Baseerat Online News Portal

فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!!(٧) اسرائیل کا قیام اور عرب سے جنگ

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

صہیونیوں کو فوجی طاقت کیا ملی کہ وہ اپنے پورے جوہر، حیوانیت اور درندگی کے ساتھ میدان میں آگئے، ہگانا یہ پوری فوج انسانی شکل میں درندوں سے کم نہیں تھی، ایک طرف نئی فوجی طاقت جو عقیدت کے اعتبار سے بھی خونخوار ہے، تو دوسری طرف فلسطینی تھے جنہیں عسکریت سے کوئی لینا دینا نہ تھا، ظلم اب سر اٹھا چکا تھا، وہ سانپ بل سے باہر نکل چکا تھا جس کی ایک سانس زمین کو بنجر کردے، وہ دیو ہیکل خروج کر چکا تھا جو اپنا شکم صرف فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں سے بھرے اور اپنی خشک رگوں کو انہیں کے خون سے سیراب کرے، چنانچہ جب تک ١٩٤٨ء کا دور آیا اس وقت تک عرب ٥٦/ فیصد ہی رہ گئے تھے اور یہودی بڑی تیزی کے ساتھ ٤٤/ فیصد ہوگئے تھے، یہ تناسب اگرچہ عددی اعتبار سے نظر آتا ہے، کوئی محض تعداد پر فیصلہ کرے تو وہ فلسطینیوں کا ترازو جھکتا ہوا بتائے گا؛ مگر حقیقت میں ان دونوں کا کوئی مقابلہ نہ تھا، عرب کاشتکار تو یہودی عسکریت پسند تھے، فلسطینی قدیم عربی روایات و تہذیب کے علمبردار تو یہودی قدیم دشمنی اور اسلام مخالف نیز بیت المقدس کی پامالی کا منصوبہ رکھتے تھے، دنیا جانتی ہے کہ تعمیر تخریب سے زیادہ مشکل کام ہے، فسادی تو صرف پلک جھپکتے ہی پوری بستیاں اجاڑ دیتے ہیں؛ لیکن اسے آباد کرنے میں صدیا لگ جاتی ہیں، اب صہیونی صدیوں سے آباد فلسطین کو برباد کرنے کا عزم لیکر سرزمین فلسطین پر پنجے گاڑ چکے تھے، ادھر دوسری عالمی جنگ (١٩٣٩ء تا ١٩٤٥ء) میں لاکھوں انسانوں کی جان ومال کا نقصان کر کے اور عالم انسانی میں یورپی دہشت گردی پھیلا کر اختتام پذیر ہورہی تھی، مگر اس مرتبہ برطانیہ بری طرح شکست کھا چکا تھا، معاشی دیوالیہ پن اور استعماریت کی طاقت ٹوٹ چکی تھی، دنیا بھر میں پھیلے برطانوی سامراج کی پکڑ اب اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ جنگ آزادی کی لہر اور بغاوتوں نے زور پکڑ لیا تھا، اب وہ جلد از جلد ان جھمیلوں سے آزاد ہونا چاہتا تھا جو اس نے اپنے اوپر زائد اوڑھ لئے تھے، بالخصوص قضیہ فلسطین جو بے حد پیچیدہ اور نازک ترین مسئلہ تھا، اس سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش شروع کردی، بلکہ اس نے دفعتاً قضیہ فلسطین سے ہاتھ کھڑے کر لئے، ایک عرصے تک اس پر قبضہ کرنے بعد اسے کسی انجام کو نہیں پہنچایا، حد تو یہ ہے کہ اتھارٹی، حق حکمرانی کسی ایک کو سونپے بغیر ہی وہاں سے رخصت ہوگئے، حالانکہ ہوتا یہی تھا کہ کوئی استعماری طاقت اپنی اتھارٹی چھوڑتی ہے تو وہاں امن و شانتی اور حکومت کی باگ کسی نظام کو باقاعدہ سونپ کر جاتی ہے، جیسا کہ ہندوستان سے ہی برٹش سلامی کے ساتھ واپس گئے، مگر فلسطین کے سلسلہ میں تعجب خیز رویہ اپنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ تب تک فلسطین اور صہیونیوں کی جانب سے ایک مستقل الگ الگ ریاستوں کا مطالبہ تحریک بن کر افق پر چھا چکا تھا، فلسطینی ایک ملک اور صیہونی اسی فلسطین میں سے اپنے ایک الگ ملک کا مطالبہ تیز کر چکے تھے۔

یہودیوں میں شدت تھی تو فلسطینی بھی پیچھے نہیں تھے، یہ معاملہ أولاً ١٩٢٠ء میں قائم کردہ لیگ آف نیشنز – جمعیت اقوام – کو بھیجا گیا تھا جو اس دور میں اقوام متحدہ کی حیثیت رکھتا تھا، مگر اس کی کوئی مستحکم حیثیت نہ ہونے اور جنگ عظیم دوم کے ختم ہونے پر اس کی اقوام متحدہ (١٩٤٥ء) کے نام پر کی تجدید کی گئی اور اس قضیہ کو ان کے پاس منتقل کردیا گیا، ١٩٤٧ء میں اقوام متحدہ نے اس کا فیصلہ کیا، اسے UN partition plan سے جانا جاتا ہے، جس میں عالمی سطح پر قضیہ فلسطین کو گنجلک بنانے اور فلسطینیوں کو جہد مسلسل کی بھٹی میں جھونک دینے کی شروعات کی گئی، اس کی رو سے ٥٦/ فیصد زمین یہودیوں کو دی گئی جبکہ وہ ٥٤/ فیصد ہی تھے، اور فلسطینیوں کو ٥٤/ فیصد زمین دی گئی جبکہ وہ ٥٦/ فیصد تھے، اور یروشلم جو تمام سہ مذہبی اعتبار سے تقدس رکھتا ہے اسے عالمی ہاتھوں میں دے دیا گیا؛ تاکہ کوئی اختلاف نہ ہو، مگر یہ تقسیم نامناسب اور ناجائز تھی، اس لئے فلسطینیوں اور عربی مملک نے اس تقسیم کو سرے سے رد کردیا، اس کی دو وجہیں تھیں – اول یہ کہ یہودیوں کا وہاں کوئی حق ہی نہ تھا وہ تو باہر سے آکر زبردستی بسائے گئے تھے، دوم یہ کہ فلسطینی اکثریت کے باوجود زمین کم ہی ہارہے تھے، اس کے بالمقابل یہودی اسے قبول کرتے ہیں، ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں؛ کیونکہ جو انیس صدیوں سے در در بھٹک رہے تھے انہیں زمین نصیب ہوگئی تھی، اور اس طرح انہوں نے اس تقسیم کے بعد ١٤/مئی ١٩٤٨ء کو فلسطین میں ہی ایک نئی ریاست اسرائیل کی بنیاد کا اعلان کردیا، جس کو اقوام متحدہ نے ١١/مئی ١٩٤٩ء کو منظوری دے دی، اس نے مغربی ایشیا کے ایک حصے پر اپنا ملک بنایا ہے جو بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب مشرق میں فلسطین اور جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہیں؛ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے؛ لیکن عرب ممالک سخت نالاں تھے، وہ کسی قیمت پر اس تقسیم کو روا نہیں سمجھتے ہیں، چنانچہ اسرائیل کے قیام کو کچھ ہی ماہ گزرنے تھے کہ عرب نے خون آشام جنگ چھیڑ دی، اسے پہلی عرب اور اسرائیل جنگ – First Arab – Israel War- کہا جاتا ہے، مگر عرب اپنی اکثریت کے نشے میں چور تھے، وہ اسلام کیلئے نہیں بلکہ عربیت کیلئے لڑ رہے تھے، جبکہ اسرائیل کے پاس انیس صدیوں بعد کوئی ایک چھوٹا سا ملک ہاتھ آیا تھا؛ وہ جانتے تھے کہ اگر انہیں یہاں سے نکلنا پڑا تو اب انہیں کوئی دوسرا ٹھکانہ نہ ملے گا، اسی لئے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، عالمی طاقتوں نے بھی خوب مدد کی، مسیحی خود ان سے جان چھڑانا چاہتے اور یورپ کی گلیوں سے دھتکارنا چاہتے تھے؛ ایسے میں جب ١٩٤٩ء میں جنگ بند ہوئی تو اسرائیل پوری قوت کے ساتھ ابھرا، اس نے غیر یقینی طور پر عرب کو دھول چٹادی، ساتھ ہی انہوں نے فلسطین کے اکثر حصے پر قبضہ کرلیا، تقریباً ٧٨/ فیصد پر قابو پانے کے بعد فلسطین کیلئے صرف ٢٢/ فیصد زمینیں ہی بچ پائی تھیں، وہ بھی اس لئے کیونکہ غزہ کو مصر نےاور مغربی کنارے (west bank) کو جارڈن نے لے لیا تھا – معلوم. ہونا چاہئے کہ غزہ کی آبادی تقریباً ٢٠/ لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی لمبائی ٤١/کلومیٹر جبکہ چوڑائی دس کلومیٹر ہے۔ اس کی اطراف بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے منسلک ہیں، تو وہیں مغربی کنارہ دریائے اردن کے زمین بند جغرافیائی علاقے کا نام ہے جو مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یہ ملک فلسطین کا حصّہ ہے- مغرب، شمال اور جنوب کی طرف اسرائیل ہے؛ جبکہ مشرق کی طرف مملکت ہاشمی اردن کا ملک واقع ہے۔

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز

ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو

مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانا سے راز

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.