Baseerat Online News Portal

ہم نے دیکھا اک فرشتہ حضرت قاری عثمان رح کی شکل میں (آخری قسط)

ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

بقلم : شکیل منصور القاسمی
شمشیر حیدر قاسمی

یوں تو جب تک چرخ کہن سال اپنے اسی موجودہ ںظام کے ساتھ باقی ہے، خورشید جہاں تاب کی خوبصورت کرنوں سے دنیا مزین ہوتی رہے گی، سینۂ گیتی پر افراد و اشخاص کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا، ہر خالی ہونے والے عہدے و منصب کو کوئی نہ کوئی ہستی رونق بخشتی رہے گی۔
یہ نظامِ قدرت ہے، جو ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے؛ اس لئے حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہ نے جن جن شعبوں اور میدانوں کو اپنے حسن کار کردگی سے چمکایا اور نکھارا ، وہ سب یوں ہی چمکتے اور دمکتے رہیں گے (ان شاء اللہ تعالی) ؛ خواہ درس و تدریس کا سلسلہ ہو یا نظم و نسق کا معاملہ، کوچۂ سیادت و قیادت ہو یا میدان تربیت و تزکیہ، دین مبین کی حفاظت و صیانت اور اس کی ترویج و اشاعت کا مسئلہ ہو یا فرقۂ باطلہ کی تردید وبیخ کنی کا مرحلہ ، افراد سازی کا عظیم ترین دشوار گزار عمل ہو یا خامۂ دربار سے صفحہ قرطاس کو مزین کرنے کا مہتم بالشان کارنامہ ! ہر جگہ، ہر عہدہ، ہر کرسی ، ہر میدان کے لئے افراد و اشخاص آتے جاتے رہیں گے، یقیناً ان آنے جانے والوں میں بہت سے متنوع خصوصیات و کمالات کے حامل افراد ہوں گے، ان میں سے ہر ایک اپنی خاص شناخت و پہچان سے جانا و پہچانا جائے گا؛ لیکن جن نگاہوں نے حضرت امیر الہند قاری سید محمد عثمان صاحب کو دیکھا ہے، ان کی ہمہ گیر شخصیت کو قریب سے پڑھا ہے ، ان کے اوصاف و کمالات کا مشاہدہ کیا ہے، ان کی نگاہ ہر جگہ اور ہر میدان میں “خصوصیاتِ عثمان “ کو تلاش کرتی پھرے گی ؛ کیونکہ :
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا
کا مصداق شخص کہاں ہے؟ ہے کوئی جو محبت اور دل سوزی کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں اور نصحتیں سنانے والا قائد و رہبر کی ہمیں رہبری فرمادے؟
کہاں چلے گئے ہیں ہمارے وہ محسن و مربی حضرت قاری عثمان؟ جن کی شخصیت علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر تھی کہ :
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز

ادارہ مباحث فقہیہ کے سولہویں اجتماع کی آخری نشست میں نرم دم گفتگو و گرم دم جستجو کا حامل فصیح اللسان و بلیغ المرام ملت کا یہ قائد و محسن جب نہایت ہی پُردرد اور رقت آمیز لہجہ میں وارثان انبیاء سے ہمکلام تھا تو بعض روشن دل رفقاء کو یہ انکشاف ہو رہا تھا کہ "کأنه خطاب مودّع”
آہ ! حضرت کا وہ خطاب بھی کیسا نرالا تھا ؟ جس میں گویا کہ کنواں خود ہی پیاسوں کو دعوت دے رہاتھا کہ آؤ اپنی تشنگی بجھا لو، رخصتوں پر عمل کرکے تم “ آرام پسند ، سہل انگار وتن آساں “ بن چکے ہو، آرام و راحت نے نفس کے ہاتھوں تمہیں ہلاکت و تباہی کے گڑھے تک پہنچادیا، مصلحت آمیزی نے تم سے ہمت و شجاعت کا جوہر چھین لیا، خدارا غفلت و کسل مندی کی راہ کو چھوڑو ! میدان عمل میں آئو، اپنے ان بزرگوں کے حالات کا مطالعہ کرو، جنھوں نےعزیمت کی راہ اختیار کرکے بڑی سے بڑی طاقتوں کو ملیا میٹ کردیا، جن کے بلند حوصلوں کے سامنے فرعونیت و قیصریت کی فلک بوس عمارتیں زمین دوز ہوگئیں۔
حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دل دردمند سے نکلنے والے وہ کلمات ہمارے دلوں میں پیوست ہوتے چلے گئے، جس نے ہمارے احساسات کے تاروں کوچھیڑ دیا، ہمارے خوابیدہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہم وہاں سے اس حال مین لوٹے کہ ہمارے اندر یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کا جذبہ موج زن تھا، مگر آہ ؛
کس سے دہرائیں فسانہ غم دل کا عاجز
سننے والوں سے زیادہ ہیں سنانے والے
عاجز کہ جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کےسب راحت وآرام پڑا ہے

مخدوم مکرم حضرت مولانا سید قاری محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے خداد تربیتی ملکہ سے ایک جہان کو بنایا، سنوارا، سجایا اور چمکایا ؛ لیکن سایۂ پدری میں پروان چڑھنے والے ان کے دونوں صاحبزادگان (گرامی قدر عالی مرتبت حضرت مولانا و مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری اور رفیق مکرم حضرت مولانا مفتی سید محمد عفان منصور پوری نے والد محترم کی خوبیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے، اللہ تعالی ان دونوں بھائیوں کو ہر طرح سے صحت و سلامتی عطاء فرمائے اور اپنے والد محترم کے روشن کردار اور ان کی پاکیزہ روایتوں کا امین و ترجمان بنائے، آمین۔
حضرت امیر الہند رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے ، دارالعلوم دیوبند یا جمعیت العلماء کا تنہا صدمہ نہیں؛ پورے علماء دیوبند اور ملی تنظیموں کا اجتماعی صدمہ ہے ، وہ صرف مادر علمی یا جمعیت کا متاع گراں مایہ نہیں؛ بلکہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے، ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام کے لئے بڑا خسارہ ہے، ہم سب ایک دوسرے کی طرف سے تعزیت مسنونہ کے مستحق ہیں ،ہاں ! ان کی رحلت بالخصوص جمعیت علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے؛ کیونکہ ان کی وفات سے ان دو اداروں نے اپنا ایک بے لوث ووفاشعار ہشت پہل ہیرا کھودیا ہے، جس پہ ہم حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کے خانوادے کے ساتھ جمعیت العلماء کے ذمہ داران اور مادر علمی کے حضرت مہتمم صاحب مدظلہ العالی کو سب سے زیادہ خصوصی تعزیت وتسلی کا مستحق سمجھتے ہیں اور انہیں بطور خاص تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جمعیت العلماء اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، اور لواحقین ، محبین ، منتسبین ومعتقدین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟

Comments are closed.