ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ

[اسرائیل کی بزدلی کا عالم]

محمد صابر حسین ندوی

روز بروز حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، گزشتہ شب بھی غزہ پر اسرائیلی میزائل نے تباہی مچائی، وہاں ہیلتھ منسٹر کے مطابق تقریباً دو سو افراد شہید ہوچکے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں پچاس سے زائد بچے شامل ہیں، روزانہ شیر خوار بچوں کو منہدم عمارتوں کے ملبے سے کبھی زندہ تو کبھی شہید نکالا جاتا ہے، بعض اسکول کے بچے تھے جنہیں تعلیم و تعلم سے دور کردیا گیا؛ کیونکہ ان کے تعلیمی اداروں کو مسمار کردیا گیا ہے، وہ طلبہ رو رو کر اور گڑ گڑا کر دنیائے انسانی کو پکار رہے ہیں، اسرائیل کی جارحیت کا بھیانک چہرہ دکھا رہے ہیں، ایک بچی کی ویڈیو گردش کر رہی ہے جو محض دس سال کی ہے، وہ اپنی بے بسی، گھر کے انہدام اور والدین کے فراق میں جگر کاٹ رہی ہے، آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ رہا ہے، اور کہتی جاتی ہے کہ میں تو صرف دس سال کی ہوں، میں کیا کروں – مجھے پڑھنا تھا، ڈاکٹر بننا تھا- لیکن دنیا نے ان کی جانب سے آنکھیں بند کرلی ہیں، کان کے پردوں پر روئی ٹھونس لی ہے، وہ گونگے بہرے ہو کر انسانی زندگی کی پامالی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، اس وقت غزہ میں سینکڑوں زخمی حالت میں اسپتالوں کے بستر پر سانسیں لے رہے ہیں، دوا، علاج اور مناسب سہولیات سے محروم ہورہے ہیں، اگر ایسی ہی کیفیت رہی تو ان کا کہنا ہے کہ اسپتالوں کا نظام تھپ پڑ جائے گا، مگر جو بھی ہو وہ مجاہدین اسلام میدان جنگ میں پیر گاڑ چکے ہیں، بہادری اور شجاعت کے ساتھ اسرائیلی قلعوں پر حملہ ور ہیں، وہ ہر حال میں الحمد للہ کہنے سے چوکتے، گویا انہوں نے بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کیلئے اپنی زندگی کا سودا کرلیا ہے، اب کسی ڈگر جھکنا، رکنا اور پیچھے مڑنا گوارا نہیں ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل میں شانتی کی پَریاں اڑتی پھرتی ہوں؛ بلکہ کل میزائل کے اثر سے ایک عبادت گاہ کا ایک حصہ گر گیا جس سے متعدد مرے اور پچاسویں زخمی ہوئے ہیں، ان کے نقصانات بھی کم نہیں ہیں؛ بَس فرق یہ ہے کہ انہوں نے خود کو دنیا سے چھپا رکھا ہے، بلکہ عالم یہ ہے کہ یہودی اپنی بزدلی، کمزوری، نقاہت اور نامردی کے ساتھ آہنی خود کی پناہ لے رہے ہیں، ایک معمولی آواز پر بھی غاروں میں گھس جاتے ہیں، شہر سے دور بھاگنے لگتے ہیں، ایسی خبریں ہیں کہ انہوں نے اپنے گھروں میں بھی ایک مضبوط ترین حصہ (غار) بنا رکھا ہے، وہ رہ رہ کر وہیں روپوش ہورہے ہیں، یہ ان کی پرانی عادت ہے، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیجئے! تو اندازہ ہوگا کہ یہودیوں نے کبھی بھی مسلمانوں کا دو بدو سامنا نہیں کیا، مدینہ منورہ میں ذلیل و خوار ہو کر بنا جنگ کے ہی بھاگنے پر راضی ہوئے، اہل مکہ کو بھڑکایا؛ لیکن خود میدان جنگ میں داد شجاعت دینے سے پرہیز کرتے رہے، خیبر میں انہوں نے مضبوط قلعے تعمیر کئے، متعدد پتھر، پہاڑ اور قوتوں کے مابین گھروں کی تعمیر کی تاکہ مسلمانوں سے بچ سکیں اور انہیں براہ راست مسلمانوں سے جنگ نہ کرنا پڑا؛ مگر ان کے قلعے ریزہ ریزہ کردئے گئے، سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے مضبوط ترین پناہ گاہ کو توڑ دیا اور انہیں وہاں سے بھی کھدیڑ دیا گیا، صہیونیوں کی پوری تاریخ ہی سازش، مکاری اور دوسروں کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر فائر کرنے کی رہی ہے، آج بھی عیاری و مکاری اور سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے، عالمی طاقتوں کو اپنی جیب میں لیکر ہیکڑی دکھاتا ہے، اقوام متحدہ اور برطانیہ نے اسے جنم دیا اور امریکی اس کا باپ بن کر سرپرستی کر رہا ہے، یہی وجہ وجہ ہے کہ خود اسرائیل کے قیام کے بعد بھی ١٩٦٧ء کی جنگ ہو یا پھر اس کے بعد مستقل جھڑپوں میں انہوں نے فی نفسہ کبھی بھی کامیابی نہیں پائی؛ بلکہ دوسروں کی مداخلت نے ہی انہیں تحفظ فراہم کیا، یہ ایک حقیقت ہے جس کو دنیا جانتی ہے، اور جس سے کوئی نگاہیں کے نہیں پھیر سکتا –
تو وہیں اسرائیلیوں کی کھلی ہوئی بزدلی دیکھئے کہ ایک چھوٹے سے خطے کو فوجی اڈہ بنا دیا ہے، ملک کا ہر شہری ایک معنی میں فوجی ہے، خواتین کو بھی فوج میں بڑی شامل کیا گیا ہے، میزائل ٹیکنالوجی، موساد جیسا جاسوسی نظام اور ہتھیار اتنے کہ جتنے ان کے یہاں باشندے نہیں ہیں، شنید تو یہ بھی ہے کہ نیوکلیر ٹکنالوجی بھی ان کے پاس ہے، ان میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ، بزدلی کا نشان، فلسطینیوں کی ہیبت آئرن ڈوم کی تعمیر ہے، آئرن ڈوم ان متعدد میزائل شکن نظاموں میں سے ایک ہے جو اسرائیل میں اربوں ڈالر لگا کر نصب کئے گئے ہیں۔ یہ نظام ریڈار کی مدد سے اس کی جانب داغے گئے راکٹس کو ٹریک کرتا ہے اور ان کو روکنے کیلئے ’انٹرسیپٹ‘ کرنے والے میزائل داغتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ان راکٹوں میں تفریق کرتی ہے؛ جو کہ زیادہ آبادی والے علاقے کو ہدف بنا رہے یا پھر جو اپنے ہدف پر نہیں پہنچیں گے۔ اس سے صرف ان راکٹوں کو روکا جاتا ہے جو کہ زیادہ آبادی والے علاقوں کی جانب آ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نظام سستا پڑتا ہے- اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ہر انٹرسیپٹر میزائل ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر کا ہوتا ہے۔ آئرن ڈوم کی بنیاد سنہ ٢٠٠٦ میں اسرائیل اور جنوبی لبنان میں موجود حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کے وقت رکھی گئی تھی۔ حزب اللہ نے ہزاروں راکٹ داغے تھے جس سے اسرائیل میں کافی مالی نقصان ہوا اور درجنوں اسرائیلی بھی مارے گئے۔ ایک سال بعد اسرائیل کی ریاستی دفاعی کمپنی رفائل ایڈوانس سسٹمز نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک نیا میزائل شکن دفاعی ڈھال کا نظام تیار کریں گے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ اس پروجیکٹ کیلئے امریکہ نے ٢٠/ کروز ڈالر بھی دیے تھے۔ کچھ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ نظام سنہ ٢٠١١ میں پہلی مرتبہ جنگی حالات میں ٹیسٹ کیا گیا جب اس نے جنوبی شہر بیرشیبہ پر داغا گیا ایک راکٹ مار گرایا تھا؛ لیکن یہ نظام بھی اہل ایمان کے سامنے بونا ہی ثابت ہوا ہے، خیبر کو فتح کرنے میں شہادتیں اور وقت زیادہ دینا پڑا تھا، اسی طرح اس کیلئے بھی فلسطین کا یہی ماننا ہے، چنانچہ یہ نظام اتنا بھی کارگر نہیں ہے؛ کیونکہ جب غزہ نے لگاتار بارش کی طرح میزائل داغے تو اسے بھی سانس لینے کی مہلت نہ ملی اور اس طرح آئرن ڈوم ناکام ہوتا گیا، اور اب یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ غزہ کے سامنے یہ ناکافی ہورہا ہے، ویسے بھی یہ صرف نوے فیصد ہی کارگر ہوا کرتا تھا، سوچنے کی بات ہے کہ آبادی سے زیادہ ہتھیار رکھنے والے، کھانے سے زیادہ قوت مدافعت پر خرچ کرنے، مضبوط عقیدہ و فکرسے زیادہ عمارتیں اور ہتھیار کی پرواہ کرنے کس قدر بزدل ہوں گے؛ پھر بھی اسرائیل کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کی بزدلی نے کل بھی انہیں جھکنے اور جلاوطن ہونے پر مجبور کیا تھا اور آئندہ بھی اہل ایمان کی واپسی ہوگی، ان کی شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ دن آئے گا کہ فلسطین آزاد ہوگا، بیت المقدس کی بازیابی ہوگی اور اہل ایمان سرخرو ہوں گے؛ کیونکہ قرآن مجید نے بھی ان پر مہر ثبت کردی ہے کہ:ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ – (آل عمران:١١٢) – "جہاں کہیں بھی رہیں گے ، ذلت ہی سے دوچار رہیں گے ، سوائے اس کے کہ اﷲ کے سہارے اور لوگوں کے سہارے اس سے بچ جائیں ، وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں اور ان پر پستی مسلط کردی گئی ہے ، یہ اس لئے کہ وہ اﷲ کے احکام کا انکار کیا کرتے تھے اور انبیاء کا قتل ناحق کرتے تھے ، نیز یہ ان کی نافرمانیوں اور مسلسل زیادتیوں کا نتیجہ ہے” –
یہ عیش فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت
دل سِینۂ بے نور میں محروم تسلی

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھویں سے
یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی

[email protected]
7987972043

Comments are closed.