رمضان میں پیدا ہونے والی نیک تبدیلی کی قدرکریں

 

از :-مولانا عبد القادر فرید

9000003701

رمضان المبارک کا مہینہ چل رہاہے, ہرصاحب توفیق کو اعمال صالحہ کی سعادت مل رہی ہے, ہرطرف نیکی اور عبادت کا ماحول ہے, اسی مبارک ماحول کی وجہ سے قلب میں رقت اور روح کو سکون مل جاتاہے, جب قلب نرم ہوں تو لازما اپنے گزران پر ندامت, رجوع وانابت الی اللہ کسی نہ کسی قدر حاصل ہوجاتا ہے, دل میں اپنی زندگی کو پاکیزہ بنانے کا ارادہ آنے لگتا ہے, خیر خیرات کے لئے حوصلہ بلند ہونے لگتے ہیں, نظر وزبان پر قابوپانے کی کوششیں ہونے لگتی ہیں, تاکہ روزے کا ضیاع ناہونے پائے, حسب توفیق زبان سے ذکر جاری رہتا ہے, غرض یہ کہ ہربندہ مومن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان کا مہینہ دیگر مہینوں سے عبادات وریاضات میں ممتاز ہوجائے, ایسے جذبہ کے وقت میں ہم ایک سوال اپنے آپ سے کریں یہ عبادتیں اور ریاضتیں دیگر مہینوں میں کیوں نہیں ہوئیں اس پر عقل سلیم اور بیدار ضمیر کی طرف سے ہم کو یہ جواب ملے گا کہ یہ سب اعمال ہونہیں رہے ہیں بلکہ مصرف القلوب ذات کی طرف سے کروائے جارہے ہیں, جب کروائے جارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہواکہ ذات باری تعالیٰ کی جانب سے بندہ مومن کی تربیت کاسامان ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ نیکی کے لئے ماحول کو سازگار بنادیاجاتا ہے تاکہ اعمال کاکرنا, مجاھدات کا برداشت کرنا سھل ہوجائے, ایک مہینہ کی تربیت کے بعد آدمی کی طبیعت میں بہت سی تبدیلیاں آجاتی ہیں اور نیکی کامزاج بن جاتا ہے ,اس صالح انقلاب کو خداتعالی کی عطا اور رمضان کی سوغات سمحھ کر اس کی حفاظت کرنا نیز جن اعمال کی توفیق اس ماہ مبارک میں ملی ہے مابعد رمضان اس پر مداومت کرنا یہ بندہ کا فریضہ اور اس کی ذمہ داری ہے کیونکہ راہ سجھا دی گئی ہے اور اس راہ پرچلنا اب ہمارا کام ہوتا ہے, معصیت کی ہیجانی کیفیت کو ختم کرکے طاعات کے مزاج کو غالب کردیا جاتا ہے اس نعمت کو غنیمت جان کر اس پر استقامت اختیار کرنا یہ ہماری نہ صرف ذمہ داری ہے بلکہ خوش بختی ہے –

ہماری ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نیکی تو کرتے ہیں پرحفاظت نہیں کرتے, جذبات میں بڑے بڑے اعمال ومجاھدات کرتے ہیں پر اس مبارک سلسلہ کو جاری نہیں رکھتے حالانکہ مقصد تخلیق پوری زندگی اللہ کی عبادت اوراس کی رضاجوئی ہے, واقعہ یہ ہیکہ عبادت پردوام, اعمال صالحہ پر استقامت کا حکم خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی دیا گیا واعبد ربک حتی یأتیک الیقین اور آپ اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہانتک کہ آپ کو موت آجائے, جس ذات سے دوام واستقامت میں خلل ممکن نہیں تھا اس ذات کو دوام واستقامت کا حکم مل رہاہے یہ ہم سب کے لئے قابل غور پہلو ہے, اعمال پر استقامت کی تاکید خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے سددوا وقربوا واعلموا ان لن یدخل احدکم عملہ الجنۃ وان احب الاعمال ادومھا الی اللہ وان قل, درمیانی چال اختیار کرو اور اعمال میں کمال تک پہنچنے کی کوشش کرو, تم میں سے کسی عمل اس کو جنت میں داخل نہ کرواسکے گا اور یہ کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جس پردوام ہو خواہ کم ہی کیوں نہ ہو, اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو چیزوں کی بڑی قدر ہے ایک حسن عمل (وہ عمل جوریاکاری سے محفوظ ہوں) مداومت علی الاعمال یعنی نیک عمل زندگی بھر ہو چاہے تھوڑا ہو جذباتی اور وقتی اعمال اللہ کے یہاں پسندیدہ نہیں ہیں –

رمضان المبارک کے بعد دوامور کی طرف توجہ کی ضرورت ہے ایک اعمال صالحہ پر استقامت جس کی قرآن میں جابجا تاکید آئی ہے فاستقم کماامرت ائے پیغمبر! جس بات کا آپ کوحکم دیاگیا ہے اس پر استقامت اختیار کیجئے ان اللذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا بلاشبہ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر مستقیم ہوگئے "ربنا اللہ "یہ اصل ایمان ہے اور استقاموا سے مراد عمل صالح ہے جو اخلاص سے مزین ہو اور بندہ قالب وقلب لازم و ملزوم کی طرح ان دونوں امروں سے سرموانحراف نہ کرے اسی لئے ایک موقعہ پر حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کی ایک جامع بات بتلادیں جس کے بعد مجھے کسی سے اور کچھ پوچھنا نا پڑے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا قل آمنت باللہ ثم استقم یعنی تم اللہ پر ایمان لانے کا اقرار کرو پھر اس پر جم جاؤ, استقامت کا ظاھری مراد یہی ہیکہ ایمان پر بھی مضبوطی سے جمے رہو اور اس کے اقتضاء کے مطابق اعمال صالحہ پر بھی, دوسرا امر یہ ہیکہ رمضان المبارک میں جن اعمال کی توفیق ملی ہے اس پر جو جزا لکھی گئی ہے اس کی حفاظت کی فکرکرنا ضروری ہے, فکر کرنے میں ایک چیز یہ بھی داخل ہے کہ ان اعمال سے بلکلیہ اجتناب کرنا چاہیے جن سے اعمال صالحہ کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے –

اللہ پاک ہم سب کو رمضان کی برکتوں کی قدردانی اور اس میں ملی توفیقات باری تعالیٰ کی حفاظت اور اس پر استقامت کی سعادت نصیب فرمائے آمین

Comments are closed.