” الوداع ماہِ رمضان”

آمنہ جبیں ( بہاولنگر)
زندگی اپنے سفر پہ رواں دواں رہتی ہے۔ ہر نفس انسانی اپنے آپ میں مگن روزی روٹی کی دوڑ میں صبح و شام مصروف رہتا ہے۔ایسے میں اپنوں کے پاس بیٹھنے کا رب کے حضور خاص اہتمام سے پیش ہونے کا وقت کسی کو میسر آئے یہ بہت مشکل لگتا ہے۔ کیونکہ ہم انسان دنیا داری میں پھنس گئے ہیں۔ ہمیں دنیا کی رنگینیوں نے دنیا کی خوبصورتیوں نے جکڑ لیا ہے۔ ہم یوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کی آسائشیں بہت اہم ہیں۔ اور اسی دھوکے اور فریب میں پھنس کر ہم رب سے اور اسلامی طرز سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ لیکن وہ اللّٰہ جس کی دسترس میں ہر شے ہے۔ اس نے ایک ایسا انتظام کر رکھا ہے جس کے ذریعے ہر انسان رب کے قریب ہو جاتا ہے۔ یہ تحفہ رمضان کی صورت رب نے ہمیں عطاء کر رکھا ہے۔ جو ہمیں میسر آتا ہے ہر سال اور رب کی یاد دلاتا ہے۔ قرآن سے جوڑتا ہے۔ ایک پاکیزہ زندگی شفاف ماحول اور روح کو نکھارنے والا باب کھولتا ہے۔اس مہینے کے آتے ہی حسرتیں دم توڑ جاتی ہیں۔ خواہشوں کا بادل چھٹ جاتا ہے۔ بس رب سے تعلق استوار ہو جاتا ہے۔ہر طرف نور کی چادر تن جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایسا مہینہ ہے کہ آسمان کا ذرہ ذرہ زمین کا گوشہ گوشہ نور برسا رہا ہے۔ کیفیات بندھ جاتی ہیں۔ محفلیں سج جاتی ہیں۔ اور اللّٰہ سے اس خاص تعلق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس مہینے میں ہر چیز میں برکت عطاء کر دی جاتی ہے۔ روزی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ برے اخلاق خوش اخلاقی میں بدل جاتے ہیں۔ محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اصل میں اس مہینے میں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسلامی اور انسانی معاشرے میں رہتے ہیں۔ غلاموں پہ آقا رحم کرتے ہیں۔ زبان جھوٹ سے بچ جاتی ہے۔ کان سکونت میں آ کر صرف رب کی سنتے ہیں۔ زبان پہ صرف اللّٰہ کا نام اور مثبت لفظ ہوتے ہیں۔ آنکھیں ٹھنڈک میں رہتی ہیں۔ صرف رب کی مرضی کے مطابق نگاہیں اٹھتی ہیں ۔ پورا وجود رب سے جڑ جاتا ہے رب کے تابع ہو جاتا ہے۔ دل اللّٰہ کے لیے تڑپتا ہے۔ روح اللّٰہ کے لیے آسمانوں میں پرواز کرنے کی التجا رکھتی ہے۔البتہ یہ مہینہ ہر طرح سے خوشی فرحت اور سکونت دینے والا مبارک مہینہ ہوتا ہے۔ یہ ہمیں رب سے ملا جاتا ہے۔ اور رب سے مل کر ہم اپنے آپ سے مل لیتے ہیں۔ اور انسان کی تمملیکت کا سفر اپنے آپ کی تلاش ہی تو ہے۔ یہ مبارک مہینہ ہر روحِ انسانی کو جینے کا حق فراہم کر دیتا ہے۔ نم آنکھیں خشک مٹی سے دھو دی جاتی ہیں۔ سسکتے سلگتے روتے اور تڑپتے دل اپنے بخت کی سیاہی سے نکل کر اجالے کی سفیدی میں ڈھل جاتے ہیں۔ غریب کا دسترخوان بھی خوشیوں کی امنگ بھرنے لگتا ہے۔ ہر انسان بھوک کی تشنگی سے نکل آتا ہے۔ کیونکہ اس مہینے میں احساس پروان چڑھتا ہے۔ اور تو اور معاشرے کی بہتری کے ساتھ ساتھ باقی فضائل اور برکات میں بھی بہتات آ جاتی ہے۔ سحری افطاری کے لمحات عجیب وحدت کے رنگوں میں رنگین رب کے قرب کا شرف بخشتے ہیں۔ مل بیٹھنے کا محبتیں بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ مہینہ آیا اور بہت سی محبتیں ، چاہتیں اور خوشیاں بانٹ کر رب کے حضور شدت سے محبت کا اظہار کرنے کا موقع دے کر اب پھر سے رخصت کے سفر پہ گامزن ہونے کو ہے۔ دل بہت اداس ہے۔ آنکھوں کے کٹورے نمی سے بھر گئے ہیں۔ دل کی زمین پہ خاموشی رقص کر رہی ہے۔ کہ بچھڑنے کا مقام آ گیا ہے۔ الوداع کا مقام آ گیا ہے۔ بہت اچھا رہا رمضان کا مہینہ ہر طرف مہکتی فضا میسر ہوئی۔ رب سے محبت کا شرف ملا مسجدیں آباد ہوئیں۔ دل سکون میں نہلائے گئے۔وجود پہ رب کی رحمت کا مینہ برسا۔ لیکن پسندیدہ چیزیں اور مقام عارضی ہوتے ہیں۔ ٹھرتے تو ہیں لیکن ہمیشگی میں نہیں ڈھلتے۔ ماہِ رمضان ایک مہمان مہینہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک مہمان ہمارے گھر آتا ہے ہم اس سے مانوس ہو جاتے ہیں دل سے اس کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق اس کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ مہمان کافی دن رہ کر ہمارے گھر سے جاتا ہے۔ تو ہماری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ دل رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ یہ مہمان ابھی کچھ دن اور رک جائے اور ہمارے پیار محبت اور عقیدت بانٹنے کے دن ایسی ہی ہمیں تسکین بخشتے رہیں۔ بالکل یہی حال ماہِ رمضان کا ہے۔ کہ مہمان کی صورت ہماری زندگیوں میں آیا اور ہمیں اس کی عادت ہو گئی اس کی کیفیات سے محبت ہو گئی تھی۔ اب اس محبت سے بچھڑنے کے لمحات قریب ہیں۔ تو دل کی دھڑکن غم کے پہاڑوں کو چھو رہی ہے۔ کہ کیسے دور کرے اس مہینے کو خود سے اور کیسے دور ہوں اس مہینے کی برکتوں سے یوں تو رب ہر وقت قریب رہتا ہے لیکن بندہ تو اس مہینے میں ہی مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ رب کی طرف بڑھتا ہے۔ جس گناہ سے دور رہنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ سارا سال اس کا مرتکب ہوتا ہے اس مہینے میں اس گناہ سے بھی انسان باز رہتا ہے۔ اپنے نفس کی غلامی سے خود کو آزاد کرتا ہے۔اور شفاف ہو جاتا یے۔ لیکن افسوس! جیسے ہی یہ مہینہ گزرتا انسان پھر سے اسی غلیظ اور کالے بھٹکے راستے کا مسافر ہو جاتا ہے۔ اور سارا سال اسی میں مگن رہتا ہے۔ اس لیے ہی آنکھ اشکبار ہے کہ جو محبت امن اور اسلامی فضا قائم ہوئی تھی بکھر جائے گی۔ کیونکہ اس مہینے میں یوں لگتا ہے ہر انسان ہر چیز لمحہ لمحہ رب کو یاد کرتی ہے۔ اور معاشرہ متحد دکھائی دیتا ہے۔انتشار کے باب بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب دل رو رہا ہے اے ماہِ رمضان تجھ سے دوری خود سے دوری ہے۔خود سے دوری رب سے دوری ہے۔ مگر میں پھر بھی پر امید ہوں۔ کہ تو لوٹے گا تو پھر سے میسر آئے گا۔ میں پھر سے تجھے گزاروں گی تیری رحمتیں لوٹوں گی۔ میں اس رمضان سے اگلے رمضان تک تیرے لوٹنے کا انتظار کروں گی۔ بس رب سے دعا ہے۔ التجا ہے کہ جو ضبط ہم میں رمضان کے اندر آیا ہے۔ جو محبت خداوندی رمضان میں دل کے گوشوں میں ابھری ہے وہ سال بھر ہی یوں مہکتی رہے۔ اور یونہی فضا میں اسلامی طرز کی خوشبو رہے۔اے ماہِ رمضان تو لوٹے گا میں تیرے انتظار میں نظریے جمائے رکھوں گی میں اس رمضان سے تجھے پھر سے پانے کی دعا لے کر تجھے رخصت کرتی ہوں۔ الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
Comments are closed.