مولانا نذرالحفیظ صاحب ندوی ازہری مرحوم؛ یادوں کے جھروکے سے(١)

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں راقم الحروف کے زمانہ طالب علمی کا دور ٢٠١١ء تا ٢٠١٣ء ہے، جہاں تخصص فی الفقہ کی توفیق حاصل ہوئی، فضیلت کے آخری سال میں ندوہ کی جانب سے اعزازی طور پر طلباء کیلئے کچھ خاص بندوبست ہوا کرتے ہیں، الوداعی محفلیں، دعوتیں اور دیگر اکرامی نشستیں منعقد ہوتی ہیں، ان میں ایک خاص رائے بریلی تکیہ کلاں کا دو یا سہ روزہ سفر بھی شامل ہوتا ہے، جو تعلیمی، تربیتی اور فکری اعتبار سے خاص اہمیت رکھتا ہے، سرزمین علم اللہ شاہ، مجاہد اعظم سید احمد شھید کی ولادت و تربیت گاہ، انفاس بوالحسن کی آماجگاہ میں طلباء کو روحانی، فکری اور عملی میدان کی کد و کاوش میں پورے ہوش و باش کے ساتھ اترنے کیلئے آخری دفعہ کمر بستہ کیا جاتا ہے، وہاں متعدد محاضرے اور تربیتی اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں جن میں محاضر بڑے اختصار کے ساتھ جامع گفتگو کرتے ہیں، ان میں مولانا نذرالحفیظ صاحب ندوی ازہری مرحوم بھی قیمتی باتیں بتایا کرتے تھے، عجیب بات ہے کہ راقم نے اپنی بے بضاعتی کے باوجود الحمدللہ ان دنوں تمام محاضر کے محاضرات قلم بند کرلئے تھے، یہاں مولانا مرحوم کی جانب سے پیش کیا گیا اہم ترین محاضرہ پیش کیا جاتا ہے، بلاشبہ حرف بحرف آپ کی باتیں منقول نہیں ہیں بلکہ ترجمانی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ یہ سفر ٢٠/مئی ٢٠١٣ء کو ہوا تھا، اور آپ کا بیان ٢٣/مئی ٢٠١٣ء صبح ٩/بجے رکھا گیا تھا، یہی مولانا کی وفات کا مہینہ بھی ہے- اللہ آپ کی مغفرت فرمائے – – – مولانا موصوف نے حمد و ثناء کے بعد بات شروع کی، حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہندوستان، پاکستان کے اندر جتنے بھی مدارس اور اسلامیات کا وجود ہے وہ سب انہیں کی بدولت ہیں، اور ان سب کا اجر ان کے حصے میں لکھا جاتا ہے؛ کیونکہ انہوں نے ایسے وقت میں کام کیا تھا جبکہ پورے ہندوستان پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا، سامراجیت کا غلبہ ہوگیا، ساتھ ہی انہوں نے اپنا عقیدہ، صلیبی فکر اور مغربی روح کو لوگوں پر تھوپنا شروع کردی تھا، وہ یہ کہ انسان بے مقصد پیدا ہوا ہے، اور دنیا خود سے وجود میں آگئی ہے وغیرہ، اس طرح کے خیالات نے مسلمانوں کے اندر پناہ لی، لادینیت ان میں بھی عام ہونے لگی، عملی کمزوریاں بہت زیادہ بڑھنے لگیں، انہوں نے اسی پر بَس نہیں کیا بلکہ پھر اپنے مکتب فکر کو عام کرنے کیلئے مدارس، یونیورسٹیز بھی قائم کئے، علمی مراکز کو فکری بے راہ روی کا ذریعہ بنایا، اور اپنا نصاب تعلیم بھی رائج کیا؛ چونکہ سبھی اسی بہتی دریا میں بہہ رہے تھے اس لئے مسلمان مجبور ہو کر اور اپن کوئی مستقل ادارہ و مرکز نہ ہونے کی بنا پر اپنے بچوں کو بھی انہیں مدرسوں میں داخل کردیا، اس طرح اسلام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا؛ تاہم کچھ ہندوستانی معاشرے میں ایسے مسلمان تھے جو سمٹ گئے اور اسلامی تعلیمات کو اپنے سینے سے لگائے رکھا، مگر نووارد نسل کچھ حصہ تو ضرور برطانوی فکر سے اخذ کرلیا کرتے تھے –

ان سب صورتحال کی وجہ سے گھروں میں عجیب کش مکش پیدا ہوگئی تھی، مثلاً باپ دیندار بیٹا غیر دیندار، بھائی نمازی اور اسلامی تعلیمات والا تو دوسرے بیزار- یہ حال صرف یہیں کا نہیں تھا؛ بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں برطانوی حکومت تھی اور اقتدار تھا وہاں اس طرح کا ماحول رونما ہورہے تھے، مگر ترکی کے علماء نے سب سے پہلے اس کے خلاف قدم اٹھایا اور اس طرح کے نوجوانوں اور فکری بے راہ روی کے شکار افراد کے خلاف فتوی وغیرہ دینے لگے تھے، چونکہ یہ فتاوی بغیر کسی بدل اور زمینی حقائق سے دور ہوا کرتے تھے؛ اس لئے کوئی انہیں مانتا نہ تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ عوام کے درمیان علماء کی آراء کا مقام نہیں ختم ہوگیا، ایسے میں علماء کمزور ہوگئے، اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ علماء نے ان پر مطلق نکیر کی تھی، انہوں نے عیسائیت اور ان کی فکری صورتحال کا مطالعہ نہیں کیا تھا، وہ بَس پرانے منہج پر محض ھدایہ وغیرہ دیکھ کر فتوی دے دیا کرتے تھے؛ لہذا علماء کی وقعت ختم ہوتی چلی گئی، دوسری جانب علماء بھی رفتہ رفتہ یہ دیکھ کر اپنے دائرہ عمل میں سمٹتے چلے گئے، وہ صرف مدارس کے ہو کر رہ گئے، ان کی آواز کمزور پڑ گئی اور وہ چند کلیوں پر قناعت کر بیٹھے؛ یہی حال ہندوستان کا بھی تھا، یہاں بھی باہر سے نوجوان پڑھ کر آتے تھے اور الحاد کی باتیں کرتے تھے، وہ کچھ اور پڑھے ہوئے ہوتے تھے اور علماء کی تعلیم دوسرے منہج پر ہوتی تھی، ایسے میں اشکالات اور فکری مسائل میں جواب دینا مشکل ہوتا تھا، انہیں سب حالات میں ندوۃ العلماء لکھنؤ کا قیام عمل میں آیا؛ تاکہ – کلموا الناس علی قدر عقلوھم – کے مطابق ان کا جواب عقلی، علمی اور دلکش انداز میں دیا جائے، اور یہ ثابت کریں کہ یورپ ہرحال میں اپنے منصوبوں، فکری عیاریوں میں ناکام ہے، اس طرح اسلام کا دفاع ہو اور نسلوں کو کجی و بے راہ روی سے بچایا جائے، ان میں فکری بلندی اور اسلامیت کا عنصر پیدا کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی نصاب تعلیم میں انگریزی کو بھی داخل کیا گیا، بلکہ اسے ایک مستقل مضمون، زبان و قلم کی حیثیت دی گئی، جسے اس دور میں اچھوت سمجھا جاتا تھا، اس کی غرض یہ تھی کہ ہم ان کے افکار انہیں کی کتابوں سے مطالعہ کر کے ان کا جواب دیں اور بتلائیں؛ کہ انہوں نے تعلیم کی دشمنی میں اسکندریہ کا کتب خانہ جلادیا، اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اسے اسلامی حکومت نے جلایا ہے، یورپ اسے مسلمانوں اور اسلام کی علم سے نفرت کی دلیل بنا کر پیش کیا کرتا تھا، مگر ندویوں بالخصوص علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے انہیں کی کتابوں سے ثابت کیا؛ کہ کتب خانہ تم نے جلایا تھا، اس طرح کے جوابات سے مسلمانوں کی ہمت بلند ہوئی؛ نیز یہ بھی بتلایا کہ اسلام نے تعلیم کو اس قدر اہمیت دی کہ پہلی وحی ہی – إقراء – سے شروع ہوئی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں نے ہی سب سے زیادہ کتابیں تیار کی ہیں، اس کا اندازہ صرف اس سے لگا جاسکتا ہے کہ محض علم طب پر چھ سو کتابیں لکھی گئی ہیں، پھر یہ کہ جو کچھ یوروپ میں علم کی روشنی ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کی مرہون منت ہے، اس طرح علماء نے اپنے نوخیز نسل کو تشفی بخش جواب دیا اور علمی اعتبار سے اعتماد دلاتے ہوئے انہیں دین کی طرف متوجہ کیا –

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.