رمضان گزر گیا مگر ایمان بحال نہ کر سکے

زنیرہ ارشد سیالکوٹ
رمضان کو گئے ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے اور گھر میں رمضان سے پہلے والا سما بندھ گیا ہے۔ چھوٹا بھائی ہیڈ فون لگائے گانے سُن رہا ہے، چھوٹی بہن ٹیلی ویژن کے سامنے سے اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے اور رمضان میں ہونے والی افطار کے دوران خاندانوں کی آپس کی محبتیں ایک دَم سے تنز و طعنہ میں تبدیل ہو گئی ہیں اور انہی سب چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے نجانے وہ کونسا لمحہ تھا جب مجھے اپنے اعمال کا احتساب ہوا اور میں تنہائی میں بیٹھ کر اپنے اعمال کا جائزہ لینے لگی کہ کیا وہ سب کچھ ایک دکھاوا تھا، کیا ہم الله تعالیٰ سے منافقت کر رہے تھے، کیا وہ پانچ وقت کی نمازیں، نمازِ تراویح اور سحری کا بے صبری سے انتظار الله تعالیٰ کی خوشامد تھی یا چند پل کے لیے اپنے لیے بخشش کا سامان بنانے کا خیال تھا۔ لیکن کیا وہ بخشش کا سامان اکٹھا ہو سکا اور اگر اکٹھا ہو بھی گیا تھا تو اب فوراً بدلے ہوئے رویے کی وجہ سے کہیں ہمیں جہنم میں نہ لے جائے۔
ایک دَم سے مجھے جھٹکا لگا اور میں اپنی سوچوں سے باہر نکلی مگر رمضان کو پا لینے کے بعد بھی اپنے رب کو نہ پانے کا غم اب آنسوؤں کی شکل اختیار کر چکا تھا، میں مسلسل اِس خوف میں مبتلا تھی کہ ہم لوگ ایمان کے کِس مقام پر ہیں جس میں ہم پل پل اپنا رویہ تبدیل کر رہے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھ پاتے کہ وہ ہم کسی عام انسان کے ساتھ نہیں بلکہ الله تعالیٰ کے ساتھ کر رہے ہیں اور اگر انسان کے ساتھ منافقت کو کفر کہا گیا ہے تو الله تعالیٰ کے ساتھ منافقت کے بعد ہمارا کیا مقام ہو گا، کیا ہم روزِ محشر رسوائی سے بچ پائیں گے۔ لمحۂ فکریہ ہے کیوں ہم تیس دن باقاعدگی سے نماز پڑھنے اور ہر برائی سے بچے رہنے کے بعد بھی مکمل اور سچے مسلمان نہیں بن پائے، کیوں ایمان ہمارے دلوں میں نہیں بس پا رہا۔رمضان میں شیطان ہمیں تنگ نہیں کر سکتا وہ الله تعالیٰ کی گرفت میں ہوتا ہے اِس کے باوجود بھی ہم گناہ سے نہیں بچ پاتے اور یہ اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر گناہ شیطان نہیں کرواتا بہت سے گناہ ہم خود بھی کرتے ہیں۔
رمضان ہر سال اپنے وقت پر آتا ہے اور آئے گا مگر کیا ہم اگلے رمضان کو پا سکیں گے،کیا ہماری سانسیں آئیندہ رمضان تک بحال رہ سکیں گی اور ہم دوبارہ وہ برکتیں اور رحمتیں سمیٹ پائیں گے، اک پل کی بھی خبر نہیں ہے کہ اگلی سانس آئے یا نہیں، اِس لیے محض رمضان میں ہی نہیں بلکہ ہر دن الله تعالیٰ کی اطاعت کرنی چاہیے اور گناہوں سے بچے رہنےکی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر رمضان میں بنائی گئی اچھے کاموں کی عادت کو قائم رکھنا چاہیے اِس بات کو یاد رکھتے ہوئے کہ ایک دِن ہم جواب دہ ہیں اُس ایک ذات کے سامنے جس کے سامنے سے اُس وقت ہم ہِل نہیں سکیں گے، اگر کل کی اُس کبھی نہ ختم ہونے والی شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اعمال درست کرنے ہوں گے، میں بھی کوشش کرتی ہوں آپ بھی کریں ان شاء الله ہم ضرور کامیاب ہوں گے آمین۔
Comments are closed.