اولاد و شوہر کے درمیان تقسیمِ میراث

کتبہ: مفتی محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہرمہدپور، ضلع: اُجین (ایم۔پی)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:سلیم بھائی کی اہلیہ کا انتقال ہوگیاچندماہ پہلے، سلیم بھائی کی تین لڑکیاں ہیں اورایک لڑکا ہے۔ اہلیہ نے وصیت کی تھی میرے سارے زیورات ایک ہی بیٹی کودے دی ۔ جائے سلیم ابھی حیات ہے۔ میراث کی تقسیم کس حساب سے ہوگی؟ جواب مطلوب ہیں۔
مولانااطیع اللہ قاسمی،
دھار(ایم پی)

الجواب حامدا ومصلیا ومسلماامابعد
بشرط صحت سوال مرحومہ خاتون کی جملہ متروکہ جائیداد، روپیہ اور زیور میں تمام ورثاء کوحصے ملیں گے۔ زیور کے بارے میں مرحومہ کی جو وصیت تھی،وہ شرعی اعتبار درست نہیں ہے، کیوں کہ ورثاء کے لیے اپنے متروکہ میں وصیت جائز نہیں ہے (1)
اورچوں کہ مرحومہ نے جس بیٹی کے لیے وصیت کی تھی، اس نے مرحومہ کی زندگی میں وصیت کردہ زیور پر قبضہ نہیں کیاتھا، اس لیے اب ماں کی موت کے بعد ان زیورات میں جملہ ورثاء شریک ہیں۔تنہا وہی بیٹی ان زیورات کی حقدار نہیں ہوگی۔(2)
مرحومہ کے زیورات اور دیگرمتروکہ کی تقسیم حسب ذیل ہوگی۔
بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث (قرض، جائز وصیت میں ایک تہائی متروکہ، تجہیز وتکفین)
بشمول زیورات مرحومہ کی جملہ متروکہ جائیداد کو 20حصوں میں تقسیم کریں گے۔شوہر کوربع یعنی 5حصے(3) اورلڑکیوں ولڑکے کے درمیان للذکرمثل حظ الانثیین کے مطابق ہر بیٹی کو تین تین حصے اور بیٹے کو 6حصے ملیں گے۔(4)
(1)قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ، فلاوصیۃ لوارث ۔ (رواه أحمد: 22294) وقال مخرجوه: إسناده حسن، وأبو داود 2870، والترمذي 2120، وقال: حسن، وابن ماجه 2713، ثلاثتهم في الوصايا، والبيهقي في الفرائض ج6ص212، وحسن الحافظ إسناده في التلخيص الحبير ج3ص202،عن أبي أمامة الباهلي۔
(2)عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر، (اعلاء السنن: ج16، ص71)
فی الدر المختار: وشرائط صحتھا فی الموھوب:ان یکون مقبوضا غیرمشاع.
وفی الردالمحتار: قولہ مشاع؛ ای فیمایقسم.(الردالمحتار: ج4/ص567)
ومن وھب شقصا مشاعا فالھبۃ فاسدۃ، لما ذکرنا، فان قسمہ وسلمہ جاز، لان تمامہ بالقبض وعندہ لاشیوع۔(ھدایۃ آخرین: ص288)
(3) فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ( النساء، آیت نمبر12)
(4)للذكر مثل حظ الأنثيين. (الآية 11سورة النساء)

فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:
*(مفتی)محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء:شہرمہدپور، ضلع: اُجین (ایم۔پی)

2ذی القعدہ 1442ء
مطابق 12جون2021ء
[email protected]

تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری

ناقل: محمد فیضان خان، مہدپور اجین۔

Comments are closed.