کرونا ،مدارس اور ہمارادینی تعلیمی نظام

 

 

مفتی محمد اشرف علی محمد پور اعظم گڑھ

 

اس وقت ملت اسلامیہ ہند جس قسم کی آزمائش سے دوچار ہے،اس سے پہلے میرے علم کے مطابق کبھی نہیں رہی،اگر چہ ملت پر حالات پہلے بھی اچھے برے آئے؛مگر کبھی بھی مرض، سبب ِمرض، اور علاج وتدارک کی تشخیص وتجویز اتنی مشکل نہیں تھی جتنی اس وقت ہے، اور ارباب حل وعقد،علماء وقائدین ذہنی اعتبار سے اتنے منتشر اور قلبی اعتبار سے اس قدر مایوسی وابہام کا شکار کبھی نظر نہیں آئے جتنا اب ہیں_

 

معاملہ مادی اور دنیوی نہیں ہے،بل کہ دینی وعلمی، ملی وتہذیبی ہے،اس کے اثرات وقتی نہیں،طویل مدتی ہیں_

 

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہزارہا خطرات و اندیشوں کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ میں اسلامی مدارس اور خالص دینی تعلیم گاہوں کا کردار بنیادی اور مرکزی ہے،مدارس نے اپنی کسم پرسی اور پریشانیوں کے باوجود بہترین غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں، یہیں سے ملت کو علماء،حفاظ، دعاة ومصلحین فراہم ہوئے، اور اب بھی فراہم ہورہے ہیں_

 

سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد جب کہ علماء کے وجود پر خطرہ منڈلانے لگاتھا، اور نتیجتاً اسلام خطرے میں تھا، کچھ باشعور وباہمت وعزیمت علماء نے قومی وملی اداروں کے نئے طرز کو متعارف کرایا،اور شاید تاریخ میں پہلی بار مکمل عوامی چندوں سے ایک مستحکم نظام تعلیم قائم کرکے مستقبل بعید تک اسلام کو برصغیر میں محفوظ کردیا اور اسلام کے مٹ جانے یا دیگر ادیان ومذاہب سے خلط ملط ہوجانے کے خطرے کو ایک طویل عرصے تک ٹال دیا، علماء کے بروقت اس اقدام پر تعجب ہوتا ہے،کہا جاتا ہے کہ یہ سب الہامی طور پر ہوا_

 

دینی مدارس ڈیڑھ سو صدی گزرنے کے بعد بھی اسی شان کے ساتھ قائم ودائم ہیں اور کچھ قابل اصلاح وتوجہ امور کے باوجود پہلے کی طرح مفید و ثمر آور ہیں، عوام میں مقبول ومحبوب ہیں_

 

حالانکہ میں اس بات کو مکمل درست نہیں سمجھتا کہ "مدارس عوام کے تعاون سے چلتے ہیں”آپ زکات کو مجازاً تعاون کہہ سکتے ہیں حقیقتاً نہیں؛(مدارس میں نوے فیصد سے زائد رقم زکات کے مد کی آتی ہے) بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ مدارس کا یہ نظام درحقیقت ان مخلص علماء کی قربانیوں، جفاکشیوں، مجاہدوں اور ان کی دور اندیشی وحکمت کے دم سے ہے،جنہوں نے اپنے مقام ومرتبہ کو فراموش کرکے عوام کے در کی ٹھوکریں کھائیں اور جھڑکیاں سنیں، اپنے سکون و قرار (وقوف وقیام ) کو حرکت و سفر میں تبدیل کیا،مَزُوْرْ (جن کی زیارت و ملاقات کے لیے جانا باعث ِ ثواب ہے )کی جگہ خود زائر بن گئے، عمارتوں کی تعمیر کے لیے، اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے، طلبہ کے خوردونوش کے انتظام کے لیے: درد در کے چکر لگائے، فرد فرد سے ملاقاتیں کیں اورعوام کی نگاہ میں، (اللہ کے لیے)سائل وحقیر بن گئے_

 

جو علماء وخدام ِ دین اپنے دینی وعلمی تقاضوں:(تعلیم و تبلیغ) کی مصروفیت کی وجہ سے تلاش ِ معاش سے عاجز تھے؛ اسی لیے قرآن نے انہیں "فقراء” قرار دیا تھا ،اور اسی وجہ سے ان "فقراء” کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا تھا؛تاکہ ان کے مشاغل میں حرج اور یکسوئی میں خلل واقع نہ ہو، انہوں نے حالات سے مجبور ہوکر عاملین علی الصدقات کا فریضہ بھی انجام دیا اور جب یہ دیکھا کہ عوام ان دینی قلعوں (جن کا وجود ہر مسلمان کے دین وایمان کی ضمانت ہے اور جن کی بقاء امت کے ہر فرد کے ذمے ہے_) کا تعاون اپنے ذاتی مال سے کرنے پر راضی نہیں تو

ان کی زکات وصول کرکے،اسے حیلہ تملیک کے ذریعے مدارس کی ضروریات میں جائز طریقہ پر استعمال کیا…. اصل قربانی ان کی ہے،مبارک باد کے لائق در حقیقت یہ نفوس ِقدسیہ ہیں؛ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اسپین بننے کے قریب ہوگیا ہوتا یا کم ازکم وسط ایشیائی ریاستوں کی طرح اسلام یہاں اجنبی بن گیا ہوتا_

 

میری معلومات کے مطابق اسلامی تاریخ میں پہلی بار دینی تعلیم کے نظام کی پوری عمارت زکات پر قائم ہے،یہ عیب ہے، ہنر نہیں ہے،اور اس عیب کے ذمہ دار عوام ہیں علماء نہیں _

 

قرن اول میں دعوت، عبات اور تعلیم تینوں اجتماعی کام اور بنیادی شعبے ہر مسلمان کے مالی تعاون اور جانی قربانیوں سے انجام پاتے تھے، بعد میں بیت المال نے اس کی جگہ لے لی جو دراصل مسلمانوں کا ہی مال ہوتا تھا "بیت المال” درحقیقت "بیت مال المسلمین” کا مخفف تھا_

آج بھی جہاں اسلامی حکومتیں قائم ہیں وہاں یہ تینوں شعبے(اگر پائے جاتے ہیں تو) حکومت کے "بیت مال المسلین سے انجام پاتے ہیں”_یا پانے چاہیے _

جہاں حکومت اسلامی نہیں ہے وہاں پہلے والی صورت عود کرجائے گی اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان تین شعبوں کے لیے بقدر ضرورت اپنے ( زکات کے علاوہ ) مال سے تعاون کرے،افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا اور اب بھی نہیں ہورہا ہے_

 

الغرض نظام ِ مدارس کا بقاء انتہائی ضروری ہے؛ کیوں کہ اسی سے ہمارا نظام ِ تعلیم وتعلم وابستہ ہے؛مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ پچھلے دوسالوں سے، جب سے کرونا کی وبا آئی ہے، یہ نظام پوری طرح موقوف ہے، مدارس بند ہیں،اساتذہ وطلبہ گھروں پر ہیں،کتابیں الماریوں میں بند ہیں اور مطالعہ وتکرار بھولی بسری یادیں بنتے جارہے ہیں _

 

پچھلا پورا تعلیمی سال انتظار کی نذر ہوگیا،امسال امید تھی کہ عید کے بعد نئے تعلیمی سال کا آغاز نئے جوش خروش کے ساتھ ہوگا، تعلیم گاہوں کی پرانی رونقیں بحال ہوں گی؛ لیکن کرونا کی نئی لہر نے سب پر پانی پھیر دیا، آگے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ حالات کب تک نارمل ہوں گے؟مدارس کب کھلیں گے؟ طلبہ کو کب تک دارالاقامہ میں رہنےکی اجازت ہوگی؟_

 

تعلیمی نظام کی طرح انتظامی شعبہ بری متاثر ہوا،رقومات کی فراہمی سے لے کر اساتذہ کی تنخواہوں تک سب بے قابو ہوگئے _

 

کشتی بھنور میں ہو؛ لیکن ملاح کے حواس سلامت رہنے چاہیے، مشکل ترین حالات میں بھی قائد اگر سکون کا مظاہرہ کرے تو قوم حوصلہ نہیں ہارتی، اگر کوئی قوم حوصلہ نہ ہارے تو اس کی شکست ناممکن ہے،معاملہ چاہے جتنا پیچیدہ ہوجائے قائد ورہنما کا کنسیپٹ (تصور ونظریہ) واضح ہونا چاہیے، کامیاب ڈرائیور وہی رہتا جو کم ازکم دوآپشن سامنے رکھ کر گاڑی چلاتا ہے _

 

مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجیے کہ مدارس کے تعلق سے مجھے ان چیزوں کا فقدان نظر آیا اور نتیجتاً نظام ِ مدارس کا "بڑا نقصان” سامنے آگیا،نقصان یہ بھی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں نہ دی جاسکیں، جس سے ان کا حوصلہ پست ہوا،نقصان یہ بھی ہے کہ مدارس کے تعاون کا تسلسل باقی نہیں رہا جسے پہلے کی طرح بحال کرنے میں مشقت اور وقت لگے گا؛ مگر "بڑا نقصان” یہ ہے کہ زیر ِتعلیم طلبہ کا مستقبل مبہم ہوگیا ہے، ان کے حوصلے پر زد پڑی ہے،ان کی آرزوؤں نے دم توڑا ہے،انہیں بروقت مثبت جواب نہیں ملا، درست لفظوں میں ان کے لیے وہ فکر نہیں کی جاسکی جس کے وہ خواہش مند اور مستحق تھے اور جو ہم کرسکتے تھے _

 

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ دور ِحاضر میں ہرکام ومشغلہ کو معاش سے جوڑ دیا گیا ہے، خواہ وہ کھیل ہو،موسیقی ہو تعلیم ہو یا ہنر ہو اور کسی بھی شئ کی بقاء کا تصور اس کے معاشی تعلق کے بغیر ناممکن سمجھتا جاتا ہے؛ ہر چیز پیشہ وارانہ ہوچکی ہے، سوائے علم ِ دین کی طلب اور حصول کے ، جو محض طالبان ِ علم کے شوق پر موقوف ہے، ان کا یا ان کے والدین کا شوق ِ علم اور علم وعلماء کے فضائل کا حصول ان کی ساری سرگرمیوں پس ِپردہ کارفرما ہوتا ہے، انہیں اس تعلیم کا کوئی مادی فائدہ نظر نہیں آتا؛ بل کہ انہیں تو شیطان اور شیطان کے ہمنوا انسانوں کی جانب سے اس علم کے نتیجے میں فقر سے ڈرایا اور بھڑکایا جاتا ہے،(الشيطن يعدكم الفقر و يامركم بالفحشاء الآية).

ایسے مخالف اور حوصلہ شکن ماحول میں ان کی دلجوئی، حوصلہ افزائی؛ بلکہ صحیح لفظوں میں ناز برداری کی ضرورت ہے؛ تاکہ ان میں ثبات وجماؤ پیدا ہو،اور وہ اپنے کو بجاطور پر دنیا میں سب سےزیادہ خوش قسمت سمجھیں اور جدید تعلیم یافتہ ہم عمروں میں خود کو کمتر کے بجائے برتر محسوس کریں_

 

طلبہ کی زندگی کاایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی ہوا کرتا ہے، اس اعتبار سے بھی کہ انہیں مستقبل میں امت کی رہبری کے لیے خود کو خوب اچھی طرح تیار کرنا ہوتا ہے جس کے لیے علم وعمل اور فکر وجہد، اصلاح وتربیت سب کی ضرورت درپیش ہوتی ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ ہندوستان میں RTE (سب کے لیے 14سال کی عمر تک مفت اور لازمی تعلیم کا حق) کے قانون کی وجہ سے وہ اس بات کے لیے بھی فکر مند رہنے لگے ہیں کہ انہیں سرکاری بورڈزسے بھی کم ازکم دسویں کلاس کی سرٹیفکیٹ حاصل ہوجائے؛ تاکہ وہ ناخواندہ لوگوں کی فہرست سے باہر نکل جائیں _

 

ان حالات میں ان کی بروقت، واضح اور اطمنان بخش رہبری نہ ہونےاور عملی اقدام نہ کرنے کی وجہ سے،بہتوں نے اپنا حوصلہ کھودیا، ان کا شوق پزمردہ ہوگیا، کچھ نے اپنا راستہ تبدیل کرلیا،حالانکہ بعض آخری سالوں میں تھے، ان کی فراغت میں ایک یادوسال باقی رہ گئے تھے، رنج کی بات ہے کہ اب انہیں مستند عالم نہیں کیا جاسکے گا اور نہ خود اس کا دعوی کرسکیں گے،اگر کوئی دعوی کرے بھی تو کوئی اس دعوے کو قبول نہیں کرے گا؛ خواہ وہ بہت سے باضابطہ فارغین سے عمدہ صلاحیت کے مالک ہی کیوں نہ ہو _

 

میرے خیال سے یہ نقصان بھی وقتی اور قدرے کم ہے بنسبت اس کے کہ ان بڑی جماعتوں کے طلبہ کی "پریشان حالی” کو ملاحظہ کرکے، ان کے بے سمتی کو دیکھ کر، ان کی مایوسن کن باتوں کو سن کر ابتدائی طلبہ (جو انہیں اپنا آئیڈیل مانتے تھے اور جن کے نقش قدم پر چل کر امہات المدارس میں داخلہ کا خواب دیکھتے تھے)ناقابل ِبیان کلفتوں کا شکار ہوگئے، بد دلی نے انہیں آگھیرا،اور ان کی بہت بڑی تعداد اندازہ ہے کہ جب تک مدارس کھلیں گے تعلیم کو خیر باد کہہ چکی ہوگی، اور نئے سرے سے داخلہ لینے والوں کی تعداد میں بڑی کمی واقع ہوگی_ (دعا ہے کہ میرا اندازہ غلط ثابت ہو، وما ذالک علی اللہ بعزیز)_

 

میں سمجھتا ہوں کہ ابتدائی درجات کےطلبہ کا ترک تعلیم کا نقصان، انتہائی درجات کے بعض طلبہ کے ترک ِ تعلیم سے بڑا اور دیرپا ہے،تسلسل کا باقی رہنا انتہائی ضروری ہے، ہمیں ہمیشہ اور ہر قیمت پر ا سے کو باقی رکھنا چاہیے، کچا مال آنا بند ہوجائے تو کارخانے کا وجود سلامت نہیں رہے گا؛اور ہم عرض کرچکے ہیں کہ ابتدائی طلبہ کے حوصلے انتہائی طلبہ کے حسن ِ احوال، ذہنی سکون وقلبی اطمنان اور بلند حوصلگی سے مربوط ہیں _

 

اگر اللہ تعالیٰ کسی فرد یا ادارے کو کسی قوم یا جماعت، ادارے یا تنظیم کی قیادت و مرکزیت کی نعمت عطاء فرمائیں تو اسے اس نعمت کی قدر دانی کے ساتھ اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ اس کے اشاروں پر چلنے والے اور اس کی جانب ہر مشکل میں امید بھری نگاہوں سے تکنے والے کبھی نامراد و مایوس نہ ہوں، انہیں یہ نہ محسوس ہو کہ ہمارا قائد ہمیں بھول گیا ہے، یا وہ ہم سے زیادہ اپنے ذاتی مسائل میں میں الجھا ہوا ہے اور اسے ہم سے زیادہ اپنے گھر کو بچانے کی فکردامن گیر ہے، ایسی صورت میں ایک طرح کی بے اطمینانی پھیل جائے گی،لوگ خود سے اپنے مسائل کے حل کی جانب متوجہ ہوں گے، مرکز سے ان کا رشتہ کمزور ہوجائے گا اور ،مرکز سے قطع تعلق کے بعد ا ن کی حیثیت تاریخ کی ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی سی ہوجائے گی جو اپنے دارالحکومت کی کمزوری سے موقع پا کر بڑی خوشی سے خود کو مکمل ریاست قرار دیا کرتی تھیں؛ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد کوئی طاقت ور دشمن انہیں باسانی لقمہ بنالیتا تھا _

 

ہم نے مدارس بند کردیئے تھے، مجبوری تھی، لیکن تعلیم وتعلم کا سلسلہ بند کرنا ہماری مجبوری نہیں تھی، ہم اسے جاری رکھ سکتے تھے، مساجد نعوذ باللہ بند ہوجائیں تو نماز بند نہیں ہوگی،ہر گھر مسجد بنے گا، ہم نے جمعہ، وجماعت وعیدین قائم کر کے ایسا کر دکھایا، دوکان کے لٹنے سے کاروبار کا چھوڑدیناحاسد دشمن کے حوصلے کو بڑھا دیتا ہے، ہمیں کاروبار بہر صورت جاری رکھنا چاہیے تھا، اس شعر کا مصداق بن کر :

*ستم کشوں میں وفا کا شعار باقی ہے*

*دوکاں تو لٹ چکی ہے کاروبار باقی ہے*

ہم سرکاری گائڈ لائن کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے، اپنا تعلیمی نظام جاری رکھ سکتے تھے،میں عرض کرچکا ہوں کہ مدارس بند کرنا ہماری مجبوری تھی، تعلیم بند کرنا ہماری مجبوری نہیں تھی، یاد رکھیے *جہاں آپ مجبور ہیں وہیں پر معذور ہیں* _

ہمارے طلبہ جن شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے آتے ہیں وہیں علماء، و اساتذہ بھی نکل کر ملک بھر کے مدارس کی مساند تدریس کو زینت بخشتے ہیں، اگر طلبہ گھروں پر تھے، تو علماء بھی انہیں کے آس پاس تھے، ضرورت تھی کہ ہر عالم (چند علماء مل کر) مدرسہ بن جاتے،خصوصاً بڑے اداروں کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے اعلان کرنا چاہیے تھا کہ فلاں علاقے /ضلع میں فلاں فلاں عالم سے یا ان کی نگرانی میں جو بھی تعلیم حاصل کرے گا ہم اسے قبول کریں گے اور ان کی تصدیق پر آئندہ سال ایک درجہ ترقی دے دیں گے، کوئی کہے کہ اتنے طلبہ و اساتذہ سے ربط کیسے ممکن ہے تو میرا جواب ہوگا "رابطہ مدارس” کے ذریعے_

 

بعض اہل مدارس نے اپنے طلبہ کو مکمل نقصان سے بچانے کے لیے آن لائن تعلیم دینے کا آغاز کیا تو بعض حلقوں کی جانب سے بیان جاری کردیا گیا کہ آن لائن تعلیم سے ہم مطمئن نہیں ہیں، اس سے نفع سے زیادہ نقصان ہے،تعلیم کے مقابلے میں اخلاقی پہلو کو لاکھڑا کرکے ایک تعلیمی نظام کی مخالفت کی معقولیت سمجھنے سے میں اب تک قاصر ہوں، آن لائن تعلیم دینے والوں نے کبھی اسے اپنی پہلی پسند نہیں قرار دیا اور کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمارے نزدیک بالمشافہ تعلیم سے فاصلاتی تعلیم کے فوائد زیادہ ہیں،انہوں نے انہیں نقصانات کو پیش نظر رکھ کر جن کا میں نے اوپر تذکرہ اپنے طلبہ کو بچانے کے لیے اور، ما لا يدرك كله لايترك كله پر عمل کرتے ہوئے ایک تجربہ کرنا چاہا ہم نے ان کے تجربے سے پہلے،خود تجربہ کیے بغیر اپنا خیال ظاہر کردیا، مجھے معلوم ہوا کہ ایک کامیاب ترین ابتدائی مدرسہ کے مہتمم نے جب سال بھر آن لائن تعلیم کے بعد اپنا تاثر ایک مرکزی ادارے کی اہم علمی شخصیت سے بیان کیے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اور انہوں نے حکم دیا کہ ان باتوں کو لکھ کر آپ بھیجیں؛ تاکہ ہماری انتظامیہ کو بھی معلوم ہو_

آن لائن تعلیم کی مخالفین اپنی سب سے بڑی دلیل کہ اس سے بچے اخلاقی طور پر بگڑ جائیں گے یہ فراموش کرجاتے ہیں اب ہندوستان میں سادہ موبائل کا چلن بند ہوگیا ہے،پنچانوے فیصد صارفین کے ہاتھوں میں ملٹی میڈیا موبائل آچکا ہے، خواہ وہ اسے جائز استعمال کریں یا ناجائز،یہ تخیل کہ اگر آن لائن تعلیم نہیں ہے تو ہمارے بچے اسمارٹ فون سے دور ہیں، ناقابل یقین ہے،یوں بھی تفریح کرنے والے تفریحی عمل اجتماعی طور پر انجام دیتے ہیں جس سے غرباء کا کام بھی آسان ہوجاتا ہے میرے خیال میں درحقیقت آن لائن تعلیم بچوں کو موبائل فراہم کرنے کا ذریعہ نہیں تھی؛ بل کہ جن کے پاس موبائل موجود تھے انہیں خود سے جوڑ نے کا ذریعہ تھی _

 

یہ روداد ِ غم پچھلے ایک سال کی ہے؛ مگر میں جب یہ تصور کر تاہوں کہ اگر اس سال بھی "دوسری” اور "تیسری "لہر نے پچھلے سال کی تاریخ دہرائی اور ہم نے بھی وہی رخ اپنایا تو…………. دل اپنا کام کرنے لگتا ہے اور آنکھیں بھی _

 

ضبط کی جاکے سنا اور کسی کو ناصح

اشک بڑھ بڑھ کے یہ کہتا ہے کہ طوفان ہوں میں

 

 

 

Comments are closed.