"نظم” "اے نوجوان”

آمنہ جبیں ( بہاولنگر )

 

"نظم”

"اے نوجوان”

 

تمہارا دل

ترستا تو گا

بے ڈھنگے راستوں پہ

من چاہی صورت کو

تم خوابوں کی ٹوکری

سر پہ بوجھ کی مانند

اٹھائے ہر لمحہ

گلیوں میں پھرتے تو ہو گے

تمہاری ابھرتی ہوئی

یہ جوش دلاتی

پل پل کو ہچکولے کھاتی

مدہوش جوانی

تمہیں خود کو

خرچ کرنے پہ

بے قرض دینے پہ

اکساتی تو ہو گی

تمہارے جذبے تمہیں

نفس کی خواہش پہ

لبیک کہنے کو

آہوں سے بچنے کو

بھرپور جینے کو

ستاتے تو ہوں گے

مگر سنو

اے نوجواں

تم ان جذبوں کو

کسی مٹھی میں

قید کر لینا

اپنا آپ تم

بھنور میں

بڑے شوق سے پھنسا لینا

مگر اپنا معیار

اپنا وقار نہ کھونا تم

خود کو نہ کرنا

بے مول تم

اپنے دام بچا لینا

خود کو سمجھا لینا

اپنی ابھرتی ہوئی

جوانی کی

بے قرار صلاحیتوں کو

یونہی نہ ترسانا تم

دنیا کے مزاجوں کو

سمجھنے کی کوشش میں

نہ اپنا آپ

گنوانا تم

اے نوجواں

تم کہتے ہو نہ

یہ جوان رُتیں

پھر نہیں آنی

ہاں میں بھی کہتی ہوں

نہیں آنی یہ

رُتیں لوٹ کر

اس کو بامقصد بناؤ نہ

زمانے کو

اپنا ظرف دکھاؤ نہ

کیوں سرابوں میں جیتے ہو

کیوں خوابوں کے

یہ اشک پیتے ہو

اٹھو کہ تم

نوجواں ہو

رستوں کو جواں کر دو تم

اپنی اس زندگی کا

حق ادا کر دو تم

اٹھو کہ نوجواں ہو تم

Comments are closed.