Baseerat Online News Portal

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر مملکت فکر وفن کا تاجور مولانا نورعالم خلیل امینی

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

بتاریخ 3/مئی 2021مطابق 20/رمضان المبارک 1442بروز پیر صبح ساڑھے چار بجے جیسے ہی سحرکے کھانے سے فارغ ہوا یہ خبر ملی کہ علم وادب کی دنیا کی نہایت قد آور شخصیت استاذ العلماءحضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب نے اس دنیائے فانی کو خیر باد کہ دیا ہے،اس خبر سے ایسا محسوس ہوا جیسے پورے وجود میں سنسنی پھیل گئی ہے، روح وقلب کی کائینات پر اداسیوں کے بادل چھا گئے،ذہن ودماغ پر افسردگی طاری ہوگئی، مولانا رحمت اللہ علیہ کئی روز سے علیل تھے طبیعت زیادہ بگڑ چکی تھی انہیں میرٹھ میں ایک اچھے اور قابل اعتماد ہاسپٹل میں داخل کیا گیا اور اطمینان بخش نگہداشت میں آپ کا علاج شروع کیا گیا، رفتہ رفتہ طبیعت صحت کی طرف مائل ہوئی اور ایک روز قبل یہ خبر موصول ہوئی کہ مرحوم کی زندگی اب خطرے سے باہر ہوچکی ہے، اس خبر نے بڑی خوشی اور مسرت عطا کی مگر کسے معلوم تھا کہ صحت کی طرف زندگی کا یہ مختصر لمحے کاسفر درحقیقت چراغ سحر کی وہ آخری لو تھی جو پوری قوت سے آخری بار تیز شعاؤں کے ساتھ ظاہر ہوکر ہمیشہ کے لیے گل ہوجاتی ہے۔

حضرت مولانا علیہ الرحمہ ان تاریخ ساز لوگوں میں سے تھے،جنھوں نے محض اپنے شوق وجنون، فکر وتڑپ اور جد وجہد کی بنیاد پر قدم قدم پر ان مٹ تاریخیں رقم کی ہیں ،مولانا مرحوم کی پشت پر ثروت مند خاندان نہیں تھا، ماحول اگرچہ دینی تھا لیکن علم کی شعاعوں سے محروم تھا، مادی اثاثے اور زندگی کی سہولیات سے اہل خانہ کی زندگی خود تہی دست تھی تو آپ کا دامن کیسے ان چیزوں سے بھرا ہوتا، والد کا سایہ سر سے اس وقت اٹھا جب پرورش و پرداخت اور زندگی کی تعمیر میں سب سے زیادہ اس سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، غرض اسباب کی دنیا میں زندگی کی کامیابی کے سارے راستے بند تھے، کوئی روزن ایسا نہیں تھا جس سے امید کی شعاع نظر آجاتی، زندگی افلاس کی دھوپ اور فقر کے سائے میں گذر رہی تھی۔

مگر کون جانتا تھا کہ ظاہری اعتبار سے جس فرد کے لئے اجالے کی ایک کرن بھی نہیں چھوڑی گئی،اس کی تقدیر میں روشنی کا مینار بننا لکھ دیا گیا ہے، علم و دانش کے آفتاب جہانتاب کی صورت میں عظمتوں کا پرچم اس کی ذات سے قدرت وابستہ کرچکی ہے، اور اس حقیقت اور قدرت کی شان کا دنیا نے مشاہدہ کیا کہ ہر طرف مایوسیوں کی پھیلی ہوئی تاریکیوں میں آپ نے اجالوں کے راستے بنائے، اور ان راستوں پر اس طرح چلتے گئے کہ آسمان علم وادب کی کئی منزلیں آپ کے قدموں کے نیچے سے گذر گئیں، یقیناً عظمتوں کی شاہراہ میں توکل واعتماد علی اللہ آپ کا زاد راہ،اور جذبات آپ کے ہمسفر تھے، شوق وتڑپ آپ کے رفیق اور ہمت وحوصلوں کے ان گنت کارواں آپ کے جلو میں تھے، انہیں اوصاف کے باعث زمانہ آپ کے ساتھ چل رہا تھا، تاریخ نے آپ کو نہیں بلکہ آپ نے تاریخ کو ایک نئی زندگی سے اور ایک نئی دنیا سے آشنا کیا ہے۔

جس شخص کی زندگی ایک تاریخ ہو،ایک عہد ہو، ایک زمانہ ہو وہ فرد نہیں ہوتا ہے ادارہ کہلاتا ہے،وہ شخص نہیں بلکہ شخصیت کے مرتبے پر ہوتا ہے، وہ ایک ستارہ نہیں بلکہ آفتاب اور میخانے کا محض ایک میخوار نہیں بلکہ ساقی محفل اورانجمن ہوتا ہے، ایسے شخص کی رحلت قوم کو غموں کے سمندر میں غرق کردیتی ہے،مولانا نور عالم خلیل امینی رحمت اللہ علیہ کی ذات بھی ایک انجمن تھی،ایک صد رنگ کہکشاں تھی، ایک ادارہ اور خورشید منور تھی۔

اس آفتاب علم و ادب اور فکر وفن کے غروب ہونے کی وجہ سے علمی دنیا سوگواری کی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے، ادب کے گلستانوں میں ماتمی فضائیں پھیل چکی ہیں، علمی درسگاہوں کی بساط الٹ گئی ہے، میخانہ فکر وفن میں بادہ وساغر کی کھنکتی ہوئی آوازیں خاموش ہوکر رہ گئی ہیں، ایک غل ہے کہ صحافت کے ایک عہد کا خاتمہ ہوچکا ہےایک شور ہے کہ
تصنیف وتالیف کا ایک دفتر بند ہوچکا ہے، ایک ہنگامۂ عالم ہے کہ اپنے سحر انگیز اسلوب،وجدید لفظیات اور نادر ترکیبوں اور خوبصورت جملوں سے مرصع اردو عربی دونوں میں بیک وقت ادب کا جہان تازہ تعمیر کرنے والا قلم ہمیشہ کے لیے ساکت ہوگیا ہے۔

اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ مولانا مرحوم کی ذات فکر ونظر اور زبان و لسان کے حوالے سے عبقری مقام پر تھی، وہ بلند پایہ مصنف بھی تھے اور بے باک صحافی بھی، أفکار وخیالات کو نہایت آسانی سے قاری کے ذہن میں منتقل کردینے والے مقالہ نگار بھی تھے اور کالم نگار بھی، زبان وادب کے أسرار ورموز سے واقف اور ان پر عبور رکھنے والے مایہ ناز ادیب وانشاء پرداز بھی اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے،بصیرت مند دانشور بھی تھے، فن اور اس کے متعلقات و لوازمات سے آگہی بخشنے والے زبردست استاذ ومدرس بھی تھے اور سلیقہ زندگی،نظام حیات، تعمیر حیات، اور راز ارتقاء سے آشنا کرکے ان راہوں پر گامزن کردینے والے مربی ومعلم بھی تھے۔

مولانا امینی صاحب مرحوم کی زندگی بہت سی خوبیوں سے آراستہ اور گونا گوں کمالات کا مجموعہ تھی،عربی زبان وادب کے حوالے آپ کی ذات روشن مینار کے درجہ میں تھی، وہ عربی زبان کے صاحب طرز ادیب تھے، عربی زبان میں ان کی تحریروں کی سحر انگیزی،اسلوب کی خوبصورتی، جدید طرز ادا کی دلکشی، اور اظہارِ خیال کی رعنائیوں کے آوازے عجم کے علاوہ عرب دنیا بھی گونج رہے تھے، عرب امارات سے کویت اور سعودی عرب ومصر کے تمام معیاری رسالوں اور جریدوں میں آپ کے علمی،ادبی ،اصلاحی ،معاشرتی ،تاریخی اور سیاسی مقالے مسلسل شائع ہوتے تھے اور عالم عرب میں شوق کی نگاہوں سے پڑھے جاتے تھے، عربی زبان میں زبردست دسترس،اوراس کے أسرار ورموز سے واقفیت نیز مسلسل اس زبان میں آپ کے قلم سے گراں مایہ مضامین ومقالات اور قیمتی تصانیف کے منصہ شہود پر آنے کی وجہ سے آپ کو عالم اسلام کے کئی ملکوں کے علمی وادبی اداروں کی طرف سے مدعو کیا گیا،استقبالیہ دیا گیا،آپ کے کارناموں کی تحسین کی گئی،اور ملکی پیمانے پر سراہا گیا،
دارالعلوم دیوبند سے نکلنے والے پندرہ روزہ الداعی میگزین میں ،،اشراقہ کے عنوان سے آپ کے علمی،ادبی ،تاریخی اور تہذیبی کالم نے تو آپ کو عربی ادب وزبان کے آسمان پر پہونچا دیا،اس کالم کو عربی اہل ادب ودانش اور مفکرین کے یہاں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، ابھی کچھ عرصہ قبل مذکورہ بالا عنوان کے ماتحت شائع ھونے والی آپ کی تحریریں
پانچ جلدوں میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہیں،جو تقریباً ستائیس سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔

دارالعلوم دیوبند ایک عالمی ادارہ ہے اس کی ترجمانی کے لئے اسی شان وانداز کا رسالہ بھی ہونا چاہیے جو عمدہ طریقے سے عالم اسلام میں اس کی ترجمانی کرسکے، اس مقصد کے لیے رسالہ الداعی بزبان عربی یہاں سے جاری تو ضرور تھا مگر ادارے کی شان کے اعتبار سے بہت کمتر تھا
مولانا مرحوم نے چالیس سال سے اس میگزین کی ادارت کی، اور اپنے ذوق ومزاج، فکر وخیال اور اظہارِ خیال کی قوت وصلاحیت اور زبان وبیان پر اہل لسان کی طرح قدرت اور ان سب صلاحیتوں کے باوجود اس کی ترقی اور معیار میں برتری کے لئے مسلسل جد وجہد اور جانفشانیوں کے باعث اسے بام عروج پر پہونچا دیا، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مولانا مرحوم نے اس رسالے کو اپنی صلاحیتوں سے عالمی پیمانے کا رسالہ بنا دیا، اس کے ذریعے دارالعلوم دیوبند کے افکار ونظریات کی بھر پور آپ نے ترجمانی کی،عالم عرب میں دیوبندی افکار کے بارے میں پھیلے ہوئے شکوک وشبہات کو رفع کرنے میں اس رسالے کے ذریعے سے آپ نے اھم کردار ادا کیا، نظریات وعقائد کے حوالے سے وسیع خلیج کو پاٹنے میں بھی اس میگزین کا اہم رول رہا، یہ رسالہ اپنے مشمولات کی وقعت،مضامین کی جدت اور معلومات کی کثرت نیز زبان وادب کی حلاوت کے لحاظ سے عربی جریدوں میں معیاری جریدہ تسلیم کیا گیا، بے شمار اذہان و قلوب کے انقلاب کا سبب بنا، دارالعلوم دیوبند کے فکری دائرے میں وسعت اور اس حوالے سے صحت مند خیالات اور عرب وعجم کے دلوں میں عقیدت ومحبت کا ذریعہ بنا، اگر غور کیا جائے تو بجائے خود مولانا مرحوم کا یہ تاریخ ساز اور گراں قدر کارنامہ ہے جو آپ کی حیات کو جاوداں زندگی سے ہم کنار کرنے کے لئے کافی ہے۔

نستعلیقیت علمائے ندوہ یا دانشوران علی گڑھ کی طرح علمائے دیوبند کا بھی لازمی جز اور طرہ امتیاز تھی،مگر ادھر تیس پینتیس سالوں سے دیوبندی فکر کے اصحاب دانش میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی،اور مدنی خاندان یا دوسرے سیاسی رہنماؤں کی تقلید میں سوتی کپڑوں کا سیلاب آیا،جس کی لہریں اس قدر شدید تھیں کہ شیروانی لباس کی تہذیب کو بہالے گئی، کلف دار کپڑے اعلی تہذیب اور اعلیٰ تمدن کے معیار بن گئے، یہاں تک کہ شیروانی کے لباس کا ماحول دارالعلوم کے کیمپس سے اس طرح ختم ہوا کہ نئی نسل جا نتی بھی نہیں ہے کہ اس تہذیب کا تعلق کبھی اس ادارے سےبھی رہا ہے،ایسے ماحول میں بھی مولانا مرحوم کےنستعلیقی مزاج نے اپنی شناخت قائم رکھی، انھوں نے اصحاب علم ودانش کے اس باوقار لباس شیروانی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھا، زمانے کے بدلتے ہوئے ماحول ان پر اثر انداز نہیں ہوئے اور نہ ہوسکتے تھے کہ ان کا ذہن عبقری تھا جو ماحول کے پیچھے نہیں بلکہ ماحول اور تہذیب کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کردیتا تھا، آپ کی زندگی عرب کے ذوق جمال اور عجم کی حسن طبیعت کا مکمل نمونہ تھی، ہر کام ایک متعین وقت پر انجام پاتا،ہر چیز میں سلیقہ مندی نفاست اور نزاکت اسی طرح جھلکتی جیسے آپ کی زبان میں تحریر میں شگفتگی ورعنائی۔

وہ صفائی ستھرائی، پوشاک ولباس کے اہتمام، رہائش گاہ اور درسگاہ میں ضبط وترتیب، گفتار وکردار اور نشست وبرخواست کے حوالے سے بہت زیادہ نفیس اور باذوق تھے،صحیح یہ ہے کہ ان کی زندگی نفاست اور خوش مذاقی کا خوبصورت پیکر تھی، وہ درسگاہ میں آتے تو معلوم ہوتا کہ کوئی وقت کا دانشور اور وقت کا مفکر متعدد اہل علم کے جلو میں خراماں خراماں پوری متانت ووقار کے ساتھ چلا آرہا ہے، جسم نفیس شیروانی میں ملبوس،سر پر اسی کپڑے کی ٹوپی، پیروں میں چمکتے ہوئے جوتے، ان کے قامت زیبا میں عجیب دلکشی پیدا کردیتے تھے، ایسا نہیں ہے کہ یہ طرزِ عمل اور سلیقہ زندگی صرف انہیں پسند تھی اور وہ اپنی ذات ہی تک محدود رکھتے تھے بلکہ اس کی طرف شاگردوں کو ہمیشہ توجہ کرتے رہتے،خوش اخلاقی کے ساتھ خوش مذاقی اور خوش لباسی کی ترغیب دیتے، اگر کسی طالب علم کے اندر زندگی کے کسی مرحلے میں بدمذاقی دیکھتے تو ناگواری کا اظہار کرتے، آپ کو بدذوقی، بے ترتیبی،بے ہنگم زندگی بالکل بھی پسند نہیں تھی اگر دیکھا جائے تو واقعی اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے،
مولانا مرحوم کی طبیعت کا حسن اور مذاق ومزاج کا جمال ان کی کتابوں کی ظاہری شکل وصورت میں نمایاں تھا انہیں گوارا نہیں تھا کہ ان کی کوئی تصنیف خراب طریقے سے بغیر اہتمام کے بس یونہی چھپ جائے،
وہ اشاعت کے دوران پروف ریڈنگ میں حرکات پر بھی نظر رکھتے، کاغذ نفیس استعمال کرتے، کتابت میں صفائی کا حد درجہ اہتمام کرتے سر ورق دلکش اور دیدہ زیب اور خوبصورت بنواتے کہ پہلی ہی نظر میں دیکھنے والا اس کے جمال کا اسیر ہوجائے۔۔

عربی زبان کی طرح اردو ادب میں بھی مولانا امتیازی مقام پر فائز تھے
آپ کے زرنگار قلم نے عبقری شخصیات کی بھی تصویر کشی ہے اور ذی استعداد افراد مگر گمنام لوگوں کے جلوؤں کو بھی آشکارا کیا، سیکڑوں زندگیاں آپ کے سحر نگار قلم کے صدقے میں دنیائے ادب کے افق پر جگمگا اٹھیں، ماضی قریب کے اساطین پر بھی آپ نے لکھا اور عصر حاضر کے دانشوروں اور علمائے اسلام پر بھی،مگر جس سوانحی ادب نے آپ کو امتیازی شان عطا کی وہ ایک عبقری شخصیت،مجتہدانہ ذہن کے مالک یگانہ روزگار ہستی مولانا وحیدالزماں کیرانوی کی شخصیت پر لکھی ہوئی کتاب،وہ کوہ کن کی بات ہے،،جس نے آپ کی زندگی کو ادب کے آسمان کی رفعتیں عطا کردیں۔اس کے علاوہ سیاسی،سماجی ،معاشرتی ،دینی اصلاحی اور تاریخی موضوعات پر ہزاروں مضامین آپ نے لکھ کر اردو صحافت کو نہ صرف استحکام بلکہ اس کی کائینات میں وسعت بھی پیدا کی ہے،

فیاض ازل نے آپ کو منظر نگاری، صورت گری،واقعہ نگاری ،خاکہ نگاری کی زبردست صلاحیت سے نوازا تھا، جذبات واحساسات کو لفظوں کی تجسیمی صورت دینے میں آپ کو کمال کی مہارت حاصل تھی، ان کے استاذ مربی، مولانا وحیدالزماں صاحب کی شخصیت سے پردہ اٹھانے والی آپ کی مذکورہ کتاب آپ کے قوت اظہار اور ادب عالیہ کا شاہکار ہے۔

مولانا مرحوم کی تحریروں میں ادب کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو انہیں لازوال بناتی ہیں، جملوں کی ساخت وہیئت کی دلکشی،لفظوں کی رعنائی، اسلوب میں ندرت،آہنگ میں جدت، خوبصورت تعبیرات،جدید اور نئے استعارات، صد رنگ تشبیہات آپ کے خاکوں میں خاص طور سے نمایاں نظر آتی ہیں، آپ کی گراں قدر تصنیف ،،پس مرگ زندہ زبان وبیان کی دلآویزی، عبارتوں کی رعنائی، اور خوبصورتی کے حوالے سے ادب وانشاء کا اعلیٰ نمونہ اور شاندار مرقع ہے۔

شعبہء حفظ کے بعد جب یہ راقم الحروف عربی شعبے میں آیا تو پہلی بار اس شخصیت کا نام سنا مگر چونکہ اس کی عظمت سے ناآشنا تھا اس لیے دل وروح میں اہمیت بھی نہیں ہوپائی، درجہ ہفتم کے سال دارالعلوم دیوبند میں آپ کی
عظمت ورفعت اور آپ کی انفرادیت کا احساس ہوا، اسی زمانے میں اکثر تحریریں جو رسالوں اور خاص طور سے سہارا میں شائع ہوتیں انہیں پڑھ کر ادبی حوالے سے علمی بلندی کا اندازہ ہوا،اور وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ان کی فتوحات سامنے آتی گئیں عظمت وعقیدت کی عمارتیں بھی دل کی زمینوں پر تعمیراور مستحکم ہوتی گئیں ، ہمیں مولانا مرحوم سے تلمذ کا شرف حاصل نہیں ہے مگر زمانۂ طالب علمی میں اکثر زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ہے، براہ راست اگرچہ استفادہ سے یہ عاجز محروم رہا مگر آپ کی تحریروں سے ایک زمانے تک فیض حاصل کرتا رہا، آج بھی ان کی تحریریں مل جاتی ہیں تو شوق کو پر لگ جاتے ہیں۔

مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 18/دسمبر1952مطابق یکم ربیع الثانی 1373ھ میں نا نیہال ہرپور بیشی ضلع مظفر پوربہار میں پیدا ہوئے، تین ماہ کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، والدہ محترمہ کا دوسرا نکاح ہوا مگر پینتیس سال کی عمر میں پھر بیوہ ہوگئیں،
والدہ نے اس کسمپرسی میں بھی پرورش کا خاص خیال رکھا،اور نانا کی توجہات بھی حاصل رہیں،چنانچہ تعلیم وتربیت نانا محترم ہی نے کی،

تعلیم کی ابتدا قاعدہ بغدادی سے نانا جان سے کی،اس کے بعد وطن اصلی رائے پور ضلع سیتا مڑھی بہار میں جو آپ کا دادیہال ہے مکتب کی تعلیم مکمل کی، اس کے بعد مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں درجہ حفظ میں داخل ہوئے سات پارے حفظ کرنے کے بعد 1961ء مطابق 1381میں دوبارہ درجہ ششم میں آگئے، 1964/مطابق 1383/میں عربی تعلیم کے لئے دارالعلوم مئو اعظم گڈھ آئے،اور تین سال تک یہاں سے فیض حاصل کیا،یہاں خاص طور سے مولانا نذیر احمد نعمانی،مولانا ریاست علی بحریابادی سے کسب فیض کیا۔

20/دسمبر 1967/مطابق 16/شوال 1387/ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ھوئے،اور اس وقت وہاں کے آفتاب و ماہتاب سے کسب فیض کیا،جس میں مولانا وحیدالزماں صاحب کی شخصیت خاص طور پر قابل ذکر ہے، فراغت آپ کی مدرسہ امینیہ دہلی سے ہے یہاں آپ کو علمی ادبی اور رجال ساز شخصیت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی کی صورت میں میسر ہوئی،وقت کے اس جلیل القدر رجال ساز نے آپ کے اندر صلاحیتوں کی کائنات کا مشاہدہ کر لیا تھا،اور اس سنگ کو سنوارنے میں اپنی پوری توجہ صرف کردی یہاں تک کہ استاذ کی تربیت اور بے لوث تعلیم کی بدولت سنگ خام ہشت پہلوی ہیرا بن کر جگمگا اٹھا،یہ امر واقعہ ہے کہ مولانا دیوبندی علیہ الرحمہ نے ہر لحاظ سے آپ کا خیال رکھا ایک مشفق باپ کی طرح آپ کی ضروریات کا خیال رکھااور تربیت کی،روحانی توجہ بھی کی اور مادی اعتبار سے بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑا،یہ داستان پس مرگ زندہ میں پڑھی جاسکتی ہے۔

مدرسہ امینیہ دہلی میں دوران تعلیم مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت وارادت کا تعلق ہوگیا تھا اس لیے فراغت کے بعد تدریس کے لیے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے آفر ہوئی،اور 1972/سے 1982/تک وہاں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں،اس کے بعد 15/شوال المکرم 1402ھ مطابق 6اگست 1982/کو عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی اور اس وقت سے اب تک تدریسی،تحریری،تربیتی اور تحقیقی خدمات میں پورے تسلسل کے ساتھ زندگی مصروف رہی،نصف صدی پر محیط ان خدمات کے نتیجے میں شاگردوں کی کتنی دنیائے علم وادب تیار ہوئیں، کتنے میخانے وجود میں آئے،کتنی درسگاہیں تعمیر ہوئیں، کتنے ادبی جہانوں کی تزئین ہوئی، اردو عربی تصنیفات کے ذریعے کتنے قلوب صیقل ہوئے اور کتنے بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم کا پتہ ملا اس کا اندازہ کیونکر لگایا جاسکتا ہے،

اردو عربی دونوں زبانوں میں آپ نے دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں اور تمام کتابیں اہل دانش اور اہل علم کے یہاں نہایت مقبول ہیں،اور دسیوں کتابوں کے تراجم اور سیکڑوں مقالات کی تعداد مستزاد سے،جن میں مجتمعاتنا المعاصرہ والطریق الی الاسلام،المسلمون فی الہند،
فلسطین فی انتظار صلاح الدین، پانچ جلدوں پر محیط اشراقہ کا مجموعہ،
اور اردو میں ،وہ کوہ کن کی بات، پس مرگ زندہ،فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، کیا اسلام پسپا ہورہا ہے،،حرف شیریں،خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔آپ کے کارناموں اور ادبی فتوحات پر 2017میں صدر جمہوریہ ہند کی طرف سے صدارتی سرٹیفکیٹ آف آنر سے نوازا گیا،آسام یونیورسٹی میں مولانا نور عالم خلیل امینی کی تحریروں میں فلسطین فی انتظار صلاح الدین کے خصوصی حوالے کے ساتھ ڈاکٹر یٹ کا مقالہ پیش کیا گیا۔
ایک عرصہ سے مولانا مرحوم شوگر کے عارضے میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے دوسری بیماریاں بھی وقتا فوقتا حملہ آور ہوتی رہتی تھیں، ادھر دس بارہ روز قبل بخار آیا مظفر نگر اور پھر میرٹھ کے اطمینان بخش ہاسپٹل کی خدمات حاصل کی گئیں مگر زندگی کا سفر مکمل ہوچکا تھا اس لیے تدبیریں کار گر نہ ہوسکیں اور یقیں محکم،عمل پیہم اور مسلسل سرگرمیوں کی راہ پر چل کر فکر وفن کا جہان تازہ آباد کرنے والی عظیم ہستی 3/مئی 2021/ مطابق 20/رمضان المبارک 1442بوقت سحر سوا تین بجے خالق حقیقی سے جا ملی،مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیت علماء ہند نے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس گنجینہ فکر وفن کو قبرستان قاسمی میں چھپا دیا گیا، اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو انوار سے معمور کردے آمین۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مسجد انوار گوونڈی ممبئی
تاریخ 4/مئی 2021

Comments are closed.