غزہ میں ہوئے نقصان کاتخمینہ

عبدالرافع رسول
10مئی سے 21مئی 2021یعنی11روزتک لگاتارجاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری سے دو ملین یعنی 20لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل غزہ پٹی میں کمرشل عمارتیں، رہائشی فلیٹس اور گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اورغزہ کھنڈربن چکاہے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق اسرائیل کی حالیہ بمباری میں17 ہزار آٹھ سو گھروں کوشدید نقصان پہنچا ہے۔جبکہ غزہ کی وزارت برائے ہاؤسنگ کے سیکریٹری ناجی سرحان کے مطابق کم ازکم2000عمارتیں ملبے کاڈھیربن چکی ہیں۔ ان میں 18سو ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیں رہے ، ایک ہزار گھر ایسے ہیں جو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں جبکہ 53تعلیمی ادارے6اسپتال اور11بنیادی مراکز صحت بھی تباہ ہوچکے ہیں۔4مساجدشہید جبکہ غزہ کی لوکل پولیس کے دسیومراکزبھی تباہ ہوگئے ۔اسرائیل کی انے واہ بمباری سے غزہ کا آب رسائی کانظام 50فیصد ناکارہ ہوچکا ہے۔ غزہ کے طبی عملے کے مطابق250 افراد اسرائیلی بمباری سے شہیدجن میں سے 66کم سن بچے شامل ہیںجبکہ 2000سے زائدزخمی ہوئے ہیںجبکہ10لاکھ فلسطینی اسرائیل کی اس تازہ جارحیت سے متاثر ہوچکے ہیں۔مالی نقصان پرجورپورٹ سامنے آئی ہے اس کے مطابق اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں کم ازکم 15کروڑ ڈالرکامالی نقصان ہوچکاہے۔
غزہ کی آبادی تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی لمبائی صرف41 کلومیٹر جبکہ چوڑائی صرف10 کلومیٹر ہے۔ اس کی اطراف بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے منسلک ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق لگ بھگ 6 لاکھ فلسطینی جنہیں یہود نے اپنے زیرقبضہ علاقے سے بے دخل کردیاہے بطور مہاجرین غزہ کے8پرہجوم کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔دنیاکے چھوٹے شہروں میںاوسطاً فی مربع کلومیٹر میں7سو سے زیادہ افراد مقیم ہیں لیکن غزہ شہر میں9ہزار سے بھی زیادہ لوگ مقیم ہیں ۔مصراورغزہ کے درمیان رفح کامقام سرحدکہلاتاہے جبکہ اسرائیل اورغزہ کے مابین ایریزکامقام سرحدمانی جاتی ہے ۔ غزہ اسرائیل کی بدترین جارحیت کاہدف رہاہے اور اسرائیل کی طرف سے غزہ پر موقع بہ موقع کی جانے بمباری سے اسرائیل باز نہیں آرہا۔
1967کی مشرق وسطیٰ میں ہوئی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے غزہ پرجارحانہ طورپر قبضہ کر لیا تھاجواسے قبل ارض فلسطین کا یہ علاقہ مصرکے کنٹرول میں تھا۔غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ اس علاقہ کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات آزاد نہیں۔بادی النظرمیں اسرائیل نے اس غزہ سے2005میں اپنی جارح فوج واپس بلاکر38 سال قبضہ کرنے کے بعد اپنے جبری قبضے سے چھوڑدیالیکن اس کے باوجود اسرائیلی محاصرہ اور ظلم و ستم لگاتار جاری ہے۔غزہ سے اپنے انخلاء اور جابرانہ قبضے کوترک کرکے بھی اسرائیل غزہ پرجارحیت کامرتکب ہوتارہا۔ 2008اور2009میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر چوہوں اور خرگوشوں کی طرح کثیف غیرعامل دھاتی دھماکا خیز مواد کا تجربہ کیا ہے اور اس جارحیت کے پہلے ہی دن 500 فلسطینیوں کو شہیدکیاگیا اور جارحیت کے12 دن بعد یہ تعداد1000 نفوس کے قتل عام سے بڑھ گئی جبکہ 2014کی اسرائیلی جارحیت سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اورسینکڑوںفلسطینی شہید کردیئے گئے۔
2005 میں اسرائیل نے اپنی فوج اور تقریباً7000 کے قریب آباد کاروں کو یہاں سے نکال لیا تھاتب سے غزہ ارض فلسطین کے مجاہدین ومحافظین حماس کے زیر کنٹرول ہے۔ حماس کے زیرکنٹرول آنے کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے کے مکینوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کر رکھی ہے اوراسکی اقتصادی ناکہ بندی کردی ہے۔ماضی قریب کی بات کریں تو2014میں اسرائیل نے غزہ والوں پربمباری کردی اورسینکڑوں باشندگان کوخاک اورخون میں تڑپا اوراقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 2014 میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پرہوئی جارحیت میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار گھر تباہ ہوئے تھے اس جارحانہ خونی کھیل کے بعد10 مئی سے 21مئی 2021کو ایک بار پھراسرائیل نے غزہ پروحشیانہ بمباری کردی جس میں 250فلسطینی شہید جبکہ 2000ے زائدزخمی کردئے گئے ۔10 مئی سے 21مئی 2021میں غزہ پرہوئی اسرائیلی جارحیت سے 2000 ہزار عمارتیں ملبے کاڈھیربن چکی ہیں جسکی تفصیل مضمون کے مطلعائی پیرے میں موجوہے ۔
اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی حالیہ جارحیت اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے چند فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں سے نکالا اور مسجد اول قبلہ اول کی بے حرمتی کی ۔اسرائیل کی اس جارحیت پرحماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے گئے۔2007 میں حماس کے غزہ میں برسر اقتدار آنے کے بعد مصر نے غزہ کے ساتھ بڑی حد تک اپنی سرحد کو بالعموم بند کر رکھا ہے اورغزہ کے عوام کومصرآنے جانے پر مزید پابندیاں لگائی دی ہیں۔
اوچا کے مطابق2019 میں بذریعہ رفح 78 ہزار افرد نے غزہ سے نقل مکانی کی تاہم2020 میں یہ تعداد صرف25 ہزار رہی۔اقتصادی ناکہ بندی نے غزہ میں نقل و حرکت ،تجارت اورغزہ کی معاشی حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق مصراوراسرائیل کی شدید اقتصادی ناکہ غزہ کی تقریباً 80 فیصد آبادی بین الاقوامی امداد پر جبکہ تقریباً دس لاکھ لوگ روزانہ کھانے کے لیے بھی امداد پر ہی انحصار کرتے ہیں۔غزہ میں صحت کا نظام کئی وجوہات کی وجہ سے خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افئیرز( OCHA) کے مطابق اسرائیل اور مصر کی جانب سے ناکہ بندیوں، فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے صحت کے شعبے میں کم خرچ، فلسطینی اتھارٹی غزہ میں صحت کے ناقص نظام کے ذمہ دار ہے۔اقوام متحدہ صحت کی دیکھ بھال کی 22 سہولیات کو چلانے میں مدد فراہم کرتی ہے لیکن کئی ہسپتال اور کلینک اسرائیل کی بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں۔غزہ سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے جانے والے افراد کو پہلے فلسطینی اتھارٹی سے اپنی درخواستوں کی منظوری لینی پڑتی ہے جس کے بعد اسرائیلی حکومت سے ایگزٹ پاس کی ضرورت ہوتی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق2019 میں غزہ کی پٹی سے جانے والے مریضوں کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 65 فیصد تھی۔2020سے کورونا وائرس کی وجہ سے بھی غزہ میں صحت کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔غزہ میںاب تک946 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہوئے ہیں۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ مصراوراسرائیل کی طرف سے غزہ کی ناکہ پابندیاں نہ صرف متاثرہ افراد کی جان بچانے والے علاج تک رسائی کو محدود کر رہی ہیں بلکہ وہ کورونا وائرس کے ردعمل میں بھی رکاوٹ ہیں۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس سے ویکسینیشن کا پروگرام متاثر ہو رہا ہے اور وائرس پھیلنے کے خطرے میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ لوگ رشتے داروں یا ہنگامی پناہ گاہوں میں پناہ لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی امداد کے باوجود غزہ کی نصف آبادی یعنی دس لاکھ سے زیادہ افراد کھانے پینے کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔زرعی اراضی اور مچھلی پکڑنے تک پر اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ کے شہری خود خوراک پیدا کرنے سے بھی محروم ہیں۔اسرائیل نے ماہی گیری کو بھی محدود کر رکھا ہے اور غزہ کے شہری صرف ساحل کے ایک خاص فاصلے سے ہی مچھلی کا شکار کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ پابندی ختم کر دی گئی تو ماہی گیری سے غزہ کے عوام کو روزگار اور پروٹین کا ایک سستا ذریعہ مل سکتا ہے۔حالیہ کشیدگی کے بعد اسرائیل نے عزہ کی پٹی سے ماہی گیری پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔گذشتہ کئی برسوں میں اسرائیل نے ماہی گیری کے زون پر مختلف حدیں مقرر کی ہیں، جس سے تقریباً پچاس ہزار ماہی گیروں اور اس سے متعلقہ افراد کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے۔فلسطینی اسرائیل کی طرف سے بفر زون قرار دیے گئے علاقے میں کاشت کاری نہیں کر سکتے، یہ بفر زون غزہ کی سرحد کی جانب 1.5کلومیٹر پر محیط علاقہ ہے۔ بفر زون میں کاشت کاری کی اجازت نہ ہونے کے باعث پیداوار75 ہزار ٹن کم ہوتی ہے۔امدادی قافلوں کے گزرنے کے لیے اگرچہ مصرنے رفح کی سرحد کھول دی گئی ہے لیکن اسرائیلی جارحیت اوراس کی وحشیانہ حملوں کے باعث اس فراہمی کی راہ میں خلل پڑا ہے۔
غزہ میں اقوام متحدہ کے سکولوں میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ حالیہ بمباری کے بعد کئی سکولوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔فلسطین کی مہاجر ایجنسی(UNRWA) کے مطابق275 سکولوں میں سے 65 فیصدڈبل شفٹ پر کام کر رہے ہیں جہاں کچھ بچے صبح کے وقت تو کچھ شام کے وقت پڑھتے ہیں۔2019 میں ایک کلاس کا اوسط سائز تقریباً 41 بچے تھے۔15 سے 19 برس کے نوجوانوں میں شرح خواندگی اب 99 فیصد ہے، جس میں گذشتہ کچھ برسوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔سی آئی اے فیکٹ بک کے مطابق غزہ دنیا کی سب سے کم عمر آبادی میں سے ایک ہے، جس کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ 25 برس سے کم عمر ہے ۔اقوام متحدہ کے دفتر کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افئیرز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح70 فیصد تھی۔

Comments are closed.