Baseerat Online News Portal

مشہور صاحب قلم حضرت مولانااسرارالحق صاحب قاسمی ؒ

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی

ہندوستان کے مشہور عالم دین،ممتاز قولی و ملی راہنما،حضرت مولانااسرارالحق قاسمی 7/دسمبر 2018بوقت تہجد روزانہ کی طرح جب وہ اپنے مالک حقیقی سے مناجات کرنے کے لئے بیدارہوئے تودل کا دورہ پڑنے پر وہ موت کے نرغے میں آگئے اوراس طرح آج ان کی روح بارگاہ الٰہی میں حشرتک کے لئے مناجات و عبادات میں مشغول ہوگئی۔خوب اور بہت ہی خوب و خوبصورت زندگی تھی آپ کی-جس طرح قادر مطلق نے آپ کو خوبئ زندگی کی نعمت عطاکی تھی ،ٹھیک اسی طرح قابل رشک موت سے بھی نوازا۔اگر یوں کہاجائے تو بالکل بجاہوگا کہ برسوں سے آپ نے اس مقبول گھڑی میں جو حاضری اورسجدہ ریزی کی عبادت تیار رکھی تھی وہ آج تک پردہ کے پیچھے سے تھی۔آج وہ پردہ ہٹادیاگیا اوربراہ راست آپ کو شرف باریابی اورشرف حضوری نصیب ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ملک و ملت کے مسائل کو لے کر بے حد فکر مند رہنے والے ایک بے داغ سیاست دان تھے۔لیکن اسی کے ساتھ آپ اعلیٰ درجہ کے صوفی،زاہد،اورشب بیدار اورخوف و خشیت کے حامل انسان بھی تھے۔تقویٰ و طہارت اورفکرآخرت کے آثار آپ کے چہرے بشرے سے ہویدارہتے۔انتھک محنت اورمسلسل مجاہدوں اورقوم و ملت کے لئے آپ کی غیرمعمولی فعالیت و حرکت نے آپ کو جہاں عوام و خواص میں مقبولیت عطافرمائی وہیں آپ کو آخرت کا طلبگار اورجنت کی راحتوں کا مشتاق بھی بنادیاتھا۔یہ در اصل ان کی صفائی باطن اورروح کی پاکیزگی کی علامت تھی۔ورنہ عا م طورپر جب آدمی مقبولیت اورشہرت کی منزل تک رسائی حاصل کرتاہے ،تو اکثر پنداروغرورمیں مبتلاہوجاتاہے اورپھر آخرت کے لحاظ سے وہ ناکام رہتاہے۔مولانامرحوم صحیح معنوں میں اپنے اسلاف کے سچے پیروتھے اورٹھیک انہیں کے نقش قدم پر ایک صاف و شفاف زندگی گذارتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے۔

اسلاف عظام کی مقبولیت میں چارچاند لگانے والی جو صفات رہی ہیں ان میں ممتاز صفت صفتِ تواضع ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ حضرات بہت کچھ ہو کر اوربہت کچھ کرکے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم کچھ نہیں ہیں اورہم نے کچھ نہیں کیا۔اسلاف کی اس روایت کو حرز جاں بناکر رکھنے والے مولانااسرارالحق قاسمی بھی بہت متواضع اور عاجزی و انکساری کا پیکر تھے۔اللہ نے ان کو مختلف خوبیوں سے نوازاتھا۔کئی بڑے عہدے اورمناصب ان کو حاصل تھے اس کے باوجود اعلیٰ درجہ کے خلیق،ملنسار،اورتواضع و عاجزی ان کی شناخت بن گئی تھی۔آپ ممبرپارلیمنٹ تھے۔2009ء سے 2018تک آپ ممبرپارلیمنٹ رہے لیکن اس کے باوجود کمال اخلاق اورعمدہ صفات اورمتواضعانہ انداز میں روز بروز اضافہ ہی ہوا آپ جس طرح رکن پارلیمنٹ بننے سے پہلے جلسوں میں حاضری دیتے اوراخباروں میں مضامین لکھتے اس عہدے کے بعد بھی یہ معمول جاری رہا،اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔کوئی بھی ملنے والا آپ کے پاس آتاتو آپ اس سے ضرور ملتے، اس کی بات توجہ سے سنتے، اورپوری بشاشت سے اس کا کام کرتے۔خندہ پیشانی اورمسنون مسکراہٹ کے ساتھ جس طرح آپ مناصب سے سرفراز ہونے سے پہلے ملتے بعد میں بھی یہ معمول اسی طرح رہا-

ہمدردی،معاونت دوسروں کے کام آنا۔اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینا،علم کے ساتھ عمل میں پختگی،للٰہیت اورخداترسی صاف گو اورسب سے بڑھ کر یہ کہ بے ضرراورمقصد آخرت کو ہمیشہ سامنے رکھتے۔وہ عالم ربانی اوراس کے علاوہ کئی اورعمدہ خوبیوں کے حامل اوراچھی صفات سے آراستہ انسان تھے-

15/فروری 1942ء کو آپ نے ضلع کشن گنج صوبہ بہار کے ایک دیہات میں آنکھیں کھولیں۔ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اور1964ء میں دارالعلوم دیوبند سے سندفراغت حاصل کی۔16مئی 1965ء میں آپ نے نکاح کیا۔دوبیٹے اورتین بیٹیاں آپ کی کل اولاد ہے۔آپ کی زوجہ ئ محترم جو ایک صالحہ اورپابند صوم و صلوٰۃ خاتون تھیں 9/جولائی 2012 میں آپ کو داغ ِ مفارقت دے گئی تھیں ۔

مولانااسرارالحق قاسمی رحمہ اللہ نے ایک طویل عرصہ تک جمعیۃ علماء ہند کی ایسی بے لوث خدمات انجام دیں ہیں کہ ہر ایک نے آپ کی ان عظیم خدمات کو سراہااورقدر کی نگاہوں سے دیکھا۔2009ء میں قوم و ملت کی فلاح اورملک وطن کی خدمت خاص طورپر اپنے پسماندہ علاقے سیمانچل کی ضروریات کی انجام دہی کے جذبے سے باقاعدہ سرگرم سیاست میں حصہ لیااورانڈین نیشنل گانگریس کے ٹکٹ پر کشن گنج کی نشست سے عام انتخابات میں حصہ لے کر، رکن پالیمان منتخب ہوئے۔2014ء میں بھی انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا اوربی جے پی کے امیدوار دلپ جیسوال کوہراکر اپنی نشست برقرار رکھی اورپورے صوبے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

مولانامرحوم کی خدمات کا سلسلہ کافی وسیع اورنوبنوع ہے۔آپ کی سرپرستی میں کئی مدارس،اسکول اورادارے قائم ہوئے۔جن کی کارگذاری کی سرگذشت امیدافزااورخوش آیندہے۔کشن گنج میں مسلم یونیورسٹی علیگڈھ کی شاخ کا قیام بھی آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔سیمانچل میں آئے سیلاب میں پریشان حال لوگوں کی انہوں نے زبردست خدمت کی۔سیلاب زدہ بستیوں اورخطوں کا دورہ کیا اورمتاثرین تک ہر ممکن مدد پہنچائی گئی۔اس کے علاوہ کشن گنج اوراطراف میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں آپ کا بہت بڑاکردار ہے۔آپ نے اس علاقے میں جہالت کو دور کرنے اورتعلیم کو فروغ دینے میں غیرمعمولی محنت سے کام کیا-

آل انڈیا تعلیمی و ملی فاونڈیشن کے زیر اہتمام ملی گرلز کالج جس میں فی الوقت 500/بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔آپ کی شاندار خدمت کا ایک شاہ کار عنوان ہے۔

مولاناموصوف ایک منجھے ہوئے صاحب قلم اورسلجھے ہوئے کالم نگار بھی تھے۔آپ نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایااوران کا حق اداکیا۔ہندوستان کے مختلف اخبارات و مجلات میں آپ کے مضامین پابندی سے شائع ہوتے تھے۔قلم وکتابت میں پختگی کے ساتھ خطابت میں بھی آپ ممتاز تھے۔ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے آپ کی تقریریں عوام و خواص دونوں طبقوں میں مقبول تھیں۔بڑے بڑے جلسوں اورسیمیناروں میں آپ کو بلایاجاتااوروہاں آپ کے بلیغ خطاب سے سامعین محظوظ ہوتے۔پارلیمنٹ اوردیگر سیاسی تقریبات میں بھی آپ کی تقریریں ہوتی تھیں جو اس لئے پسند کی جاتی تھیں ؛کیوں کہ آپ اکثر صاف گوئی و حق گوئی کے ساتھ مسائل کو سلجھانے پر زوردیتے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مولانامرحوم بہت ہی عظیم اورکامل انسان تھے،مروت اوربلند اخلاقی کے پیکر اوراکابر دیوبند کی یادگار تھے،اسی کے ساتھ تحمل اوربردباری نیز کریم النفسی و عدل ودرستگی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔چھوٹوں پر شفقت بڑوں کا اکرام،بزرگان دین اورعلماء اسلاف کا عقیدت مندانہ احترام،خوف خدااورکامل دینداری آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔یہ کہنابھی اپنی جگہ سوفیصد صحیح ہوگا کہ آپ ملت کے لئے ایک شجرسایہ دارکی حیثیت رکھتے تھے،جس کے سایہ سے آج پوری ملت محروم ہوگئی۔آپ کے بعد ہمارے لیے آپ کی علمی میراث،آپ کے خطبات و مضامین کا مجموعہ اورآپ کی بلند پایہ شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں جن کی روشنی میں ہمیں اپنا مستقبل کاسفر طے کرنا ہے۔

اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔آمین
9611021347

Comments are closed.