Baseerat Online News Portal

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!

[حماس کی کھلی فتح]

محمد صابر حسین ندوی

اسلام ایک ابدی حقیقت ہے، مسلمانوں کی سربلندی، فتح و نصرت اور جہد وجہاد بھی ایک دائمی حق ہے، دنیا کی کوئی بھی طاقت کتنی ہی طاقتور ہوجائے، طالم کے دانت کتنے ہی نوکیلے، شر انگیز اور فسادی بن جائیں، ان کے دست وبازو پر خون کی ندیاں بہہ پڑیں، کشتوں کے پشتے لگ جائیں، سکندر، دارا، سیزر، نپولین اور ہٹلر کی صفیں بھر جائیں، نیلگوں آسامن تلے سروں کا منار بنانے والے اور اپنی جان کی خاطر مصلحت کی چادر میں لپٹ جانے والے قدم قدم پر پیدا ہوجائیں؛ تب بھی حق کو زیر کرلینا، اسے شکست دے کر ہمیشہ ہمیش کیلئے سلا دینا ناممکن ہے، کلمہ لاالہ کی خاطر اٹھے سروں کو کاٹتے چلے جانا، رب کی حضور بلند صداؤں کو شکستہ کر دینا کسی کے بَس کی بات نہیں، بساواقات فضا ابر آلود ہوسکتی ہے، مطلع دھندلا ہوجائے، گھنے بادل چھا جائیں اور کچھ لمحے کیلئے تاریکی ہوسکتی ہے؛ لیکن سورج کی روشنی کو سَدا روپوش کردینا، اس کی تابانی کو بجھادینا ممکن نہیں، مسلمان خدائے لم یزل کا دست قدرت ہے، زباں ہے، قلم ہے، اس کا سراپا وجود الکتاب ہے، عالم آب وخاک میں اسی کے ظہور سے فروغ ہے، شکوت سنجر وسلیم اور فقر جنید و بایزید انہیں سے ہے، ان کی زندگی کا ایک ایک پَل اللہ تعالی کے سامنے سر افنگدگی، سجود، اطاعت اور اتباع سے تعبیر ہے، اور اسی راہ میں سر کٹادینا، جہاد فی سبیل اللہ کا علم تھام لینا اور شہادت پالینا اس کا مقصود ہے، اس کیلئے وہ اپنی انتھک کوشش کرتا ہے، وہ سر و سامان کی تیاری علی قدر الاستطاعة کرنے کے بعد صرف اور صرف اللہ تعالی کی جانب رخ کرتا ہے اور میدان جنگ میں اپنی جان کی قربانی پیش کر دیتا ہے، ان کا جینا ہی موت ہے، اور موت ہی ان کی زندگی ہے، ذرا سوچیں! جن مسلمانوں میں یہ صفت ہوگی وہ بھلا کسی سے شکست پاسکتے ہیں، وقتی طور پر اگر قدم پیچھے لینا پڑے تو الگ بات ہے، وہ اس حال میں "انتم کرارون لستم فرارون” کے مثل ہوتے ہیں، مگر قطعی شکست سے دوچار ہوجانا انہیں نہیں آتا، ان کیلئے تعداد، اسباب و وسائل اور باطل کی جمعیت اولیت نہیں رکھتے؛ بلکہ سب سے اہم ایمانیات ہیں، یہی وہ جذبہ ہے جس نے آج مٹھی بھر غزہ کے لوگوں کو عالمی جارحیت اور وقت کے سپر پاور کی پشت پناہی پر جینے والے اسرائیلی فوج کو بلاشرط پیچھے ہٹنے اور سیز فائر پر مجبور کردیا ہے، دو ہفتے کے قریب خون آشام جنگ، میزائل کے حملے، لگ بھگ دو سو سے زائد افراد کی شہادت، ساٹھ سے زائد بچوں کی قربانی اور ملینز سے زیادہ مالی نقصان کے بعد اسرائیل کو قدم پیچھے لینا پڑا، یہ یکطرفہ کارروائی ہے، غزہ نے اس پر کوئی شرط قبول نہیں کی ہے، بلکہ حماس کی شرائط پر جنگ بندی کا اعلان ہونے کے بعد تباہ شدہ مکانات کے اوپر چڑھ کر غزہ کے عوام یروشلم اور مسجد اقصی کا دفاع کرنے کی لڑائی میں اسرائیل کی دہشت گرد فوج کے خلاف جشن منارہے ہیں، اور دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو! تمہارے فرعونی نظام نے کیسے نہتے مگر ذوق شہادت کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ہیں، ساتھ ہی دنیا کو ان کی حیران کن نگاہوں کا جواب علامہ اقبال کی زبانی یوں دے رہے ہیں:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
بلاشبہ یہ سپر پاور کی شکست فاش ہے، جو فلسطین کو فلسطینیوں کیلئے تنگ کردینا چاہتے وہ اپنی وسعتوں کے باوجود بے چینی کا شکار ہیں، بنجامن نتن یاہو کی سخت مذمت ہورہی ہے، اسرائیلی اذہان ٹویٹ کے ذریعہ اپنا درد و ألم ظاہر کر رہے ہیں، دنیا ششدر ہے کہ کیسے ایک تنظیم اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے، اسرائیلی کالم نگار ڈونیل ہارٹمین کا ٹائمز آف اسرائیل میں اعتراف کیا ہے کہ: "اسرائیل کو جنگ میں شکست ہوئی ہے”۔ یہ تجربہ اس قدر کڑوا، کسیلا ہے کہ صہیونی فوجیوں کو اب بھی اس پر یقین نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ دوپہر میں جمعہ کی نماز کے دوران فلسطینیوں سے پھر جھڑپ کرنے کی کوشش کی گئی، نیز بیت الحم نارتھ میں فتح کا جشن منا رہے فلسطینی نوجوانوں پر کھسیائی ہوئی صیہونی فورسز نے حملہ کردیا، جس کے نتجے میں ایک بار ہھر سے فلسطینی جوانون اور صیہونی فورسز کے درمیان فساد بھڑک اٹھا، ہمیں معلوم ہے کہ یہ کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے؛ بلکہ معاملہ اب بھی باقی ہے، بہرحال حقیقت یہ ہے کہ بعض مرتبہ فتح کا پیمانہ اپنے نظریے کی بالادستی ہوتی ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس فریق نے کتنے میزائل داغے؛ بلکہ حوصلوں کی اڑان، صبر و ضبط اور میدان کارزار میں ثابت قدمی کو فوقیت دی جاتی ہے، آج دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمانوں کو شکست دینا، ان سے دو دو ہاتھ کرنا آسان بات نہیں ہے، اور یہ کہ اسرائیل ایک دہشت گرد، توسیع پسند ملک ہے، اس کے سامنے بچے، عورتیں اور کمزوروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، وہ بے درد اور بے دل ہیں، وہ صرف عالمی طاقتوں کی بنیاد پر اچھلتا ہے، ورنہ اس کے ہتھیار، اسلحے، آئرن ڈوم اور تمام جدید ٹیکنالوجی ناکام ہو چکے ہیں، دنیا بھر میں اس کی تھو تھو ہورہی ہے، یہودیوں کے خلاف نفرت پھر سے بڑھ گئی ہے، یہودیوں کے مشہور اخبار Jewish News کے مطابق غزہ پر حالیہ حملے کے بعد دنیا بھر میں یہودیوں سے نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ایک یہودی ادرے کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور امریکہ میں یہود مخالف واقعات میں ٤٣٨/فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ سب سے دلچسب بات یہ ہے کہ ان واقعات میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔ یہودیوں پر حملوں میں ملوث اکثر افراد لادین یا عیسائی ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالی کا ارشاد ضرور پڑھیے! وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا – (احزاب:٢٥) "اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ، اللہ نے ان کافروں کو غصہ سے بھری ہوئی حالت میں پھیردیا ، اور وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے، مومنوں کے لئے جنگ میں اللہ ہی کافی ہوگئے اور اللہ خوب طاقتور اور غلبہ والے ہیں” – – – ایسے میں اہل فلسطین اور غزہ کی خوشی، جشن اور میلاد بھی دیکھنے لائق تھی، جہاں ایک طرف دشمنوں کے چہرے زرد ہیں، صحافیوں کے درمیان صف ماتم ہے، اسرائیل میں سناٹا پسرا ہوا ہے، نتن یاہو کی کوئی تصویر نہیں، عالمی دجالوں کی کوئی ویڈیو نہیں؛ وہیں اہل غزہ سربسجود ہیں، اپنے رب کے سامنے جھک گئے ہیں، غرور، گھمنڈ اور تکبر سے دور خوشیاں منارہے ہیں؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی حقیقی منزل آئی نہیں ہے، بلکہ یہ محض ایک پڑاؤ ہے، راستہ طویل ہے، دوش بدوش رہنا ہے، اطاعت کا دامن اور جہاد کا علم پکڑے رہنا ہے، وہ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں تو علامہ اقبال کی یہ نظم آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے:

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جِبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن

[email protected]
7987972043
21/05/2021

Comments are closed.