اخیر عشرہ:جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
رمضان کا مہینہ طاعت وبندگی ، تلاوت وعبادت ، ہمدردی وغمگساری ، خیر خواہی وبھائی چارگی اور دوسروں کی خبر گیری کا مہینہ ہے۔ اللہ نے یہ موقع دیا ہی ہے سعادت وخوش بختی ، رحمت ومغفرت اور جہنم سے نجات حاصل کرنے ، اپنے اندر پرہیز گاری پیداکرنے، اپنے آپ کو محرمات سے پورے سال بچائے رکھنے کی ٹریننگ کے لئے۔
اللہ تعالیٰ نے عبادت وبندگی کا حکم اس لئے دیا ہے کہ اس کے ذریعہ بندوں کے دل میں ایمان راسخ ہو اور اس میں ترقی ہوتی رہے، جس طرح پودے کی حیات پانی سے ہے کہ اس کے بغیروہ زندہ نہیں رہ سکتا، برگ وبار نہیں لا سکتا، بلکہ وہ سوکھ جاتا اور اس کی شادابی جاتی رہتی ہے، اسی طرح عبادت کے بغیر بندے کا ایمان بے جان ہوجاتا، اسکی ہریالی وشادابی فنا ہوجاتی اور وہ ایمان کے بغیر سوکھے درخت کے مانند ہوجاتاہے۔
بندگی کے اس ماہ کا دو عشرہ اور تیسرے عشرہ کا بیشتر حصہ گذر چکا ہے۔ اب اس کے گنے چنے چند دن باقی رہ گئے ہیں جس میں امت کی تعلیم کے لئے خود رسول اللہ صلعم جو کہ معصوم ومغفور تھے، پوری رات جاگ کر عبادت میں گذارتے اور پورا دن اللہ کی یاد میں صرف کرتے تھے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
رسول اللہ صلعم اخیر عشرہ میں عبادتوں کے اندر اتنی جدوجہد کرتے جتنی دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)
اور یہ بھی فرمایا کہ:
جب اخیر عشرہ آتا تو رسول اللہ صلعم پوری رات جاگتے ، اپنے گھر والوں کو جگائے رکھتے ، عبادت میں خوب جدوجہد کرتے اور اپنا تہبند کس لیتے ۔ (صحیح مسلم)
آپ صلعم اس عشرہ میں اپنے علاوہ اپنے اہل وعیال کو بھی جگائے رکھتے تھے کہ وہ بھی نماز وعبادت ، ذکر وتلاوت اور تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں۔ اللہ کے نبی صلعم اس بات کے حریص وخواہش مند ہوتے کہ افراد خانہ اور دوسرے بھی ان لمحات کو غنیمت جانیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
ابن رجب حنبلیؒ نے ذکر کیا ہے کہ رمضان کے جب صرف دس دن باقی رہ جاتے تو اہل وعیال اور افراد خانہ میں سے جن کے اندر قیام لیل کی قدرت ہوتی ہر ایک کو آپ صلعم عبادت کے لئے کھڑا کردیتے تھے، تہبند کس لینے سے مراد بیویوں سے دوری وکنارہ کشی اختیار کرنا اور عبادت وریاضت میں مکمل طورپر منہمک ہوجانا ہے ۔
اللہ کے نبی صلعم مدینہ فروکش ہونے کے بعد سے پوری زندگی وفات تک اعتکاف کی پابندی کی اور اسے کبھی نہیں چھوڑا، وفات سے ایک سال پہلے غزوہ کی وجہ سے جب اسکا ناغہ ہوگیا تو اگلے سال وفات سے قبل اس کی تلافی فرمائی۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ:
رسول اللہ صلعم رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور وفات تک یہ سلسلہ جاری رہا ، پھر آپ صلعم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔ (صحیح مسلم)
یہ اعتکاف اسی لئے ہوا کرتا تھا کہ آپ صلعم اپنے آپ کو یکسوئی کے ساتھ عبادت کیلئے فارغ کرلیں۔ اور اس لئے بھی کہ شب قدر کو پالیں۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بہت سی خصوصیات اور امتیازات سے نوازا اور دسری اقوام پر فوقیت وبرتری عطا کی ہے، اس امت میں آخری رسول صلعم کو مبعوث فرمایا اور ہمیں آخری کتاب کی نعمت عطا کی جو رب العالمین کا کلام ہے، اور اس کلام کو اللہ تعالیٰ نے یک بارگی لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر سب سے بابرکت وعظمت والی رات لیلۃ القدر میں اتارا، جس رات کو اللہ تعالیٰ نے سال کی دیگر راتوں پر فوقیت بخشی ہے، جس کے اندر ایک عبادت ہزار ماہ یعنی تراسی سال چار ماہ کی عبادت سے افضل ہے جس کا تذکرہ سورئہ قدر اور سورئہ حدید کی آیت چار میں ہے۔
اس رات کو قدر کی رات اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ قدر ومنزلت اور شرف وعزت والی رات ہے اور اس لئے بھی کہ اس میں پورے سال کی تقدیر لکھی جاتی ہے کہ آئندہ پورے سال کیا ہونے والا ہے، اور اس لئے بھی کہ اس رات کی عبادت کی اللہ کے نزدیک بڑی قدر ومنزلت اور قدر دانی ہے۔ اس رات کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ رات بڑی روشن اور پرکیف ہوتی ہے ، آسمان سے جیسے انوار کی بارش رہی ہو مگر موجودہ زمانہ میں شہروں کے اندر اس علامت کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ شہروں کی روشنی اور جگمگاہٹ کی وجہ سے اس کو محسوس نہیں کیا جاسکتا ہے، دوسری علامت یہ ہے کہ اس رات دلوں کو اطمینان وسکون اور مومن بندوں کے قلوب میں انشراح کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس کا ایمان ویقین اللہ پر ہوتا ہے اور وہ اللہ سے لو لگائے ہوتا ہے، وہ اپنے اندر اطمینان وسکون ، راحت وچین اور شرح صدر پاتا اور دیگر راتوں کی بہ نسبت اس رات اسے بڑا قلبی سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس رات کا موسم خوشگوار ہوتا اور ہلکی بارش کا امکان رہتا ہے۔
اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس رات کے بعد جب صبح ہوتی اور سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی روشنی اور شعائیںپھیکی ہوتی ہیں، دیگر ایام کی طرح سرخی وزردی اور حرارت زیادہ نہیں ہوتی بلکہ صاف وشفاف ہوتی اور ہوا خوشگوار ہوتی ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے انہیں بتایا کہ انھا تطلع یومئیذ لا شعاع لھا (صحیح مسلم) اس روز سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کے اندر شعائیں نہیں ہوتی ہیں۔
اس رات مخلوق کے پورے سال کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں، مرنے جینے اور پیدا ہونے والوں کو لکھا جاتا ، لوگوں کے ارازق لکھے جاتے اور یہ بھی کہ اس سال کون کون سعداء اور نیک بخت ہوںگے اور کون بد بخت وشقی ہوگا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فیھا یفرق کل امر حکیم (الدخان:4)
اسی رات میں ہر ایک مضبوط ومستحکم کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں سے اس کی تعین کو مخفی رکھا تاکہ وہ اسے تلاش کرنے میں لگے رہیں، اور اس کی جستجو میں زیادہ سے زیادہ عبادت میں انہماک رکھیں، اعمال صالحہ کی جدوجہد کریں، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کون اس کی طلب میں سنجیدہ اور اس کا حریص ہے اور کون لاچار وبے بس وعاجز ہے، بلا شبہ جو حریص اور لالچی ہوگا وہ محنت ومشقت کرے گا، جدوجہد کرے گا اور اس کی طلب وپانے میں پوری توانائی صرف کرے گا، اور اس کی راہ میں جو بھی مشقت ہو اسے پیش آئیگی وہ اسے خوشی خوشی برداشت کرے گا۔ جو کسی چیز کا حریص ہوتا ہے اس چیز کو پانے کی راہ کی مشقتوں کو جھیلنا ، برداشت کرنا اس کے لئے آسان ہوتا ہے، وہ ہر مصائب وآلام اور مشکلات ومشقتوں کو جھیل کر اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچنے اور مطلوبہ شئی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس بابرکت اور عظمت وقدر ومنزلت والی رات کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے، اور اخیر عشرہ کی بھی طاق راتوں میں اس کے ہونے کا امکان زیادہ ہے۔
صحیح بخاری ومسلم کی روایت ہے، اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا :
التمسوھا فی العشر الاواخر من رمضان ، تم رمضان کے اخیر عشرہ میں اسے تلاش کرو اور یہ بھی فرمایا کہ اسے تلاش کرو اس کی طاق راتوں یعنی انتیسویں، ستائیسویں، پچیسویں، تیسویں اور اکیسویں شب میں اور اس میں بھی ستائیسویں شب میں ہونے کی امید زیادہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ بعض صحابہ کرام کو شب قدر دکھا دی گئی جو ستائیسویں شب میں تھی، انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلعم سے کیا تو آپ صلعم نے فرمایا ،میرا خیال ہے کہ ستائیسویں پر تم سب کا اتفاق ہے، اور اسے رات میں دیکھنے میں تم سب ایک دوسرے کی موافقت کرنے والے ہو۔ تو اسے ستائیسویں شب میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری)
27 ویں شب ہی کے بارے میں ایک اور حدیث ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا ، لیلۃ القدر ستائیسویں شب میں ہوسکتی ہے۔ (ابودائود)
ہر مسلمان کو چاہیے کہ نبی کریم صلعم کی اقتدا واتباع کرے او ان شب وروز میں خوب عبادت کرے ، اللہ کو راضی کرنے کی جدوجہد کرنے اور رب کریم کی رحمتوں کے جھونکوں کو پانے کی ہر ممکن کوشش کرے، بلا شبہ اللہ کی رحمتوں ،نعمتوں اور عنایتوں کے ایک جھونکے اور باد نسیم کا ایک ادنیٰ سا لمس ہی حاصل ہوگیا اور اسے پانے میں ہم کامیاب ہوگئے تو ہماری کامیابی ہے۔ اس لئے ان لمحات میں ہمیں اپنے آپ کو عبادت کے لئے فارغ کرنا چاہیے، خواب الحاح وزاری اور گریہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیے، اس وباء کے ازالہ کے لئے اللہ سے التجا کرنی چاہیے۔ دشمنان اسلام اور ظالم وجابر حکمرانوں کے زوال وتباہی کی اللہ سے التماس اور دنیا آخرت کی بھلائی وکامیابی کی درخواست کرنی چاہیے، اور ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم آپسی رنجشوں کو دور کرنے اور دو مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے پر اپنی توجہ مبذول کریں۔
حدیث کے اندر آتاہے کہ ایک بار نبی صلعم اپنے ہجرے سے لوگوں کو یہ بتانے نکلے کہ شب قدر کب ہے، مگر مسجد میں دو لوگوںکو جھگڑتے دیکھا اور ان کے درمیان صلح ومصالحت کرانے اورمعاملہ رفع دفع کرنے میں لگ گئے اور اس کی تعین بھلا دی گئی ، آپسی لڑائی وجھگڑا کی یہ نحوست تھی کہشب قدر جیسی نعمت کی تعین کو اس کی وجہ سے اٹھا لیا گیا، اس لئے بطور خاص مسلمان ان لمحات میں دو چیزوں کی کوشش کریں، ایک تو یہ کہ یتیموں، بیوائوں، اور غریبوں کا سہارا بنیں، اس وباء کے زمانے میں پورے ملک میں مسلم اصحاب خیر اور فلاحی ادارے یوں تو سماج کی خدمت کررہے ہیں اور محتاجوں وناداروں کی مدد کررہے ہیں، مگر سب سے برا حال مدارس کے اساتذہ اور یتیم ویسیر اور بیوائوں کا ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے، رمضان کے ان باقی چند دنوں کے اندر ان لوگوں کی اپنے صدقہ وخیرات اور زکوٰۃ واعانت کے ذریعہ دستگیری کریں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ:
قیامت کے دن جب اللہ کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا اور وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، تو سات لوگ اللہ کے سائے میں ہوںگے ، ان میں سے ایک وہ ہے جو چھپا کر اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ داہنے ہاتھ نے کیا کیا۔ (بخاری)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا : حصنوا اموالکم ، اپنے مال کی حفاظت زکوٰۃ ادا کرکے کرو، اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ کے ذریعہ کرو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ:
ان الصدقۃ لتطفی من اھلھا حرا القبور (المعجم الکبیر للطبرانی)
صدقہ کرنے والوںکا صدقہ ان کی قبر کی گرمی (عذاب قبر ) کو بجھا دیتا ہے۔
ان حالات میں اصحاب خیر سے میری مودبانہ درخواست ہے کہ وہ دینی اداروں اور ان اداروں کے اساتذہ وملازمین کی مالی مدد کریں، جن کی تنخواہیں بند ہیں، ملازمت سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے، ہیں، اور آمدنی کے ذرائع بالکل مسدود ہوچکے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ:
جو شخص کسی ضرورت مند کی حاجت روائی کے لئے نکلتا اور دوسرے کے کام آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دس سال کے اعتکاف کے برابر ثواب عطا فرماتے ہیں، اور ایک دن کے اعتکاف کا صلہ یہ ہے کہ اس کے اور جہنم کے درمیان تین کھائی حائل ہوجاتی ہے، اورایک کھائی کی وسعت ودوری اتنی ہے جتنی آسمان وزمین کی مسافت۔(الترغیب والترھیب )
ان چند ایام کے اندر دوسرا سب سے اہم کام یہ ہے کہ آپسی رنجشوں ، کدورتوں اور اختلافات کو دور کریں اور باہمی مصالحت کرنے کرانے کی فکر کریں۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دو بھائیوں یا شخصوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے اور باپ داد سے پھیل کر یہ اولاد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بجائے کہ ان میں صلہ رحمی کا جذبہ پروان چڑھے، ان کے درمیان قطع رحمی اور نفرت کے جذبات انگڑائی لیتے رہتے ہیں، او رکبھی یہ نفرت عداوت میں تبدیل ہوکر قتل وغارت گری تک پہنچ جاتی ہے جبکہ اسلام چاہتا ہے کہ ہمارے درمیان الفت ومحبت کی فضا عام ہو، اور کبھی اختلافات پیدا ہوجائیں تو فورا اسے دور کرلیا جائے، اور اسکے اسباب کا خاتمہ کردیا جائے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں میںملاپ کرادیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات: 10)
اخوت نام ہے اس کا اگر کوئی سمجھ پائے
چبھے کانٹا کسی کو بھی یہ دل بے تاب ہوجائے
حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر مسلمانوں کی دوجماعت آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ (الحجرات: 9)
ایک جگہ ارشاد ہے، ان کے اکثر مصلحتی مشورے بے خیر ہیں، ہاںبھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دے، اور جو شخص صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیںگے۔ (النساء: 114)
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں نماز، روزہ ، صدقہ سے بہتر وافضل چیز نہ بتائوں ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ تو آپ صلعم نے فرمایا کہ دو شخص کے درمیان صلح کرانا اور ان دو شخص کے درمیان بگاڑ تو مونڈنے والی چیز ہے یعنی نیکیوں کو ختم کرکے اس کے ذمہ میں صرف بدی ہی بدی کو باقی رکھتی ہے۔ (ابودائو، وترمذی)
ایک بار نبی کریم صلعم نے نمازکو موخر کردیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں نماز پڑھا دیں، یہ اس وقت ہوا جب آپ کو علم ہواکہ قبیلہ بنوعمرو بن عوف کے چند لوگوں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور ان میں لڑائی ہونے لگی ہے تو آپ صلعم ان کے درمیان مصالحت کرانے کیلئے اپنے ہمراہ چند صحابہ کو لے کرگئے۔ (بخاری ومسلم)
جھوٹ ایک بدترین خصلت اور کبیرہ گناہ ہے، مگر لوگوں کو ملانے اور صلح کرانے کے لئے اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا کہ لوگوں کے درمیان صلح کرانے والا جھوٹا نہیں (بخاری )
جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا
دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے اور ہر ایسے طالب مغفرت بندے کی مغفرت کردی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، سوائے اس شخص کے جس کے اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) سے رنجش وکدورت ہو ، ان کے بارے میں فرشتوں سے کہا جاتا ہے کہ اسے چھوڑ دو، (اس کی مغفرت نہیں) یہاں تک کہ یہ دونوں آپس میں صلح صفائی کرلیں۔ (مسلم ، موطا، امام مالک)
ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کے بچے ہوئے ان چند ایام کو غنیمت جانیں، محرومی کا سبب بننے والی چیزوں سے اجتناب کریں، دوسروں کی مدد کرکے جہنم سے خلاصی حاصل کریں، باہمی اختلافات کو دور کرکے مغفرت ورضوان کے حقدار بنیں، صلہ رحمی پر توجہ دیں، حقوق العباد کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ اسی طرح ہم شب قدر اور اخیر عشرہ کے خیرو برکت سے مستفید ہوسکتے ہیں، اور اگر ہم نے یہ نہ کیا تو رمضان آنے اور شب قدر پانے کے باوجود ہم محروم القسمت ہی رہ سکتے ہیں۔
ہیںلوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں گے
Comments are closed.