جانور کی کھال پر”اللہ” یا”محمد” لکھا ہونا

بقلم: (مفتی)محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:شہرمہدپور،
اُجین(ایم پی)

مسٔلہ؟ کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
کسی جانور(بکراوغیرہ) کے بالوں پرکچھ نشانات اس طرح سے دکھائی دیں (کالے اورسفید) کہ وہ "اللہ” یا "محمد” لکھا ہواہوتاہو، تو چہ حکم دارد؟
المستفتی:
محمدہاشم صدیقی مظاہری،
مینکلوی ، نزدکراور(منڈی)

الجواب حامداومصلیا ومسلماامابعد
بعض جانوروں کی کھالوں میں "اللہ”،”محمد”یادوسرا کوئی مبارک کلمہ لکھا ہوتا ہے، وہ اتفاقی باتیں ہیں۔ اس قسم کے نقوش یا تحریروں کی وجہ سےشریعت میں جانور کو کوئی خاص فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے نقوش وتحریروں کی وجہ سے جانور کو کوئی خاص فضیلت حاصل ہوتی تومصادرِ شریعت میں اس کا بیان ضرور موجود ہوتا، لیکن شریعت مطہرہ کے کسی مصدر(قرآن وسنت، آثار، فقہ وغیرہ) میں اس بابت کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ خاص طور پر قربانی وغیرہ کے جانور کے سلسلے میں آداب وفضلیت کی جو
تفصیلات ملتی ہیں ان میں بھی جانور کی فضیلت میں ایسی باتوں کاتذکرہ نہیں ملتا ہے۔ بلکہ شریعت نے قربانی جیسے اہم موقع پر افضل جانوروں میں خصی (جس جانورکا خصیہ نکال دیا گیا ہو یااس کی نسوں کو کوٹ کر اس کی جنسی وشہوانی صلاحیت کو ختم کردیاگیا ہو) کی قربانی کو پسندیدہ وافضل قراردیا ہے۔(1)
اسی طرح قربانی کے جانوروں کی مختلف اصناف میں چھوٹے بڑے کے لحاظ سے بتلایاگیا ہےکہ :اُس جانور کی قربانی افضل ہے، جس میں فقراء کازیادہ فائدہ ہو۔(2)
مذکورہ حکم کے مطابق (ملکی حالات کے پیش نظر) اگرغریب مسلمانوں نے چھوٹے جانورکوپال رکھا ہے، اوراس کی قمیت بڑے جانور کے ساتویں حصے سے زیادہ ہے توچھوٹاجانورافضل ہے، اور(اہل ایمان تاجروں کے ذریعہ بکنے والے) بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت چھوٹے جانور کی مجموعی قیمت سے زیادہ ہے تو بڑے جانور میں حصہ لینا افضل ہے۔ (3)
جانورکی فضلیت میں جانورکا عیوب سے پاک ہونا اورصحتمند ہونا بھی ضروری ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :
’’ چارقسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں : کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، مریض جس کا مرض واضح ہو اور اتنا کمزورجانور کہ اس میں گودا تک نہ ہو ۔‘‘نسائی برقم الحدیث4376(4)
موجودہ حالات میں مسلمان قربانی کے جانورخریدتے وقت غریب مسلم تاجروں کا خیال کرکے بڑے یا چھوٹے جانور کی خریداری کریں۔ کسی جانور کی کھال پر مبارک کلمات دیکھ کراس کی خریداری میں خوامخواہ عام قیمت سے زیادہ روپیہ نہ پھونکیں۔
اگر واقعی ان مبارک کلمات کی عظمت واحترام کی وجہ سے ایسے جانوروں کو زیادہ قیمت میں خریدناچاہتے ہیں، توایسے جانورپر روپیہ صرف کرنے کے بجائےاس روپیے کو سفید پوش غیرت مند علماء کی ضروریات پرخرچ کریں۔
عرب ومسلم ممالک کی بہ نسبت ہندوستان میں اسلامی رونق یہاں کے علماء کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہے، لیکن اس وقت کووڈ19کی وجہ سے ان کے گزراوقات کا جو مختصر سلسلہ تھا وہ تقریبا موقوف ہے، اس لیے اس اہم وقت میں مسلمان اثریاواغنیاء کی دینی وملی ذمہ داری ہے کہ ملک میں اسلام کی رونق باقی و جاری رکھنے کے لیے علماء کا بھرپور تعاون کریں۔علماء کی ضروریات پر روپیہ صرف کرنا توہمات میں مبتلا ہوکر جانوروں پراپنا روپیہ پھونکنے سے لاکھوں درجہ افضل وثواب کاباعث ہے۔
(1) قولہ والانثیٰ من المعز افضل مخالف کمافی الخانیۃ وغیرہا وقال ومشی ابن وہبان علیٰ ان الذکرفی الضان والمعزافضل لٰکنہ مقید بما اذاکان موجوءا ای مرضوض الانثیین ای مدقوقہاقال العلامۃ عبدالبرومفہومہ انہ اذالم یکن موجوء ا لایکون افضل”.(الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الاضحیۃ، فروع: ج6/ ص322، ط: دارالفکر، بیروت)
(2) الدر المختار
"الشاۃافضل من سبع البقرۃ اذا ستویافی القیمۃ واللحم والکبش افضل من النعجۃ اذ استویا فیہما والانثیٰ من المعز افضل من التیس اذا استویاقیمۃً والانثیٰ من الابل والبقر افضل حاوی وفی الوہبانیۃ ان الانثیٰمن المعز افضل من الذکر اذا ستویا قیمۃ”.(الدرالمختار مع رد المحتار: کتاب الاضحیۃ، فروع: ج6/ص 322، ط: دارالفکر، بیروت)
(3) وفی رد المحتار:
"قولہ افضل من سبع البقرۃ الخ وکذا من تمام البقرۃ قال فی التتارخانیۃ وفی العتابیۃ وکان الاستاذ یقول بان الشاۃ العظیمۃ السمینۃ التی تساوی البقرۃ قیمۃ ولحماً افضل من البقرۃ لان جمیع الشاۃ تقع فرضاً بلاخلاف واختلفوا فی البقرۃ قال بعض العلماء یقع سبعہا فرضاً والباقی تطوع ۱ھ قولہ اذا ستویا الخ فان کان سبع البقرۃ اکثرلحماً فہو افضل والا صل فی ہذا اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبہما لحماً افضل واذا اختلفا فیہما فالفاضل اولیٰ تتارخانیۃ ۔
(الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الاضحیۃ، فروع: ج6/ص 322، ط: دارالفکر، بیروت)
(4)عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ وَأَصَابِعِي أَقْصَرُ مِنْ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ يَقُولُ لَا يَجُوزُ مِنْ الضَّحَايَا الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي
(نسائی برقم الحدیث4376)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:
(مفتی)محمداشرف قاسمی،
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اُجین(ایم پی)
یکم ذی قعدہ 1442ء
مطابق12مئی2021ء
[email protected]
تصدیق:
مفتی محمدسلمان ناگوری

ناقل: محمد فیضان خان

Comments are closed.