مولانا نور عالم خلیل رحمۃ اللہ علیہ در دارجلیل

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
دارالعلوم دیوبند کے پرشکوہ، دیدہ زیب اور دل فریب "مسجد رشید” کے تہ خانہ میں امتحانِ داخلہ کا پرچہ لکھ رہا تھا، ایسا معلوم ہوا کہ آگے سے گوئی گذر رہے ہیں، کون ہوں گے؟ اساتذہ دارالعلوم دیوبند میں سے ہی کوئی ہوں گے، نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہی رہ گیا، نظر تھی کہ ان پر ٹک کر ہی رہ گئی ،میانہ قد، معتدل الجسم، خوبصورت چہرہ، نستعلیقیت کا مجسمہ، جسم پر شیروانی زیب تن ، دل میں خیال آیا کہ یہ کون استاذ ہیں جو شیروانی میں ہیں۔
فدوی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے خوشہ چینوں میں سے ایک ہے، وہاں کے پرانے اساتذہ کرام شیروانی زیب تن کرتے ہیں، موسم سرما میں تمام ہی اساتذہ کرام شیروانی میں ملبوس نظر آتے ہیں۔
لیکن آج دارالعلوم دیوبند کے امتحان گاہ میں شیروانی میں ایک بارعب استاذ نظر آئے، دل میں خیال آیا یہ کون ہوسکتے ہیں؟
امتحان گاہ سے نکلنے کے بعد اپنے دوست واحباب (ہم چھ سات طلبہ جو ندوۃ العلماء سے عالمیت کرکے آئے تھے) میں ذکر کیا، بعض نے فلاں استاذ کہا بعض نے فلاں!
اور بات یہاں آکر رک گئی کہ یہ شیروانی والی شخصیت عربی زبان وادب کے گل سرسبد، جسم عجمی،زبان عربی کے در نایاب،”الداعی”کے کامیاب ایڈیٹر،وہ کوہ کن کی باتیں،کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟اور حرف شیریں کے خالق حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم ہی ہیں۔
یہی ہماری حضرت مولانا امینی رحمہ اللہ کی پہلی دید تھی، دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے بعد بھی ایک دو دفعہ ہی دیدار ہوئی، وہاں رہتے ہوئے کئی دفعہ (جب دورۂ حدیث شریف کا گھنٹہ خالی ہوتا تو دیگر) درجہ ششم و ہفتم کے اسباق میں بھی بیھٹنا ہوتا ، ایک دفعہ مولانا امینی رح کے درس میں جانے کاارادہ ہوا، درسگاہ کے قریب جانے کے بعد معلوم ہوا کہ آج آپ کا درس نہیں ہوگا۔
اس کے بعد پھر کبھی جانے کا موقع نہیں ملا، جس کا ہمیشہ قلق رہا اور رہے گا کیونکہ اب آپ اس عالم ناپائیدار نہیں رہے۔
20/رمضان المبارک، 1442/ھ، مطابق 3/مئی، 2021/ء کو بوقت سحر یہ روح فرسا خبر واٹس ایپ پر پڑھنے کو ملا کہ ملک کے عظیم عربی ادیب حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ مسافران آخرت میں شامل ہوگئے۔
انالله وانا اليه راجعون، ان الله ما اخذ وله ما اعطى وكل شئ عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب۔
ملک میں عربی زبان و ادب کے گنے چنے ہستیوں میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا امینی رحمہ اللہ کا بھی تھا، آپ رح مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے عربی مجلہ "الداعی” کے دوسرے ایڈیٹر تھے، پہلا ایڈیٹر حضرت مولانا بدرالحسن قاسمی صاحب دامت برکاتہم (مقیم حال کویت)تھے، ان کے بعد مولانا امینی رح ہی اس کے کامیاب ایڈیٹر رہے۔
آپ رح کی عربی، عجمیت کی بو سے پاک تھی، آپ نپے تلے الفاظ ہی استعمال کرتے تھے، ساتھ ہی حقیقت بیانی میں آپ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، جہاں جاتے جو کچھ ہوتا اگر لکھنا ہوتا تو سب کچھ لکھتے "الداعی” کے کسی رسالہ پڑھ رہا تھا جس میں آپ رح نے اپنے سفر ریاض یا کسی اور شہر کے بارے میں روداد لکھا تھا، اسی سفر میں آپ نے ایک موبائل فون اور غالباً جوتاخریدے تھے اس کا بھی ذکر تھالیکن بڑا ہی البیلا انداز میں جو ہر قاری کے لئے سامان تسکین ہو۔
آپ رح کو عربی زبان میں مہارت تامہ حاصل ہونے کا دو سبب معلوم ہوتا ہے ایک یہ کہ آپ کو بے مثال استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رح (سابق استاذ وسابق ایڈیٹر عربی سہ ماہی مجلہ "دعوۃ الحق”دارالعلوم دیوبند )کے جیسے باکمال استاذ ملا جن کے احسانات کے طفیل میں ” وہ کوہ کن کی باتیں "جیسی کتاب منظر عام پر آئی۔
دوسرا آپ کو عالم اسلام کی عبقری شخصیت عربی زبان وادب کے یکتائے زمن مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رح کی معیت میں کم و بیش دس سال رہنے کا موقع ملا، اس کا عکس ” پس مرگ زندہ "میں حضرت مولانا ندوی رح پر لکھا گیا تاثراتی مضمون میں دیکھا جاسکتا ہے حضرت مولانا امینی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں:
*میں نے کم و بیش 10/سال کی مدت مولانا (ابوالحسن علی حسنی ندوی) رح کی خدمت اور ندوۃ العلماء کی تدریس میں گزارا ہے، جس کا شاید آدھا حصہ مولانا کے ساتھ، مولانا کے پاس اور ان کی خدمت میں گزارا ہے۔*(پس مرگ زندہ:556)
جہاں حضرت مولانا امینی رحمہ اللہ عربی ادیب تھے وہیں آپ اردو کے بھی ادیب کامل تھے، ایسا فرد نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
اللہ تعالی مادر علمی دارالعلوم دیوبند کو آپ رح کا نعم البدل عطا فرمائے، اور مولانا نور عالم کی تربت پر نور کی بارش فرمائے۔ (آمین)
Comments are closed.