دیش کی بدترین صورتحال ہے۔

محمد صابر حسین ندوی
اس وقت ملک کی صورتحال پر کچھ لکھنا مزید افسردگی کا باعث ہے، لوگوں میں حیرانی، ناامیدی، نامرادی اور بے قراری پائی جاتی ہے، وہ افسوس کے بجائے امید تلاشنا چاہتے ہیں، اندھیرا اس قدر دبیز ہوگیا ہے کہ ایک چراغ ڈھونڈ رہے ہیں، گھریلو زندگی اجیرن ہوچکی ہے، انسان انسان نہ رہا، آپسی انسیت کا فقدان اور رواداری کا عنصر مفقود ہوگیا ہے، شاید و باید ہی کوئی گھر ہو جہاں کسی کی میت نہ ہوئی ہو، قرب و جوار یا دوست، رشتے دار کی موت اور بے کسی کی خبریں نہ سنی گئی ہوں، بعضوں کا تو گھرانہ ہی اجڑ گیا، والدین، بچے اور بوڑھے سبھی یکے بعد دیگرے رخصت ہوگئے، سلسلہ اب بھی جاری ہے، لوگوں کے کاندھے تھک گئے لیکن جنازوں کی کمی نہیں ہورہی ہے، وہیں ملی و فکری دیوالیہ پن اور عالمی منظر نامہ خود بہت زیادہ خون آلود ہے، انسان روئے کہ آنسو پونچھے اسے کچھ سمجھ نہیں آتا، اب تو آنسوؤں میں بھی نمی نہیں رہ گئی ہے، لوگوں کے سینے بلک رہے ہیں اور آنکھیں بَس تماشہ بیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ اہل دانش نے امید افزاں تحریریں لکھنے کو ترجیح دی ہوئی ہے، وہ تاریک ترین راہوں میں جگنو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ سرکار اپنے ہر محاذ پر ناکام ہے، میڈیا رپورٹس خواہ کچھ بھی کہتی ہوں، چاپلوسوں کی ٹولی گند پر کتنا ہی رنگ و روغن کرلیں مگر حقیقت بدل نہیں سکتے، قیادت کی ناکامی جگ ظاہر ہے، دوا، علاج، اسپتال، بے روزگاری، مہنگائی، ملکی سے لیکر بیرونی مسائل تک یوں گھری ہوئی ہے کہ معمولی سمجھ رکھنے والا بھی نالاں ہے، یومیہ مزدوری کرنے والے اور تشدد میں غرق لوگ بھی بلک رہے ہیں، اپنے مدمخالف سے ہی مدد مانگنے پر مجبور ہیں، جس سوشل میڈیا پر یہ ٹرول کرتے ہیں وہیں پر تعاون کی بھی گہار لگانے لگتے ہیں، مسلمانوں کو تو خیر دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے، جس پر ان کی ملی تنظیمیں، جماعتیں اور افراد سبھی خوش ہیں، وقت بہ وقت اکا دکا آواز اگر اٹھتی ہے تو اسے صدا بہ صحرا ہی سمجھنا چاہیے؛ کیوں کہ اس کی پشت پر کوئی منصوبہ بندی، لائحہ عمل اور دستور نہیں ہوتا، اتحاد و اتفاق اور اقدام نہیں ہوتا، بلکہ جذباتیت کے سیلاب میں الفاظ بہے جاتے ہیں، جس سے کسی کے دل پر کوئی اثر نہیں پڑتا، حکومت بھی نوٹس نہیں لیتی، وہ بھی جانتی ہے کہ اسلام کے نام سینکڑوں فرقوں میں بٹنے والے بھلا ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟ مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرنے والے خود موروثیت اور آپسی رساکشی میں ملوث ہیں وہ کیسے ہمارا بال بیکا کر سکتے ہیں؟ بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ انہیں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر سرکاری بالائی چاٹنے والے ہوں، جن کا مشاہدہ کشمیر، این آر سی وغیرہ پر سبھی کر چکے ہیں، سرکار نے انہیں جماعتوں کے الفاظ، مقاصد اور ہمدردی کو اپنے لحاظ سے استعمال کرتی ہے اور سیاسی داؤ کھیل کر پورا رخ ہی پلٹ دیتی ہے، مگر عالم یہ ہے کہ ہندو اکثریت ماتھا پیٹ رہی ہے، گھر گھر میں رونا ہے، کرونا نے جو کچھ کیا ہے اور آئندہ جو کچھ کرے وہ اپنی جگہ مسلم ہے؛ لیکن سرکار کی نااہلی، نادانی، جہالت اور مطلب پرستی یوں سامنے آئی ہے کہ ملک میں کوئی سکون نہیں ہے، ہمارے آس پاس ہندو آبادی زیادہ ہے، جو کل تک واہ واہی کیا کرتے تھے اور مسلم مخالفت کی وجہ سے سینہ پھیلائے گھومتے تھے، ستر سال کو کوستے، کانگریس کو گالیاں دیتے، مسلمانوں کو برا بھلا کہتے تھے وہ خود آج ہائے ہائے مودی کرتے ہیں، بینکوں میں پیسے نہیں ہیں، بال بچے بھوکوں بلک رہے ہیں، خواتین دوسرے گھروں میں کام کاج کرتی تھیں، جس سے کچھ گزارا ہوتا تھا؛ لیکن اب وہ بھی بند ہے، نوبت یہ آن پڑی ہے کہ ایک دوسرے سے مانگ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ایسے بدقسمت ہوگئے ہیں کہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو جلانے کیلئے بھی کچھ میسر نہیں ہے، انہیں دفن کر رہے ہیں، گنگا یا گومتی ندی میں بہا رہے ہیں، دانے دانے کو ترس گئے ہیں، سبزیاں خریدتے کی اوقات نہیں بچی، جب کبھی باہم کوئی محفل لگتی ہے تو شکوہ و شکایت اور گھریلو حالات سن کر دل بیٹھ جاتا ہے؛ مگر سچی بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود ان کے دل اب بھی مسلم مخالف ہیں، جو یقیناً ہمیشہ رہیں گے، بعض تو کہتے ہیں کہ اب بھی اگر انتخابات ہوجائیں تو بی جے پی ہی فتح پائے گی، کیونکہ مذہبی نشہ ان کی رگوں میں دوڑا دیا گیا ہے، اپنے سے کمتر کو دشمن بنا کر اسے ٹارگٹ کرنا اور اس سلسلے میں اپنی کمیوں اور نقائص کو نظر انداز کردینا بھی انہیں کا حصہ ہے، ایسے میں سرکار بھی جَس کی تَس ہے، وہ اپنی خواہ مخواہ کی کامیابیاں شمار کروانے میں مصروف ہے، ابھی کچھ دنوں قبل مودی جی نے پھر مَن کی بات لوگوں سے کی تھی؛ لیکن اس میں عوام کے تئیں کوئی لگاؤ اور ہمدردی نہیں دکھائی گئی بلکہ اپنی نام نہاد کامیابیاں ہی شمار کروائی گئیں، حکومت ایک اور کوشش لگاتار جاری ہے کہ کسی بھی طرح ہند ومسلم اینگل تلاش کیا جائے اور اس میں تمام قوی صرف ہوجائیں، چنانچہ جہاں کہیں کچھ سبز رنگ نظر آجائیں یہ درندوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں، اس کے علاوہ سرکار اپنی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مصروف ہے، چند صوبوں کو اس مہاماری کے دوران ہی سی اے اے لاگو کرنے کی اجازت دے دی ہے، یعنی وہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی رہائش دے سکتے ہیں، اس کے علاوہ کڑوروں کی سینٹرل وسٹا پروجیکٹ تیار کرنے کیلئے پیسے ہیں، مگر عوام کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے پیسے نہیں ہیں، ویکسینیشن کی جب کبھی بات نکلتی ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ خواہ لوگ مرجائیں، دم توڑ دیں، ملک میں وبا پیر ہسارتا جائے لیکن انہیں کسی کی نہیں پڑی، وہ اگرچہ ویکسینیشن کی. بات کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان تو ان کے پاس پیسے ہیں اور ناہی ویکسین ہے، جو تھی تو انہیں دوسرے ملکوں کو دے دیا گیا، اب ہمارے نوجوان اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، افسوس بھارت ایک ایسا دیش بنتا جارہا ہے جہاں غربت، مفلسی اور عوامی مسائل پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں، جی ڈی پی کی. تازہ شرح پچھلے چالیس سال میں سب سے کم ہے، یقیناً بی جے پی اور آر ایس ایس کی قلعی کھلتی جارہی ہے، لوگوں میں عجیب کش مکش اور بے چینی ہے، پوری زعفرانی جماعتیں اپنی ساکھ درست کرنے اور ملک میں اپنی بات بنانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ یہ ہندو قوم ایک بار پھر زعفرانی پرچم کے نیچے آجائے گی؛ کیونکہ ان کے نزدیک مسلم مخالفت اصل ہے، اور یہی آلہ تنفس استعمال کیا جارہا ہے، اتر پردیش میں لگاتار مساجد کی شہادت اور مسلم مخالف بیان بازی جاری ہے، گجرات سے لیکر کرناٹک تک ہر کہیں ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ لوگوں میں مسلمانوں کی نفرت پیدا ہوجائے اور دیش پریم کے ساتھ مودی پریم بھی جاگ جائے، اس دوران مسلمان تماشائی بنے ہوئے ہیں، ظاہر ہے کہ ایک قوم بنا قیادت، سیاست، معاشی استحکام، معنوی و روحانی تیاری کے کر بھی کیا سکتی ہے، وہ ایک بھیڑ ہیں جن کا استعمال کیا جارہا ہے، کاش مسلمانوں میں بیداری ہوتی اور سمجھتے کہ ان کے کیا فرائض ہیں؟
7987972043
Comments are closed.