فرمائی ،جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے
سورہ قدر کے ذیل میں جو تفسیری روایات مفسرین نے ذکر کی ہیں ان سب کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ *قرآن مجید* لوح محفوظ سے آسمانی دنیا کے *بیت العزہ* میں *شب قدر* میں نازل کیا گیا، پھر حسب ضرورت حضرت *جبرئیل علیہ السلام* تھوڑا تھوڑا *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* کو پہنچاتے رہے اور اس طرح ۲۳ سال کی مدت میں پورا *قرآن مجید* *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* پر نازل ہوا ۔
اللہ تعالٰی نے *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* سے سوال کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ *شب قد*ر کی حقیقت کیا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دیا اور بتایا کہ *شب قدر* ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔
اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ *اللہ تعالی* نے *شب قدر* کا ہزار مہینوں سے بہتر ہونا تو بیان کیا ہے ،لیکن بہتر ہونے کی کوئ حد مثلا دوگنی ،تین گنی،چوگنی ،دس گنی یا سو گنی وغیرہ بیان نہیں کی ہے، اس لئے ہزار مہینہ کا ثواب تو متعین اور یقینی ہے ہی ، اس سے زیادہ کی بھی امید کی جاسکتی ہے ،اس سورہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس رات میں *روح القدس* ،یعنی *حضرت جبرئیل علیہ السلام* فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ، اپنے رب کے حکم سے، ہر قسم کے امور خیر لے کر آسمان سے اترتے ہیں، عظیم الشان خیر و برکت سے زمین والوں کو مستفید کرتے ہیں، جتنے بندگان خدا،کھڑے یا بیٹھے نماز میں یا ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں، ان سب کے لئے رحمت اور سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ۔ ( ماخوذ و مستفاد تفسیر حقانی،مظہری،فوائد عثمانی اور معارف القرآن)
*شب قدر* کون سی رات ہے ،بعض خاص حکمت و مصلحت کی وجہ سے اس کی تعیین نہیں کی گئی ہے، *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* چوں کہ ایمان والوں کے لئے روف و رحیم تھے ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا بھی کہ متعین رات کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دے دیں اور اس ارادے سے نکلے بھی تھے لیکن دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے، *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* ان دونوں میں مصالحت کرانے لگے ،اسی درمیان میں *آپ* کے ذہن مبارک سے تعیین بھلا دی گئ، صحابئ رسول *حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ* سے مروی ہے، *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا :
*خرجت لاخبرکم بلیلة القدر ،فتلاحی فلان و فلان ،فرفعت ،و عسی ان یکون خیرا لکم* ( صحیح بخاری، ۲۰۲۳)
میں تم لوگوں کو شب قدر کی تعیین بتانے نکلا تھا ،لیکن فلاں اور فلاں باہم لڑ رہے تھے ،اس لئے تعیین اٹھا لی گئی، کیا بعید یہ اتھا لینا تمہارے لئے بہتر ہو ۔
*علماء کرام* نے اس کی حکمت و مصلحت کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ کسی قدر یوں ہے :
۰۰حکمت اس کے اخفاء و پوشیدگی میں یہ ہے کہ اس کا طالب سال بھر عبادت میں مشغول رہے گناہوں سے بچے اور توبہ کرے اور اخیر رمضان شریف، خصوصا عشرئہ اخیر میں تو بڑی کوشش کرے،نیکی کرنا اس رات میں بڑی قبولیت کا باعث ہے، مگر اس رات گناہ کرنا بھی قہر الہی کا سبب ہے۰۰ ۔
تاریخ کے تعیین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، جو *مفتئ اعظم پاکستان *مولانا محمد شفیع صاحب رح* کے بہ قول چالیس تک اور *شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رح* کے قول کے مطابق پچاس کے قریب ہیں، بعض علماء کہتے ہیں کہ شب قدر سال میں ایک بار آتی ہے، مہینے کی کوئ تعیین نہیں، مگر اکثر کا قول یہ ہے کہ *رمضان المبارک* میں یہ رات ہوتی ہے،پھر اکثر علماء اس پر متفق ہیں کہ رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں بالخصوص اس کی طاق راتوں( ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،اور ۲۹ کی راتوں ) میں تلاش کرنا چاہئے، کیونکہ بہ کثرت احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں، البتہ علماء کی ایک جماعت نے ستائیسویں رات کو راجح قرار دیا ہے ،جو لوگوں میں مشہور و مقبول ہے ۔
نوٹ مضمون کا اگلا حصہ کل ملاحظہ کریں۔
Comments are closed.