صرف دو راتیں باقی ہیں!

مولانا ندیم الواجدی
رمضان کا مہینہ گنے چنے دنوں پر مشتمل مہینہ ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ہے: اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (البقرۃ: ۱۸۳) ’’چند روز ہیں گنتی کے‘‘ مطلب یہ ہے کہ اگر چہ رمضان پورے ایک مہینے کا ہوتاہے، مگر اور مہینوں کی طرح اس کے بھی تیس دن ہوتے ہیں، یہ تعداد کوئی بڑی تعداد نہیںہے، انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پورا مہینہ پلک جھپکتے گزرجاتاہے، اب یہی دیکھ لیجئے آخری عشرہ بھی نصف ہوگیا، شب قدر کی تین امکانی راتیں گزرچکی ہیں، صرف دو راتیں باقی رہ گئی ہیں جن میں شب قدر تلاش کی جاسکتی ، حدیث شریف میں یہی حکم دیاگیا ہے، التمسوہا فی العشر الاواخر، فی الوتر( صحیح البخاری:۷؍۱۴۳، رقم:۱۸۷۷، وصحیح مسلم:۶؍ ۷۲، رقم: ۱۹۸۹) ’’ شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘ یہ طاق راتیں ۔ہیں ، اکیس، تیئس، پچیس، ستائیس اور انتیس تاریخ کی راتیں۔
اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی عظمت پرپوری ایک سورت نازل فرمائی ہے، مفسرین نے اس سورت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر فرمایا جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل جہاد میں مشغول رہا، اس نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے، صحابۂ کرام کو اس مجاہد کا حال سن کر بڑی حیرت ہوئی، بلکہ رشک محسوس ہوا کہ ان لوگوں کو کتنی لمبی لمبی عمریں عطا کی گئی تھیں، اور ہماری عمریں کم ہیں، فرمایا تمہیں ہر سال ایک رات ایسی دی جاتی ہے جو ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل ہے، اور یہ ہزار مہینے تینتس سال کے قریب ہوتے ہیں، شب قدر کا نزول امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن خصوصیات میں سے ہے جن میں دوسری امتیں شریک نہیں ہیں۔ ( تفسیر ابن کثیر: ۱۸؍ ۴۴۳)
قدر کے دو معنی ہیں، ایک تقدیر وحکم، اس معنی کے اعتبار سے لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا وہ حصہ جو اس سال کے رمضان سے اگلے سال کے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذ امور کے لیے مامور ہیں، اس میں انسان کی عمر، موت، رزق وغیرہ امور فرشتوں کو لکھوادئے جاتے ہیں، اگر کسی شخص کی تقدیر میں اس سال حج کرنا ہے، یا کوئی اہم یا غیر اہم کام انجام دینا ہے، وہ سب لکھوادیا جاتا ہے، پھر یہ فرشتے ان امور کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں، اور عملی شکل دیتے ہیں، ( تفسیرقرطبی:۱۴؍۱۲۷)
قدر کے دوسرے معنی ہیں، عظمت وشرف، گویا اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ اس کی عظمت اوراس کا شرف ہے، ابوبکر وراّق ؒ کہتے ہیں کہ اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کی بنا پر کوئی حیثیت نہ تھی وہ اس رات کی توبہ واستغفار اورعبادت وطاعت کی وجہ سے صاحب قدر ومنزلت بن جاتاہے، لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، کہ یہ رات اپنے آپ میں بڑی قدر ومنزلت والی ہے، کیوں کہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا، اس رات میں فرشتے آسمان سے زمین پر اترتے ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس رات میں ستاروں کی تعداد سے زیادہ فرشتے زمین پر اترتے ہیں (المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۹؍ ۲۱۵) اس رات میں جو نیک عمل کیا جاتا ہے اس کا اجر وثواب اس قدر ہوتاہے گویا وہ صاحب عمل ایک ہزار مہینوں تک لگاتار مصروف عمل رہا ہو، اس رات کو سلام بھی کہاگیا، جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ رات انتہائی خیر وبرکت کی حامل رات ہے، حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہ شب سراپا سلام ہے، بیہقی میں حضرت انسؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں او رجس شخص کو قیام وقعود وذکر میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لیے سلامتی اورحمت کی دعا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک رہتاہے، یعنی یہ رات اس صفت تک طلوع فجر تک رہتی ہے، ایسا نہیں کہ اس شب کے کسی خاص حصے میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو ‘‘( بیان القرآن:۲؍ ۷۶۸)
اس رات کی عظمت وشرف اور قدروقیمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اہل ایمان اس رات کو عبادت میں گزاریں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بار بار ادھر متوجہ فرمایاہے، ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: للّٰہ فیہ لیلۃ خیرمن الف شہر من حرم خیرہا فقد حرم ( سنن النسائی:۷؍ ۲۵۶، رقم: الحدیث: ۲۰۷۹) ’’ اس ماہ مبارک میں اللہ کی ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے، جو اس رات کے خیر اور اس کی برکات سے محروم رہ گیا وہ واقعی محروم ہے۔‘‘ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا: فیہ لیلۃ خیر من الف شہر من حرمہا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرہا إلا محروم (سنن بن ماجہ:۵؍ ۱۴۰، رقم الحدیث:۱۶۳۴) ’’اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر سے محروم رہا، اس رات کے خیرسے وہی شخص محروم رہتا ہے جو حقیقی معنوں میں محروم ہو۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے : من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (صحیح البخاری:۶؍۴۶۸، رقم الحدیث: ۱۷۶۸، سنن النسائی: ۷؍۳۷۵، رقم: ۲۱۶۴) ’’ جس شخص نے ایمان واحتساب کے ساتھ شب قدر میں عبادت کی اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔‘‘ اس حدیث میں مغفرت کو ایمان واحتساب کی دوشرطوں پر معلق کیاگیا ہے، ایمان کے معنی یہ ہیں کہ عبادت گزار کو اس رات کی عظمت اور اجروثواب کا پورا یقین ہو، احتساب یہ ہے کہ عبادت کرنے والا اپنے عمل کے ذریعے اللہ کی رضا کا طالب ہو، اس کا مطمح نظر نام ونمود نہ ہو،وہ ریاکاری کے جذبے سے کوئی عمل نہ کرے ، بلکہ مقصد عبادت صرف آخرت کا اجر وثواب ہو۔
قرآن کریم نے شب قدر کی عظمت واہمیت پر تو روشنی ڈالی ہے، اور یہ بھی واضح کردیا کہ شب قدر رمضان میں ہے، مگر یہ نہیں بتلایا کہ رمضان کی کونسی تاریخ میں شب قدر ہوگی، نہ کوئی ہفتہ متعین فرمایا نہ کسی عشرے کی نشان دہی فرمائی، البتہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر انتہائی مہر بانی فرمائی، اور آخری عشرہ متعین فرمادیا، پھر عشرہ بھی دس راتوں کا ہوتاہے، مزید شفقت فرمائی اور اس کی طاق راتوں کی نشاندہی فرمادی اب یہ کل پانچ راتیں ہیں، جن میں عبادت کرنا کچھ اتنا زیادہ مشکل نہیںہے، ان پانچ راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہوسکتی ہے، پھر یہبھی متعین نہیں کہ فلاں رات بالیقین شب قدر ہوگی، یا ہر سال ایک ہی رات شب قدر ہوتی ہے، بلکہ بدلتی رہتی ہے، ایک سال کسی رات میں اور اس سے اگلے سال کسی دوسری رات میں، امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ کیوں کہ شب قدر کی تعیین میں روایات مختلف اور متعارض ہیں، ان میں جمع کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ شب قدر کو آخری عشرے کی تمام راتوں میں دائر سائر مانا جائے اورکوئی ایک رات متعین نہ کی جائے (المجموع:۶؍ ۴۵۰) البتہ مشہور صحابی حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کا رجحان یہ تھا کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں شب میں واقع ہوتی ہے روایات میں ہے کہ حضرت عمرؓ فاروق نے شب قدر کے مسئلے پر غور وفکر کے لیے کچھ صحابہؓ کو بلایا، ان میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ بھی تھے ان کی عمر اس وقت بہت کم تھی، کسی نے عرض کیا کہ ابن عباسؓ ہمارے بچوں کی طرح ہیں، ان کا مقصد تھا کہ بڑوں کے اجتماع میں چھوٹے بچوں کا کیا کام؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ یہ جوان عقل وخرد سے آراستہ دل، اور ذمہ داری کے ساتھ بولنے والی زبان رکھتا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ نے شب قدر کے متعلق پوچھا کہ یہ کس رات میں ہوگی، تمام صحابہؓ نے عرض کیا کہ آخری عشرے کی راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہے، ابن عباسؓ سے معلوم کیاگیا، انھوں نے کہا کہ میری رائے میں ستائسویں شب میں لیلۃ القدر واقع ہوتی ہے، حضرت عمرؓ نے سوال کیا تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کئے، سات زمینیں بنائیں، سات دن بنائے، انسان کو سات چیزوں سے بنایا، سات طواف رکھے، سات مرتبہ سعی کرنا ضروری قراردیا، سات مرتبہ رمی کی جاتی ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ شب قدر ستائسویں شب کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸؍۴۴۹)
بہ ہر حال یہ کوئی دلیل شرعی نہیں ہے، لیکن اس سے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے رجحان کا علم ہوتا ہے، کیا عجب ہے شب قدر ستائیس تاریخ کی شب ہو، خوش قسمتی سے اس رمضان کی یہ شب ابھی باقی ہے، اورہم اس کے اجر وثواب سے اپنا دامن مراد بھرسکتے ہیں، حدیث شریف میں شب قدر کی بعض علامات بھی بیان فرمائی گئی ہیں (۱) شب قدر کی صبح میں سورج کی روشنی نہایت مدھم ہوتی ہے، یعنی دھوپ اتنی کھلی ہوئی نہیں نکلتی جتنی باقی دنوں میں نکلتی ہے، حضرت ابی ابن کعبؓ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: انہا تطلع یومئذ لاشعاع لہا( مسلم: ۶؍ ۸۲، رقم الحدیث: ۱۹۹۹) یہ اس دن ہوتی ہے جب سورج کی (تیز) شعاعیں نہیں ہوتیں۔ (۲) یہ رات موسم کے لحاظ سے معتدل رات ہوتی ہے، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لیلۃ القدر لیلۃ طلقہ لاحارۃ ولا باردۃ تصبح الشمس یومہا حمراء ضعیفۃ (صحیح ابن خزیمہ:۸؍ ۱۰۶، رقم: ۲۰۰۶، المسند الجامع: ۲۰؍ ۳۰۸) شب قدر خوش گوار رات ہوتی ہے، نہ گرم نہ ٹھنڈی، اس دن سورج ہلکا سرخ نکلتا ہے۔‘‘
خدا کرے ہمیں یہ رات مل جائے ، حضرت عائشہ الصدیقہؓ نے ایک مرتبہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ! اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کیا کروں فرمایا: تم یہ دعا کرنا : اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (ترمذی:۱۱؍۴۱۹، رقم:۳۴۳۵)
nadimulwajidi@gmail.com
Comments are closed.