بڑھتی جاتی ہے اداسی مری بیشک ہر سال (غزل)

غزل
بلال صابر
بڑھتی جاتی ہے اداسی مری بیشک ہر سال
جو تری سالگرہ دیتی ہے دستک ہر سال
چند سال ہوگئے رکھا ہے بلاک اس نے مجھے
پھر بھی لکھتا ہوں اسے عید مبارک ہر سال
ایک تم ہو جو بدل دیتے ہو محبوب ہر دن
ایک میں جو نہ بدل سکتا ہوں عینک ہر سال
ہاں وہی موت جو لوگوں کو ڈراتی ہے نا؟
کاٹ کر کیک میں بڑھ جاتا ہوں اس تک ہر سال
توڑ کر مجھ کو تو کام آجا کسی مفلس کے
مجھ کو کہتا ہے یہ صابر, مرا گُلّک ہر سال
Comments are closed.