کثرت اموات کی وجہ سے کسی قوم یاگوتر کو مطعون کرناغلط

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اُجین،(ایم.پی)
اس وقت ملک میں کووڈ19کی وجہ سے بکثرت اموات ہورہی ہیں۔ دیگر اقوام کی بہ نسبت مسلمانوں میں اموات کی شرح مختلف اسباب کے تحت کم ہے۔(کوروناکی وجہ سے اموات کی شرح کم ہونے کی بڑی وجہ مسلمانوں کا اقلیت میں ہونا،کیوں کہ جب تعداد میں کم ہیں تو اموات کی تعداد بھی کم ہوگی۔اورمسلمانوں کے کورونا وائرس سے متأثرنہ ہونے کی وجوہات میں دن رات میں پنج وقتہ نمازوں کےلیے کم ازکم پانچ مرتبہ وضو میں روزانہ 15،15بارہاتھ و پیردھلنے کے ساتھ 15، 15بارکلی کرنا اورناک صاف کرنا ہے جس سے وائرس سے حفاظت رہتی ہے، تراویح اور پنج وقتہ نمازوں کے لیے کم ازکم 136بارسجدے، 68باررکوع کرنا،جس سے آکسیجن کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔)
افسوس کی بات ہے کہ اسلام دشمن جماعتیں اور افرادمسلمانوں اوردیگر اقوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کےلیے مسلم ناموں سے سوشل میڈیا پردیگر اقوام کی کثرتِ اموات پرمزاحیہ اورنامناسب کمینٹ لکھ رہے ہیں۔
کسی خاندان وکنبہ یاکوئی قوم جس کے کچھ افراد ہم سے دشمنی رکھتے ہوں اگر قدرتی آفات سے ان کے اہل خانہ کی موت ہوجائے تو عام حالات میں یہ بات ہر لحاظ سے مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ان اموات پر اظہارخوشی کرے۔ اسلامی تعلیمات میں اس کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا تسبوا الأموات، فانہم قد افضوا الیٰ ما قدّموا‘‘ مُردوں کوسب وشتم کرنے، لعن طعن کرنے سے بچو،کیونکہ یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں،(صحیح بخاری،برقم الحدیث 6516)۔
مُردوں کونامناسب کلمات سے یاد کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ مُردوں کے خلاف استعمال کئے گئے جملے مُردوں تک تو نہیں پہنچتے ہیں، البتہ مُردوں کے لواحقین کی دل آزاری کاسبب ضرور بنتے ہیں، جس سے باہم رنجشیں ،دوریاں اورعداوتیں پیدا ہوتی ہیں۔ مسلمان ایک داعی قوم ہونے کی وجہ سے اپنے دعوتی مواقع کو باقی رکھنے بلکہ دعوتی مواقع پیدا کرنے کے لیے اس بات کے پابند ہیں کہ عام حالات میں دوسرے طبقات کے مُردوں کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ وکلمات نہ استعمال کریں۔ دعوتی مقاصد کے تحت بدترین دشمنوں کی اموات پر اُس طرح تبصرہ کرنے سے منع کیا گیا جس سے مرنے والوں کے اہل خانہ کو تکلیف پہونچے۔ چنانچہ ابوجہل جس کے بارے میں ہرمسلمان واقف ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا دشمن تھا۔ اسی کے ساتھ اس کے لڑکے عکرمہ جنھوں غزوۂ احد میں مسلمانوں کے جیتے ہوئے میدان کو شکست میں تبدیل کردیا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دندان مبارک شہید ہواتھا۔ (خیال رہے کہ اس جنگ میں کفارکی طرف سے میمنہ کے کمانڈرخالد تھے اورکفار ہی کی جانب سے میسرہ کے کمانڈر ابوجہل کے لڑکےعکرمہ تھے،ان دونوں کی جنگی حکمتِ عملی اور اقدامات کی وجہ سے غزوۂ احدمیں مسلمانوں کو شکست کاسامناکرناپڑا تھا۔ بعد میں یہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔رضی اللہ عنھما)
جب عکرمہ دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہونا چاہتے ہیں توحضرت رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کرام سے فرمایا کہ:
” يأتيكم عكرمة بن أبي جهل مؤمنا مهاجرا، فلا تسبوا أباه، فإن سب الميت يؤذي
الحي، ولايبلغ الميت، فلما بلغ باب رسول الله صلى الله عليه وسلم استبشر
ووثب له رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما على رجليه، فرحا بقدومه ".
(الحاكم ج3 ص241)
"عکرمہ آرہے ہیں، تم لوگ ان کے باپ ابوجہل کو نامناسب بات مت کہنا کیوں کہ میتوں کے خلاف بولے جانے والے نامناسب جملے میتوں کو تو نہیں پہونچتے ہیں، لیکن ان جملوں سے(میتوں کے)زندوں (لواحقین) کو تکلیف پہنچتی ہے۔ (جس سے دعوتی کاموں میں تعطل پیداہوتاہے)”
اسلام میں انسانیت کا اس قدر احترام ہے کہ غیر مسلم میت کے خلاف بھی بدزبانی دورکی بات ہے، اس کے لیے کھڑے ہونے کی روایت ہے۔
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اورہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھرہم نے کہا کہ یارسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا رَأَيْتُمُ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا “.
کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو،
(صحیح بخاری،کتاب الجنائز،/بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ:حدیث نمبر-1311)
حضرت سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے(جوکافر ہیں) اس پر انہوں نے فرمایا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
أَلَيْسَتْ نَفْسًا ” ؟
کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟:
(صحیح بخاری حدیث نمبر_1312)
(یعنی وہ بھی تو انسان ہے۔)
محولہ بالا سطور اور روایات سے معلوم ہوا کہ میتوں کی بے ادبی اور میتوں کے بارے میں نامناسب تبصرہ کرنے سے بچنا چاہئے۔ خاص طور مسلمانوں کی دینی ودعوتی ذمہ داری ہے کہ ملک میں کووڈ19یاکسی بھی وجہ سے اپنے کنبہ،خاندان یاکسی دوسری قوم میں ہونے والے اموات پر کسی بھی نامناسب کمینٹ سے بچیں، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے اسلام دشمن جماعتیں مسلمانوں کے نام سے سوشل میڈیا پر مختلف اکاونٹس بنا کر غیرمسلموں کی کثرت اموات اور دیگرحالات پرغلط کمینٹ لکھتے رہتے ہیں، مسلمان انھیں سمجھنے اور انھیں روکنے کی بھی کوششیں کریں۔
(نوٹ:اگر کوئی صاحب اس تحریر کا ہندی ترجمہ کرسکتے ہیں،تو فرزندان ملت کو نامناسب باتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے صدقہ جاریہ کی نیت سے اس تحریر کا ہندی ترجمہ ضرور لکھ دیں۔)
کتبہ:
محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء: شہرمہدپور، اُجین(ایم پی)
29رمضان المبارک 1442ھ
مطابق 12مئی 2021ء
Comments are closed.