عید اب کے بھی دبے پائوں گذر جائے گی

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
ہر قوم میں عید، تہوار اور جشن کا دن ہوتا ہے، جس میں اسے ان کے عقیدے کے مطابق منایا جاتا اور انجام دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ عید یا تہوار ایک عقیدے کے لوگوں کو جوڑنے اور خوشی ومسرت کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے، اور اس دن لوگ زرق برق لباسوں میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے اور مختلف رسومات انجام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ہر قوم کے لئے ہم نے عید منانے کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جسے وہ بجا لانے والے ہیں، پس انہیں اس بات میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے، آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے، یقینا آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں۔ (الحج: 67)
اگر یہ عید غیر مسلموں کی ہے تو وہ باطل عقیدوں ،لہو ولعب ، اوہام وخرافات ، بے حیائی وعریانیت اور معاصی وفحاشی پر مشتمل ہوگی ، جس کی خوشی چند لمحے تو رہے گی مگر وہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری برائیاں لے کر آئے گی، اور برائیوں اور نقصانات کا انبار اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے گی اور یہی عید اگر مسلمانوں کی ہے اور اللہ نے خود اسے عید وتہوار اور جشن کا دن مقرر کیا ہے تو اس میں خیر ہی خیر ہے جس کی برکتوں سے انسان بعد کے ایام میں بھی مستفید ہوتا رہے گا۔
ہفتہ واری عید کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سال میں دو عید مقرر کئے ہیں۔ جو افضل ترین اوقات میں مشروع کی گئی ہیں، جس کے اندر حسنات ونیکیوں کے ثواب کو خوب بڑھا دیا جاتا اور سیئات وبرائیوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔ عید الفطر رمضان کے روزوں اور اس کی رات کی عبادتوں وقیام لیل کے بعد آتی ہے، یہ عید گویا رمضان کے روزوں کے بعد آغاز ہوتا ہے کہ انسان اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے اسراف وحد سے تجاوز کئے بغیر لطف اندوز ہو اور اللہ تعالیٰ کی مباح کردہ چیزوں سے اپنے جسم کو توانائی فراہم کرسکے تاکہ وہ پوری قوت سے اللہ کی طاعت وبندگی کی طرف متوجہ ہوجائے، اور رمضان میں جس طرح حلال سے بھی بچتا رہا ہے اب وہ پورے سال محرمات سے بچتا رہے اور اللہ کے حکم کی ہر حرکت وسکون میں تابعداری کرتا رہے، اسی طرح عیدالاضحی ارکان حج سے فراغت کے بعد آتی ہے اور یہ دونوں ہی عیدیں اہم ترین عبادت کی ادائیگی پر اظہار تشکر کے لئے ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد جب رسول اللہ صلعم مدینہ تشریف لائے تو پایا کہ یہاں کے لوگ دو دن عید مناتے اور خوب کھیل کود اور لہو ولعب میں مشغول ہو کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو آپ صلعم نے پوچھا کون سے دو دن ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ہم زمانہ جاہلیت سے ان دنوں میں عید مناتے ، کھیل کود کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے زیادہ بہتر دنوں میں اسے تبدیل کردیا ہے اور وہ ہے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ (ابودائود ، نسائی)
اسلام کے مقرر کردہ اعیاد کی بڑی معنویت اونچے مقاصد ، عظیم حکمتیں او رنہایت مفید وکارآمد اثرات وبرکات ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہ عیدیں اپنی وحدانیت کے اظہار اور دلوں میں اس کے رسوخ کے لئے مقرر کی ہیں۔ نماز عید اس کی قرأت اس کے اذکار وتکبیرات سب رب ذو الجلال کی عظمت وکبریائی اور توحید پر مشتمل ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ رب العالمین کی محبت وعظمت اور اس کی کبریائی ہر بندئہ مومن کے دل میں راسخ ہے اور دنیا کی الفت ومحبت اس کی چمک دمک اس کی زیب وزینت اور اس کی لذت وچاہت اسے اس کی عبادت سے ہٹا نہیں سکتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو سارے جہان کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ہوا ہے، اور میں سب ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ (الانعام: 163-126)
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کی عزت وشرف اور تکریم واحترام تب ہی ہے جبکہ وہ صرف اور صرف اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو اور تنہا اسی کی عبادت کرے، اس کے سوا کسی اور کے سامنے سر نہ ٹیکے، اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے، خالق کو چھوڑ کر جو مخلوق کو پکارے گا، خالق کو چھوڑ کر جو مخلوق پر بھروسہ کرے گا، خالق سے صرف نظر کرکے جو مخلوق سے لو لگائے گا، پروردگار کو چھوڑ کر جو دوسروں سے مدد طلب کرے گا اور اسی کے لئے نذر ونیاز کا خواہاں ہوگا وہ اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوگا اور آخرت میں بھی۔
اللہ تعالیٰ نے یہ عید اس لئے مقرر کی ہے کہ اسکے ذریعہ ہم اپنے دلوں کی اصلاح کرسکیں، رنجشوں کدورتوں نا چاقیوں ، نفرتوں ، عداوتوں اور کینہ کپٹ سے اسے پاک کرسکیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعلقات کو استوار ومضبوط کرسکیں، آپس میں ایک دوسرے سے ہمدردی وغم گساری کرسکیں اور آپس میں مل جل کر رہنے کا سبق سیکھ سکیں تاکہ ہمارا مسلم معاشرہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو، ایک دوسرے کا تعاون کرنے والا، سہارا دینے والا اور کام آنے والا بن جائے، عید کے دن ہم آپس میں ایک دوسرے سے مل کر تعلقات کے اندر جو دور ی پیدا ہوئی ہے اس کے فاصلے کو کم کرسکیں۔ سلام ومصافحہ اور معانقہ کے ذریعہ باہم الفت ومحبت پیدا کرسکیں، ایک دوسرے کے گھر جا کر اور کچھ کھا کر کھلا کر ایک کنبہ ہونے کا احساس جگا سکیں، قرابت داروں ورشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرکے اور پڑوسیوں کے ساتھ بہتر سلوک کرکے اپنے اخلاق وکردار کو استوار کرسکیں۔ اور لغزشوں خطائوں اور زیادتیوں کو معاف کرکے اونچے اخلاق واقدار کا ثبوت دے سکیں۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشا فرمایا :
باہم الفت ومحبت ، ہمدردی وغمگساری اور شفقت ومہربانی میں مسلمانوں کی مثال جسم واحد کی طرح ہے کہ ایک حصے کو جب تکلیف ہوتی ہے تو بخار اور راتوں کو جاگنے میں پورا جسم اس کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابودردراء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا:
قیامت کے دن مومن کے میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی اور چیز نہیں ہوگی، اور اللہ تعالیٰ نفرت کرتے ہیں بدگوئی کرنے والے ، بد کردار سے (ترمذی، حسن صحیح) ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلعم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنتیوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ جنتی وہ ہے جو قرابت داروں اور مسکینوں پر رحم کرنے والا اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والا ہو یا جنتی وہ غریب ونادار ہے جس کی بڑی فیملی ہو مگر وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتا ہو، اور وہ شخص بھی ہے جس کا دل حسد وکینہ کپٹ اور ہر طرح کی آلائشوں سے پاک ہو۔
گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہماری عید کرونا کی لہر کے دوران آرہی ہے، ہمیں ایک طرف آمد عید کی خوشی ہے اور دوسری طرف رمضان کے رخصت ہونے کا افسوس ، ہماری یہ عید سابقہ سالوںکی طرح تو نہیں ہوسکے گی، کہ ہمیں اس وقت کرونا کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے، بہت سی جگہوں پر نماز وتراویح ، جمعہ وجماعت جیسی دیگر عبادتوں سے روکنے کے لئے لاک ڈائون لگادیا گیا ہے، بہت سی جگہوں پر مساجد میں نماز تراویح نہیں ہوسکی، اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں ہی میں اسے ادا کیا، جس کا رنج ہے، اخیر عشرہ میں قیام لیل اور تہجد بھی لوگ گھروںمیں ہی ادا کرنے پر مجبور ہوئیجویہ حالت مجبور میں ہو اللہ کی ذات سے امید ہے ہمیں پورا پورا بدلہ اور ثواب عطا کریںگے۔ اس سال رمضان کے عمروں سے بھی لوگ اس کرونا کی وجہ سے محروم رہے، لوگ رشتہ داروں اور عزیز واقارب سے بھی دور ہوگئے ، اور یہ مجبوری کی وجہ سے ہے ، اگر ہماری نیت درست ہو تو اس پر بھی ہمیں پورا پورا ثواب ملے گا۔ ان شاء اللہ
رمضان کے ایام بس اب گذر نے ہی والے ہیں، چند لمحات باقی رہ گئے ہیں، عقلمند وہ ہے جو اسے غنیمت جانے اور اسے کام میں لائے، ہم رمضان کو جدائی کے غم کے ساتھ رخصت کررہے ہیں اور عید کا استقبال خوشی کے جذبات کے ساتھ کررہے ہیں۔ عید جیسے بھی آئے آکر رہے گی، اور رمضان خواہ ہم اس سے استفادہ کریں یا نہ کریں گذر جائے گی کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
عیدمیں ہماری آمد ورفت اور بڑی تیاریاں ہوا کرتی تھیں، مگر اس سال کرونا نے دوستوں کو بھی دور کردیا اور عزیز واقارب کے درمیان بھی فاصلے قائم کردیئے ہیں، مگر اس دوری کے زمانے میں بھی ہمارے دلوں کے اندر دوری نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ گھر سے باہر جسمانی دوری ، ماسک اور دوسری حکومتی پابندیوں کی رعایت کرنے پر مجبور ہیں ، اگر یہ صحت کے نقطہ نظر سے طبی اعتبار سے ضروری ہے تو کوئی حرج نہیں بلکہ شریعت کا بھی یہی تقاضہ ہے، بشرطیکہ واقعی یہ ہدایات صحت کے لئے مفید ہوں ‘ ان پابندیوں اور گھروں میں محصور ہونے کے باوجود عید کی آمد پر ہم خوش ہیں، اور اس خوشی ومسرت کا اظہار ضروری ہے کہ یہ روزہ کی تکمیل پر اللہ کے سامنے اظہار تشکر کے لئے ہے۔ حالات خواہ کتنے ہی ناگفتہ بہ ونا خوشگوار کیوں نہ ہوں، عید کی آمد پر خوشی کا اظہار ضروری ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ ہم اسلام کے ایک عظیم شعار کو انجام دیتے ہیں۔ اسے ایک ایسی عبادت کے بعد مشروع کیا گیا ہے جس میں مشقت وکلفت تھی، اور س مشقت میں بھی ایک لذت رہے جسے ایمان والے ہی محسوس کرتے ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ عبادتوں اور اللہ کے اوامر واحکام کا مقصد انسان کو مشقت میں ڈالنا نہیں ہے اگرچہ بعض عبادتوں کے اندر اور بسا اوقات اس میں مشقت اور کچھ نہ کچھ گرانی ضرور ہوتی ہے جو ضمنی طور پر ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود یہ عبادت وشعائر اور احکام واوامر ایمان والوں کے آنکھوں کی ٹھنڈک ، دلوں کی راحت اور روح کی لذت ہے، جسے انجام دے کر مومن خوشی وخوش بختی سمجھتا ہے ، بلکہ مومن کا تو ایمان ہے کہ اس کے بغیر اس کے لئے کوئی سچی خوشی اور سچی لذت راحت نہیں۔
کرونا کی لہر کے زمانہ میں انسان نفسیاتی طور پر تو مغموم ہے مگر عید کی آمد کی خوشی ضرور ہے ، ہر بڑا چھوٹا، اس کا مشتاق ہے، کیونکہ یہ موقع رمضان کے روزوں کی تکمیل پر آتا ہے جسے بندوں نے خوشی خوشی انجام دیئے اور اب اس کی تکمیل پر بطور شکرانے کے اسے بجا لانا چاہتے ہیں۔ ہم اس کا استقبال صدقہ فطر کی ادئیگی سے کریں، غریبوں ، یتیموں ، بیوائوں کو اپنی عید کی خوشی میں شریک کریں، ان کی مدد کریں، ان کے بچوں کو بھی اپنے بچوں جیسا لباس فراہم کریں، ان میں بھی اپنے افراد خاندان کی طرح خوشی ومسرت کی کیفیت پیدا کریں، چاند ہوتے ہی تکبیرات کا اہتمام کریں، صبح عید کی نماز سے پہلے رمضان کے اختتام کا اظہار کھجور یا میٹھی چیز کھا کر کریں۔ عیدگاہ یا مسجدوں میں اگر نماز نہیں ہورہی ہے تو گھروں میں ہی ضرور ادا کریں، اور ہر ایسا عمل کریں جس سے خود کو گھروالوں کو یا جاننے والے اور عزیز واقارب کو خوشی ہو، دورہی سے صحیح صلہ رحمی کا ثبوت دیں، خطائوں ، لغزشوں اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کریں، جن دو کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو ان کے درمیان صلح ومیل ملاپ کرائیں، کرونا نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہم نے دنیا کو وہ مقام دیا جتنا نہ دینا تھاتو کم از کم اب دنیا کی بنسبت آخرت سنوارنے پر توجہ زیادہ دیں، والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں، غریبوں ،مسکینوں ، یتیموں اور بیوائوں کا سہارا بنیں، اللہ کے نبی صلعم کا ارشاد ہے کہ:
مجھے کمزوروں میں تلاش کرو، مجھے کمزوروں وضعیفوں میں تلاش کرو۔ تمہیں تمہارے کمزوروںکی وجہ سے رزق دیا جاتا اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
بھلائی کا حکم دیں، برائی سے روکیں، عہد وپیمان کی پاسداری کریں۔ وعدہ خلافی سے بچیں، لڑائی جھگڑا ،قتل وغارت گری سے دور رہیں، اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا: کہ ہر گناہ اللہ معاف کرسکتا ہے سوائے اس کہ جو شرک کرتے ہوئے مرا ہو یا کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیاہو۔ ( ابن حبان وحاکم بسند صحیح)
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا: مومن کو ناحق قتل کرنا دنیا کے خاتمہ سے بڑھ کر ہے۔ (نسائی)
ہمیں اس وقت بطور خاص زناکاری وبدکاری ، بے حیائی وعریانیت ، فحاشی وسود خوری ، حرام کمائی وحرام خوری ، دوسروں کے مال پر دست درازی وغصب ، یتیموں بیوائوں وکمزوروں کے مال پر ہاتھ ڈالنے ، منشیات کا استعمال کرنے ، شراب نوشی وجوابازی، ٹخنوں سے نچیے کپڑے لٹکاکر پہننے ، ڈاڑھی منڈوانے ، بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے ، پڑٖوسیوںکو ستانے، کاروبار میں ڈنڈی مارنے ، ملاوٹ کرنے اور جھوٹی باتیں کہہ کر اور عیوب کو چھپا کر مال فروخت کرنے ، گالی گلوج کرنے اور امانت میں خیانت کرنے سے توبہ کرنی چاہیے۔ اور عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ ہمیشہ ہم ان برائیوں اور سارے محرمات سے بچتے رہیںگے خواہ حالات کچھ بھی ہوں۔
شہر خالی ہے کسے عید مبارک کہیے
چل دیئے چھوڑ کے مکہ بھی مدینہ والے
Comments are closed.