جنت کا دروازہ باب الریّان

صرف روزہ داروں کے لیے مخصوص ہوگا
مولانا ندیم الواجدی
بخاری ومسلم میںسہل بن سعدؓ کی روایت کردہ یہ حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن فی الجنۃ باباً یقال لہ الریّان الخ (صحیح البخاری: ۶؍۴۶۱، رقم الحدیث: ۱۷۶۳، صحیح مسلم:۶؍ ۲۰، رقم الحدیث: ۱۹۴۷) ’’جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہتے ہیں ، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ دار ہی داخل ہوںگے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس دروازے سے جنت میں داخل نہیں ہوگا، اعلان ہوگا: روزہ دار کہاں ہیں؟ ( یہ اعلان سن کر) روزہ دار اٹھ کھڑے ہوںگے، ان کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں داخل ہوگا، جب وہ اس دروازے سے جنت کے اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا، اب کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘
الریّان عربی کا لفظ ہے ریّ سے بنایا گیا ہے، جس کے معنی ہیں سیراب ہونا،ریّ عطش (پیاس) کی ضد ہے، اس میں لفظ ومعنی دونوں کی مناسبت موجود ہے، روزہ دار اللہ کے حکم کی اطاعت میں پیاسے رہتے ہیں، قیامت کے دن انھیں ایسے دروازے سے داخل ہونے کے لیے کہا جائے گا جو پیاس کی ضد یعنی سیرابی کی علامت ہوگا۔ روزہ داروں کے فضائل میں یہ بڑی اہم روایت ہے، ماہ رمضان کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس ماہ مبارک میں جنت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں، اور دوزخ کے تمام دروازے بند کردئے جاتے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ مبارک ومحترم مہینہ شروع ہوچکا ہے، نیکیوں کے موسم کا آغاز ہوچکا ہے، دوزخ کے دروازے بند ہیں، جنت کے دروازے کھُلے ہوئے ہیں، جو چاہے نیک عمل کے ذریعے ان دروازوں سے جنت میں داخل ہوسکتا ہے، گویا اہل ایمان کے لیے اذن عام ہے، قرآن پاک میں جنت کے دروازوں کا ذکر موجود ہے، ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’ اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے وہ گروہ در گروہ ہوکر جنت کی طرف روانہ کئے جائیںگے یہاں تک کہ وہ جب جنت کے پاس پہنچیںگے تو اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوںگے،‘‘(الزمر:۷۳) یہ بھی فرمایا : جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ (صٓ: ۵۰) ’’ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھُلے ہوئے ہوںگے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’اور فرشتے ان کے پاس ہر (سمت کے) دروازے سے آتے ہوںگے۔‘‘ (الرعد: ۲۳) قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں میں صرف جنت کے دروازوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی تعداد نہیں بتلائی گئی، تعداد کا ذکر حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے سات بند ہیں، او رایک دروازہ توبہ کے لیے کھلا ہوا ہے اور اس وقت تک کھُلا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع ہو ( مجمع الزوائد: ۱۰؍۱۹۸، طبرانی کبیر: ۱۰؍ ۲۵۴) ایک روایت میں جنت کے آٹھ اور دوزخ کے سات دروازوں کا ذکر ہے، اس کی وجہ بعض علماء نے یہ لکھی ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے اس لیے جنت کے دروازے جہنم کے دروازوں سے زیادہ ہیں، جنت اللہ کی رحمت ہے اور دوزخ اللہ کا عذاب ہے ۔مگر ان میں ایک دروازہ ایسا ہے جو صرف روزہ داروں کے لیے ہے، اسے باب الریّان کہتے ہیں روزے کے دوسرے تمام فضائل سے کچھ دیر کے لیے صرفِ نظر کرلیا جائے اور صرف باب الریان کی فضیلت کو ملحوظ رکھا جائے تب بھی اس عبادت کی شان الگ ہی نظر آتی ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی عالی شان عمارت میں داخل ہونے کے بہت سے دروازے ہوں، ہر دروازہ اپنی مثال آپ ہو، مگر ایک دروازے کو خصوصی مہمان کے لیے کچھ زیادہ ہی خوب صورت انداز میں سجایا گیاہو، باقی مہمان دوسرے دروازوں سے عمارت میںداخل ہوں، اس خصوصی مہمان کو اس خاص دروازے سے اندر لے جایا جائے، یقینا اس سے بڑھ کر مہمان کے اعزاز کی کوئی دوسری صورت نہیں ہوسکتی۔
جنت کے آٹھ دروازے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: فی الجنۃ ثمانیۃ ابواب (صحیح البخاری:۱۱؍ ۳۵، رقم الحدیث: ۳۰۱۷) ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں‘‘ شارحین حدیث کی رائے ہے کہ ان دروازوں سے بڑے دروازے مراد ہیں، چھوٹے اور ذیلی دروازے تو شمار میں ہی نہیں آسکتے ، ان میں سے ہر دروازہ کسی نہ کسی عمل کے لیے مخصوص ہے، ان دروازوں کی وسعت کا حال یہ ہے کہ سینکڑوں میل کی مسافت ان میں سماجائے، حدیث میں ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جنت کے دروازوں کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہَجَر (بحرین کا ایک بڑا شہر) کے درمیان ہے، یا ہجر او رمکہ کے درمیان ہے، ( صحیح مسلم: ۱؍ ۱۸۴، رقم: ۱۹۴) دوسری روایت میں اتنا فاصلہ بیان کیا گیا ہے جتنا فاصلہ مکہ اورعراق کے شہر بصری کا درمیان واقع ہے۔ (صحیح البخاری :۴؍ ۱۷۴۵، رقم: ۴۴۳۵) اللہ اللہ، دروازوں کی وسعت کا یہ حال ہے تو اصل عمارت کی وسعت کا کیا عالم ہوگا، اتنی وسعت کے باوجود قیامت کے دن ان دروازوں پر اس قدر ہجوم ہوگا کہ عاشقان جنت کا سرسے سر بچتا ہوگا اور کھوے سے کھوا چھلتا ہوگا، عتبہ ابن غزوانؓ کہتے ہیں کہ ہمیں بتلایاگیا ہے کہ جنت کے دروازوں کے درمیانی فاصلے کی وسعت چالیس سال کی مسافت کے برابر ہوگی، اس کے باوجود ایک دن ایسا آئے گا کہ ان دروازوں پر زبردست ہجوم ہوگا: (مسلم:۴؍۲۲۷۸، رقم: ۲۹۶۷)
جنت کا دروازہ سب سے پہلے محسنِ انسانیت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھولا جائے گا۔ ایک روایت میں کچھ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹائیں گے، دوسری طرف سے پوچھا جائے گا! کون؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیںگے میں ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت کے دروازوں کے دربان یہ سن کر دروازوہ کھول دیںگے، (آپ شکروامتنان اور فرحت وانبساط کے جذبات کے اظہار کے لیے) سجدہ ریز ہوجائیںگے (ترمذی:۵؍ ۳۰۱، رقم: ۳۱۴۸ ) ایک روایت میں یہ ہے کہ داروغۂ جنت پوچھے گا! کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب ارشاد فرمائیںگے: محمد! وہ عرض کرے گا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے میں جنت کا دروازہ کسی کے لیے نہ کھولوں (مسلم:۱؍۱۸۸، رقم: ۱۹۷)
جنت کا ایک دروازہ ایسا ہوگا جس سے صرف توحید خالص کے حامل اہل ایمان ہی داخل ہوںگے، اور ان اہل ایمان کا تعلق امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگا، حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا: یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب کتاب نہیں ہے جنت کے باب ایمن سے اندر لے جائیں، یہ لوگ باقی دروازوں سے بھی جنت میں داخل ہوسکتے ہیں (صحیح البخاری: ۴؍ ۱۷۴۵، رقم: ۴۴۳۵) اگر کوئی مسلمان نیکیوں کا خوگر ہے اور ہر عبادت کا حق ادا کرتا ہے تو اسے جنت کے ہر دروازے سے داخل ہونے کا حق حاصل ہوگا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اس کی خوش خبری سنائی تھی، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو نماز والے ہوںگے انھیں باب الصلاۃ سے جنت میں بھیجا جائے گا، جو مجاہدین ہوںگے انھیں باب الجہاد سے ، اور جو روزہ دارہوںگے انھیں باب الریّان سے اور جو صدقہ وزکوٰۃ والے ہوںگے انھیں باب الصدقۃ سے جنت میں داخل کیا جائے ، حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے داخل ہونے کی اجازت ہوگی، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! مجھے امید ہے تم ان لوگوں میں سے ہوگے۔ (صحیح البخاری: ۲؍ ۶۷۱، رقم: ۱۷۹۸، صحیح مسلم: ۲؍ ۷۱۱، رقم: ۱۰۲۷)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کے نیک عمل کرنے والے کے لیے جنت کا ایک مخصوص دروازہ ہوگا، بہت سے اعمال کا ذکر حدیث میں موجود ہے جیسے باب الصلوۃ، باب الجہاد، باب الصدقۃ، باب الریان، باب التوبہ، باب الکاظمین الغیظ، باب الراضین، باب الایمن، بعض حضرات نے ان دروازوں کے علاوہ بھی کچھ دروازو ں کے نام لکھے ہیں، مثلاً حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ان تین دروازں کا ذکر فرمایا ہے، باب الحج، باب الصلۃ، باب العمرۃ، بعض حضرات نے باب الضحیٰ، باب امت محمد، اور باب الفرح بھی نام لکھے ہیں، علامہ قرطبی نے اٹھارہ دروازے شمار کرائے ہیں ( تفسیر القرطبی: ۲؍ ۴۵۷) بنیادی طورپر جنت کے آٹھ دروازوں ہی کا ذکر حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، اس کی وجہ علماء نے یہ بتلائی ہے کہ چند بڑے اعمال صالحہ کے لیے ان کی عظمت شان کی وجہ سے کچھ دروازے ایسے بھی ہیں جن کی وضاحت تفصیل کے ساتھ احادیث مبارکہ میں بیان نہیں کی گئی، یا یہ کہ جو دروازے احادیث میں مذکور ہیں وہ تو اتنے ہی ہوںگے مگر دیگر اعمال صالحہ میں سبقت کرنے والوں کوبھی ضمنا انھیں دروازوں سے گزارا جائے گا او رعظمت شان کے لیے ان ہی اعمال کے ساتھ ان دروازوں کے نام بھی رکھ دئے جائیںگے، گویا ایک دروازے کے کئی کئی نام ہوںگے۔
[email protected]

Comments are closed.