"شبِ آوارگی”

آمنہ جبیں ( بہاولنگر)
دیکھو نہ آج
ابرِ رحمت برس رہا ہے
ہوائیں چہک رہی ہیں
منظر مہک رہے ہیں
گیت سناتی ہوئی
جھوم رہی ہیں ڈالیاں
یوں لگ رہا ہے
کہ بارش کی بوندیں
تیری میری راہ تک رہی ہیں
جیسے یہ موسم
محبت کے پیاسوں کو
یکجان ہوکر
مل جانے کو ترس رہا ہے
آ جاؤ نہ تم
اس موسم کی پیاس کو
میرے لبوں کی تشنگی کو
مٹا دو تم
موسم کی رُت سہانی ہے
چلو ایک کام کرتے ہیں
کہیں دور کسی پٹڑی پہ
خراماں خراماں چلتے ہیں
میں تیرے قدم سے قدم ملا کر
چلتی جاؤں کِھلتی جاؤں
تو دیکھتا رہے مجھے
میں تکتی رہوں تجھ کو
پھر کسی پیڑ کے سائے میں
کچھ دیر تیری باہوں میں گزرے
تیری آنکھوں کی زیارت ہو
تیرے ہونٹوں کی ضیافت ہو
میں تیرے سینے سے لگ کر مر جاؤں
ایسی کوئی بہکی لطافت ہو
تیری آغوش میں میرا سر ہو
میرے بالوں میں تیرے ہاتھ ہوں
میں ڈھل جاؤں تجھ میں
کچھ یوں ہم تم ساتھ ہوں
تیری باہوں میں راحت ملے
تیرے لمسِ محبت سے
مجھے اک نئی طاقت ملے
میں جو بکھری پڑی ہوں
مجھے سمیٹ دو تم
میرے اندر وفا مہکا کر
مجھے خود پہ لپیٹ لو تم
میری بےچینیاں
میری یہ حسرتیں
تیری سانسوں کے مہکنے کی
تیری دھڑکن سے ملنے کی منتظر ہیں
آ جاؤ نہ
میری قربت کے لمحوں میں
میری خلوت کے لمحوں میں
اک بار آ جاؤ
اپنا آپ دکھا جاؤ
مجھے کر کے مکمل
محبت کے باقی ہیں جو
وہ سبھی ادھار چکا جاؤ
Comments are closed.