Baseerat Online News Portal

ناول:خاموش پرندہ

تحریر: حفضہ یوسف
تخلص: آیت چوہدری
شہر: سیالکوٹ

پرندوں کا چہچہانا تھا۔پھولوں کا مہکنا تھا۔ٹھنڈی ہواؤں کا چلنا تھا۔کبھی سوچا تم نے کہاں سماں تھا؟
اِس وقت کیا زمانہ تھا؟
کیا خوشی تھی؟
کیا دن تھے؟
کیا موسم تھے؟
کیا مزے تھے ؟کیا رونق تھی؟
ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ہرطرف بہار ہی بہار تھی۔
لیکن افسوس!
وقت کو بدلتے دیر تو نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔۔؟
یہ رونق کب سناٹے میں بدل گئی۔۔۔؟
یہ بہار کب خزاں میں تبدیل ہو گئی۔۔۔۔۔؟
یہ موسم،یہ خوشیاں،یہ زمانہ، یہ سماں کب کھو گیا۔۔۔۔؟
پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔

یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس کو اپنی خواہشات کبھی پوری نہیں کرنے دی گئی۔جس کو اپنے بارے میں جاننے کا وقت ہی نہ ملا۔جس کو خوشیاں کم اور غم زیادہ ملے۔بالکل پھولوں کی طرح جب اس لڑکی نے دنیا میں آنکھ کھولی تو اس نے اپنے سامنے دو ہی لوگوں کو پایا۔
ایک اسکی ماں اور دوسرا اُسکا باپ،وہ پہلے تو لاڑوں میں ہی پلی بڑھی۔اُسکوکبھی بھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی۔اور شاید اسے کبھی ہوتی بھی نہ۔اُسکی ہر ضرورت ہر خواہش کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُسکی ماں چیزیں لایا کرتی تھی۔وہ اپنے ماں باپ کی لاڈلی بیٹی تھی۔پھر اُسنے ایک دن اپنی ماں سے باہر کھانا کھانے کی فرمائش کی۔اُسکی ماں نے ہمیشہ کی طرح اُسکی بات مان لی اور وہ تینوں کھانا کھانے کے لیے باہر چلے گئے۔جب اُنہوں نے کھانا کھا لیااور واپس گھر آنے لگے۔تب ہی مسکان اپنی ماں (کرن)سے فرمائش کرنے لگی کہ اسے پارک بھی جانا ہے۔پھر وہ پارک چلے گئے۔رات کافی ہو گئی تھی۔واپس آتے وقت پھر کُچھ یوں ہوا کہ اُن لوگوں کی گاڑی کو کسی نے روکا۔نہ جانے وہ کون تھے؟کیوں اُن کے سامنے آ گئے؟لیکن اس وقت جو ہوا شاید نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اُنہوں نے کرن کو مار دیا اور ان کے سارے پیسے زیورات لے کر فرار ہو گئے۔مسکان کو اُسکی ماں ایک پری کی طرح لگتی تھی جو اُسکی ہے خواہش پوری کرتی تھیں۔لیکن اب وہ اِس دُنیا میں نہ رہیں۔اور اُسکا باپ (رستم) مسکان کو لے کر دوسرے شہر چلا گیا۔راستےمیں مسکان نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔تو اس کے باپ نے بتایا کے ہم ماما کے پاس جا رہے ہیں۔
مسکان ابھی صرف سات برس کی تھی۔وہ یہ سُن کر بہت خوش ہوئی کہ وہ اپنی ماں کے پاس جا رہی ہے۔ لیکن پھر وہ اچانک اُداس ہو کر اپنے باپ سے پوچھنے لگی کہ جو لوگ اللّہ تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں وہ تو واپس نہیں آتے تو کیا ہم اللّہ تعالیٰ کے پاس جا رہے ہیں یا پھر ہمارے ٹیچر نے جھوٹ کہا تھا؟
اس کے باپ نے اس سے کہا کہ اس کی ٹیچر نے جھوٹ نہیں کہا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں وہ کبھی واپس نہیں آتے یہ حقیقت ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ، ہم اللہ تعالیٰ پاس جا رہے ہیں
یہ سن کر مسکان کا باپ غصے میں بولنے لگا کہ چپ کرو۔۔۔۔۔۔۔کہا نہ ماما کے پاس جا رہے ہیں یہ سن کر مسکان چپ ہو گئی اور سوچنے لگی کہ پاپا نے تو مجھ سے کبھی غصے میں بات نہیں کی تو آج وہ مجھ سے اس طرح بات کیوں کر رہے ہیں اسے یاد تھا وہ دن جب اسکے ٹیسٹ میں گندے نمبر آئے تھے تواس کی ماں نے اس کو ڈانٹا تھا اور اسی دوران اس کا باپ گھر آ گیا تو اس نے اس کی ماں کو ڈانٹا کہ تم میری بیٹی کو کیوں ڈانٹ رہی ہو کیا ہوا اس بار نمبر کم آئے تو اگلی بار زیادہ لے لے گی
یہ سن کر مسکان اپنے باپ کی گود میں بیٹھ گئی اور اپنے پاپا سے کہنے لگی کہ پاپا آپ دنیا کے سب سے اچھے پاپا ہیں یہ سن کر اس کی ماں نے کہا اور میں ؟۔۔۔۔۔۔۔
مسکان بولی آپ بھی بہت اچھی ہیں سب سے اچھی ماما ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے باپ نے گاڑی روکی اور کہا کہ نیچے اترو گھر آ گیا ہے مسکان نے کہا کہ بابا جان ہم تو پہلے کبھی بھی ادھر نہیں آئے اس کے باپ نے کہا کہ اب ہم یہی رہیں گے
لیکن پاپا ہم ادھر کیوں رہیں گے؟ کیا ادھر میری ماما رہتی ہیں ؟
جی ہاں ادھر تمھاری ماما رہتی ہیں یہ کہتے ہوئے رستم نے گھر کی گھنٹی بجائ اور تھوری دیر بعد دروازہ بھی کھل گیا دروازہ کھلتے ہی ایک لڑکے (حمزہ)نے سلام کہا اور بولا بابا جان اندر آ جائیے۔
یہ سن کر مسکان بولی یہ میرے پاپا ہیں آپ کے نہیں ۔

مسکان کا یہ کہنا ہی تھا کہ حمزہ حیران ہو گیا اور اوپر چھت پر چلا گیا۔رستم نے مسکان کو ڈانٹا کہ تم خاموش نہیں رہ سکتی تھی پھر دونوں اندر چلے گئے جب باپ بیٹی دونوں چھت پہ گے تو مسکان یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ اس کے باپ نے ایک اور شادی کی ہوئی ہے۔
اس کے باپ نے اس کی ماں کی ماں (کرن) سے دوسری شادی کی ہوئی تھی جس کا علم کسی کو بھی نہ تھا۔
کرن اور رستم نے بھاگ کر شادی کی تھی۔رستم کی ایک بیٹی جو مسکان کی ہم عمر تھی. اور دو بیٹے تھے ایک حمزہ جو سولہ سال کا تھا اور ایک عمر جو دس سال کا تھا۔اس کی بیٹی عائزہ بہت چالاک تھی۔رستم کی بیوی سائرہ نے رستم سے پوچھا یہ لڑکی کون ہے؟
پہلے تو رستم چپ رہا پھر دو سے تین بار پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ مسکان ہے اور یہ میری بیٹی ہے اور یہ ہمارے ساتھ رہے گی۔یہ سن کر سائرہ نے رونا شروع کر دیا اور مسکان کو باتیں سنانا شروع کر دی اور ساتھ ہی کرن کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔یہ سن کر مسکان کو لگا کے اس کا باپ اس کی سوتیلی ماں کو کچھ کہے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور رستم کمرے میں چلا گیا۔
کچھ دنوں تک گھر میں یہی صورتحال رہی اور پھر گھر کا ماحول کچھ بہتر ہوا سائرہ نے کہا کہ اگر یہ لڑکی اس گھر میں رہے گی تو وہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے ہاں چلی جائے گی۔یہ سن کر رستم پریشان ہوگیا اور سائرہ کو سمجھانے لگا کہ یہ معصوم بچی کو میں کہاں بھیجوں۔

لیکن سائرہ ماننے کا نام ہی نہ لے کچھ دن بعد سائرہ مان گی ۔لیکن اس کا رویہ مسکان کے ساتھ ٹھیک نہ تھا ۔وہ بات بات پر مسکان کو ڈانٹتی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ بچوں کو کھانا دیتی مگر مسکان کو نہ دیتی۔ جب بھی مسکان کھانا مانگتی تو اس کو کھانا دینے کی بجائے یہ کہتی خود بناؤ اور کھاؤ۔ مسکان نے تو آٹھ سال کی عمر میں ہی گھر کے کام سیکھ لیا ہے ۔لیکن عائزہ کو کوئی کام بھی نہیں آتا تھا۔مسکان پڑھائی میں بھی بہت لائق تھیں ۔ہمیشہ اس کی پڑھائی میں بھی نمبر عائزہ سے زیادہ آتے تھے۔
دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھی۔ جب سائرہ نے یہ دیکھا کہ اس کی بیٹی کے مقابلے میں مسکان کے نمبر زیادہ آتے ہیں تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ وہ مسکان کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
مسکان اگر سائرہ کو ماما کہتی تھی تو سائرہ اسے مارتی کے میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔وہ میرے جیسی پاک دامن نہیں تھی۔ وہ گھر سے بھاگی ہوئی عورت تھی۔ اب وہ مر چکی ہے ۔خبردار اگر تم نے مجھے آئندہ ماں کہا ، میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔اکثر مسکان نے اسی بات پر مار کھائی ۔لیکن ابھی مسکان نادان تھی۔ جب اس کے سامنے ماں کا لفظ استعمال کرتے تو اس کا بھی دل کرتا کہ وہ کسی کو ماں کہے۔
لیکن مسکان کے دل کی حالت کسی کو کیا پتا، شاید کوئی پتا بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس میں معصوم مسکان کا کیا قصور ہے، اگر اس کی ماں اس دنیا سے چلی گئی تو۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں اس میں اس مسکان کا کیا عمل دخل ۔ وہ تو معصوم بچی ہے۔اس کو کون سمجھائے کہ یہ دنیا کتنی مطلب پرست ہے۔

جب سائرہ نے مسکان کو پڑھائی میں آگے بڑھتے دیکھا تو سائرہ نے اس بات کی ضد لگائی کہ مسکان کو اس اسکول سے ہٹا کر پاس ہی گورنمنٹ اسکول میں داخل کروایا جائے۔
لیکن مسکان کا باپ اس بات پر راضی نہ ہوا کہ میری تینوں بچے اچھے اسکول میں جائیں اور میں اپنی مسکان کو کسی گورنمنٹ اسکول میں داخل کرواؤں۔
اور پھر اس سے ہمارا رشتہ دار اور محلے والے کیا سوچیں گے۔
جب بھی کوئی رشتےدار ان کے گھر آتا تو سائرہ، مسکان اور اس کی ماں کی مہمانوں کے سامنے برائیاں کرنے لگ جاتی تھی۔جس سے مسکان کو غصہ آتا تھا مگر کیا فائدہ وہ کرتی بھی تو کیا کرتی۔ اس کی ماں دنیا میں نہیں تھی۔ اس کا باپ اس سے پہلے جیسا پیار نہیں کرتا تھا ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسکان اور اس کے باپ میں دوریاں پیدا ہوگئیں۔
اور چند ہی سالوں میں رستم مسکان سے نفرت کرنے لگا۔ اس کے بارے میں یہ رائے رکھنے لگا کہ یہ بھی اپنی ماں کی طرح گھر سے بھاگ جائے گی ۔اس کی شکل و صورت
بالکل اس کی ماں جیسی تھی اور عادتیں بھی۔
مسکان جب بڑی ہوئی تو وہ بالکل اپنی ماں جیسی لگتی تھی۔ وہی آنکھیں ،وہی چہرہ ،بالکل اپنی ماں کی طرح وہ خوبصورت بھی اپنی ماں جیسی تھی۔
جب مسکان نے میٹرک کا امتحان دیا تو اس کی سوتیلی ماں سائرہ نے کہنا شروع کر دیا کہ اب اس کی شادی کر دینی چاہیے۔لیکن مسکان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ وہ بہت محنتی تھی اور دل لگا کر پڑھائی کرتی تھی۔

سائرہ نے یہ بات رستم سے کی تو رستم نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن اب مسکان خاموش نہ رہی۔ ایک دن اسی سلسلے میں بات ہورہی تھی کہ مسکان نے اپنے باپ سے کہا کہ میں نے شادی نہیں کرنی مجھے ابھی آگے پڑھنا ہے۔
مسکان کی یہ بات سن کر سائرہ بولی کہ میں نے کہا تھا کہ یہ ایک نہ ایک دن اپنی اصلیت ضرور دکھائے گی آج اس نے یہ کام کر ہی دیا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ اس کی شادی جلد از جلد کر دو۔ ورنہ یہ بھی اپنی ماں کی طرح گھر سے بھاگ جائے گی۔آخرکار خون کس کا ہے۔ یہ سن کر مسکان بولی میری ماں گھر سے بھاگی نہیں تھی، پاپا انہیں گھر سے بھگا کر لے گئے تھے ۔اس میں صرف میری ماں کا ہی نہیں بلکہ میرے باپ کا بھی قصور تھا۔
یہ کہنا ہی تھا کہ رستم نے مسکان کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور کہنے لگا کہ سائرہ تم ٹھیک کہتی ہو اس کی جتنی جلدی ہو سکے شادی کر دینی چاہیے۔

اس کے بعد مسکان اپنے کمرے میں چلی گئی. اچانک فون کی گھنٹی بجی سائرہ نے فون اٹھایا اور کال سنی اور کہنے لگی کہ باجی شمع کل گھر آ رہی ہیں اور وہ کہہ رہی تھی کہ وہ کچھ دن یہاں رکیں گئی۔
صبح کو رستم نے مسکان سے کہا کہ باجی شمع (عائزہ کی خالہ) آرہی ہیں .اس لیے تم اپنا کمرہ فارغ کر دو .یہ سن کر مسکان بولی کہ پاپا میں اپنا کمرہ خالی کر کے خود کدھر جاؤں گی۔رستم نے جواب دیا تم آج سے چھت پر اسٹور روم میں رہو گی ۔مسکان نے انکار کرنا چاہا لیکن سائرہ نے معمول کے مطابق مسکان کو پھر غلط ثابت کرنا شروع کر دیا۔ جس پر مسکان کو بہت غصّہ آیا اور وہ اپنا کمرہ خالی کر کے اسٹور روم میں چلی گئی۔

اسٹور روم چھت پہ تھا ۔اور گرمیوں کا موسم تھا۔ وہ کمرہ بہت گرم تھا۔جس کی وجہ سے مسکان نیچے آجاتی تھی۔ لیکن سائرہ کو یہ بات بھی ہضم نہ ہوتی وہ اس بات پر بھی مسکان کو ڈاٹنا شروع کر دیتی تھی کہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی لیکن تم ہمیشہ میرے سامنے آجاتی ہو۔نہ جانے مجھے کون سے گناہ کی سزا مل رہی ہے۔
لیکن سزا تو اصل میں مسکان کو مل رہی تھی ۔لیکن سچ میں مسکان کی کیا غلطی تھی۔ جس کو اتنی بڑی سزا مل رہی تھی ۔کیا اس نے کہا تھا کہ اس کو دنیا میں لایا جائے ۔لیکن سب لوگ تو صرف مسکان کو ہی کوستے اس میں اس کی کیا غلطی تھی۔
اس وجہ سے مسکان نے چھت پہ ہی رہنا شروع کر دیا تھا۔ خالہ تو اپنے گھر واپس چلی گئیں لیکن مسکان اپنے کمرے میں واپس نہ آ سکی۔ وہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہی جیسے چھت پہ رہ گئی۔ مسکان کا میٹرک کا رزلٹ آنے کے بعد سائرہ نے کالج داخلہ لینے پر بہت شروع کیا۔ لیکن رستم نے مسکان کا داخلہ گورنمنٹ کالج میں کروا دیا۔
مسکان جب کالج جاتی تھی وہ اپنے کمرے کی صفائی، چھت کی صفائی، اور اپنے لئے کھانا بنا کر جاتی تھی۔ لیکن عائزہ سوتیلی بہن کچھ نہ کرتی تھی۔ ایک دن مسکان کو کالج سے آ نے میں دیر ہو گئی تھی۔
سائرہ نے رستم کو الٹا سیدھا بھڑکایا ۔جب مسکان گھر آئی تو رستم نے مسکان سے پوچھا کہ تمہیں کالج سے آنے میں اتنی دیر کیوں ہو گئی۔
مسکان نے کہا کہ آج ہماری کالج میں ایکسٹرا کلاسیز تھیں۔ اس لیے مجھے گھر آنے میں دیر ہو گئی۔ یہ کہہ کر مسکان اپنے کمرے میں چلی گئی۔ لیکن کیا مسکان کے کمرے میں چلے جانے سے یہ بات ختم ہو گئی۔

نہیں ! معمول کے مطابق سائرہ نے رستم کو پھر بھڑکانہ شروع کر دیا۔لیکن رستم نے کچھ نہ کہا۔ ایک دن مسکان نے اپنے باپ سے کہا کہ مجھے کالج ٹرپ پہ جانے کی اجازت دے دیں۔

رستم نے مسکان کو انکار نہ کیا اور اس کو جانے کی اجازت دے دی ۔مسکان” ہاں” میں جواب سن کر بہت خوش ہوئی اور ساتھ حیران بھی بہت ہوئی کہ آج مجھے پاپا نے اجازت کیسے دے دی۔ میں تو پوچھنے سے بھی ڈر رہی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ پاپا مجھے کبھی بھی "ہاں” نہیں کہیں گے۔
لیکن آج یہ معجزہ کیسے ہو گیا۔تھوڑی دیر مسکان سوچتی رہی اور پھر اس نے مسکرانا شروع کر دیا.اور بولی دراصل پاپا اکیلے تھے آج ان کے ساتھ آنٹی سائرہ جو نہیں تھی۔ اس کا مطلب اگر مجھے کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے اس وقت پاپا سے کہنا چاہیے جب وہ اکیلے ھوں تو ممکن ہے کہ مجھے "ہاں” میں ہی جواب ملے۔
۔مسکان نے کالج ٹرپ پر جانے کی تیاری کر لی اور صبح سویرے گھر سے روانہ ہو گئ۔ لیکن واپسی کا ٹائم جو مسکان نے اپنے باپ کو بتایا تھا۔وہ اس وقت پر نہ آئی ۔رستم نے بہت دیر تک انتظار کیا۔اور اس کے بعدرستم نے مسکان کو کال کرنا شروع دی۔لیکن مسکان کا نمبر سگنل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھا اور رابطہ نا ممکن تھا۔جب مسکان گھر آئی تو اس کے باپ کو بہت غصّہ تھا۔
کیونکہ اس نے جو وقت بتایا تھا مسکان اس کے مطابق پورے آٹھ گھنٹے لیٹ تھی۔ مسکان کے آنے سے پہلے سائرہ اپنا کام کر چکی تھی کہ مسکان کو اب ہم اپنے گھر میں نہیں رکھیں گے۔

اس کی ماں بھی گھر سے بھاگی ہوئی تھی اور مسکان بھی وہ خون ہے ۔وہ بھی آج گھر سے بھاگ گئی ہو گی یقیناً۔ میں اسے اب اپنے گھر میں نہیں رکھوں گی۔
میں اپنے بچوں کو خراب نہیں ہونے دوں گی۔ رستم کو بھی مسکان پر بہت غصّہ آرہا تھا ۔ جب مسکان گھر واپس آئی تو رستم نے غصّے سے مسکان سے پوچھا کہ تم لیٹ کیوں آئی ہو۔مسکان اس سے پہلے کچھ کہتی کہ سائرہ نے گرم لوہے پہ ہتھوڑا مار دیا اور پھر سے یہ ہی کہنا شروع کر دیا کہ اس کی ماں بھی گھر سے بھاگی تھی وغیرہ وغیرہ۔
رستم نے مسکان کا کالج جانا بند کر دیا۔ اور پھر ایک دو دن بعد مسکان سے کہنے لگا کہ میں تمہاری شادی کر کے لوگوں کے سامنے ذلیل نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے میں تمہیں تمہارے نانا کے گھر چھوڑ آؤں گا۔
مسکان نے نانا کا گھر دیکھنا تو دور کی بات کبھی کسی کے منہ سے ان کا ذکر تک نہ سنا تھا۔ اب وہ کرے تو کیا کرے۔ مسکان نے اپنے باپ سے معافی بھی مانگی لیکن وہ نہ مانا ۔اور اس کے گھر دیر سے آنے کی وجہ بھی نہ سنا چاہی۔ اور اسے اس کے نانا کے گھر چھوڑ آئے۔
نانا کے گھر کے سامنے مسکان تقریباً پندرہ منٹ تک کھڑی رہی۔ پھر اس نے دروازے پہ دستک دی۔ تقریباً آٹھ سال کا بچہ باہر آیا اس نے دروازہ کھولا۔ مسکان کچھ بولے بغیر اندر داخل ہو گئی اور صرف مسکان کو اس بات کی پریشانی تھی کہ اگر ان لوگوں نے مسکان کو گھر میں نہ رکھا تو وہ کہاں جائے گی۔
جب مسکان ہال میں گی تو سب لوگ مسکان کی طرف دیکھنے لگے ۔ سب کی نظریں مسکان پہ تھیں۔مسکان اور بھی زیادہ پریشان ہوگی کہ اب وہ کیا کرے۔ مسکان کو ہر کوئی حیرانگی کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
مسکان کی ممانی نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟
مسکان نے ابھی تک اپنے لب نہ کھولے تھے کہ پھر مسکان کی نانی نے بھی یہ ہی سوال دہرایا۔
مسکان بہت پریشان ہو گی کہ اگر میں نے سچ کہہ دیا تو کیا پتا یہ لوگ مجھے اپنے گھر میں پناہ نہ دی، اور اگر ان لوگوں نے مجھے گھر میں پناہ نہ دی تو میں کدھر جاؤں گی۔میرا کیا بنے گا میرے پاس تو سر چھپانے کے لیے چھت بھی نہیں۔مسکان یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ مسکان سے پھر یہی سوال کیا گیا.

مسکان نے آہستہ آواز میں کہا کہ میرا نام مسکان ہے ۔ اتنا ہی کہنا تھا کہ مسکان کے ماموں (شوکت) اور نہ نانا جی ادھر آ گیے۔
شوکت نے آ کر مسکان کے بارے میں پوچھا تو گھر والوں نے کہا کہ ہم اسے نہیں جانتے یہ کون ہے۔
نانا جی نے مسکان سے پوچھا” تم کس کی بیٹی ہوں؟ اور ادھر کیوں آئی ہو؟ کون تمہیں یہاں تک لایا؟”
مسکان بہت ڈر گئی کیونکہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتے تھی۔ پھر مسکان نے کہا کہ میں رستم کی بیٹی ہوں۔ ممانی بولی” کون رستم؟ ہم کسی بھی رستم کو نہیں جانتے.”
مسکان بولی میں اس گھر کی نواسی ہوں سب نے مسکان کو حیرانی سے دیکھا پھر نانی جان نے مسکان سے پوچھا کہ تم کرن کی بیٹی ہو؟
مسکان نے یہ سن کر سکھ کا سانس لیا کہ شکر ہے ان لوگوں کو میری اصلیت کا تو پتہ چلا۔ مسکان نے جواب دیا "جی ہاں”میں کرن کی بیٹی ہوں۔ تو ماموں نے مسکان سے غصے میں پوچھا تو ادھر کیا کرنے آئی ہوں؟ ابھی اتنا ہی کہنا تھا کہ نانا جی اندر سے بندوق لے آئے اور مسکان پر تان دی۔ مسکان بہت ڈر گئی اور رونے لگ گئی تو سب نے مل کر بندوق کو نانا جی کے ہاتھ سے چھین لیا اور اندر رکھ آئے۔

نانی جان بولیں اسکو کیا کہہ رہے ہو ماموں بھی بولے بالکل اسکو کیا کہہ رہے ہیں اسکو گھر سے باہر نکالو۔یہ سننا ہی تھا کہ مسکان کی آنکھوں میں آنسُو آ گئے۔پھر وہ زور زور سے رونے لگی اور ان سب کے آگے ہاتھ جوڑنے لگی کہ مجھے یہاں سے نہ نکالو میں کہاں جاؤں گی۔میرے پاس سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ہے۔پاپا نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے خُدا کے لئے مجھے یہاں رہنے کی جگہ دے دیں میں ویسا ہی کروں گی جیسا آپ لوگ کہیں گے۔لیکن نانا جی پھر بھی کہنے لگے کہ تم یہاں سے نکل جاؤ.جدھر مرضی جاؤ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ہم تمہیں نہیں جانتے لیکن مسکان اُن کے پاؤں میں گرِ پڑی اور کہنے لگی خُدا کے لیے مجھے اپنے گھر میں تھوڑی سی جگہ دے دیں۔
میں آپکی ہر بات مانو گی ۔لیکن کیا مسکان کے یہ کہنے سے اسے گھر میں رکھ لیا جاتا؟شاید نہیں!اگر اتفاقاً اسی وقت مسکان کی خالہ (ادیبہ) نہ آ جاتیں تو ایسا ہر گز ممکن نہیں تھا۔
جب مسکان کی خالہ نے مسکان کو دیکھا تو انہوں نے مسکان کو پہچان لیا کیونکہ وہ مسکان لوگوں کے بارے میں سب جانتی تھیں اور کرن کے ساتھ ادیبا کی بات بھی ہوئی تھی۔ لیکن اديبا یہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ اتنے سالوں تک کرن امی ابو لوگوں سے ملنے تک نہیں آئی لیکن آج اچانک۔
یہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی کہ ادیبہ مسکان کو جانتی ہے لیکن ادیبہ نے اس بات کا علم کسی کو بھی نہ ہونے دیا اور پھر پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

نانی جان بولیں یہ کم بخت کرن کی بیٹی ہے پتہ نہیں اپنا نام مسکان بتاتی ہے۔ادیبہ بولی امی جان اگر یہ کرن کی بیٹی ہوتی تو اس کے ساتھ کرن بھی ہوتی۔وہ کدھر ہے؟ کیا یہ اکیلی آئی ہے ۔اور اگر یہ اکیلی ہے آئی ہے تو کیوں آئی ہے کیا کرن نے اسکو اکیلے آنے دیا۔
نانا جان قہقے میں بولے ہمیں ان باتوں سے کیا مطلب(مسکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)اور تم اِس گھر سے چلی جاؤ تمہارے لیئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔کیا تمہارے باپ نے صرف تمھیں نکالا ہے؟تمہاری ماں کو نہیں؟وہ کدھر ہے؟
مسکان کھڑی وہ سب سنتی ہی جا رھی تھی اور شاید وہ صرف سب کچھ سن ہی نہیں رہی تھی بلکہ برداشت بھی کر رہی تھی۔صبر اور برداشت کرنے کے علاوہ اس کے پاس رہ ہی کیا گیا تھا۔وہ دل ہی دل میں اپنے باپ کو کوسنے لگی جو اسکو یہاں چھوڑ گیا تھا اور سوچنے لگی کہ اس کے جیسا باپ کسی کو نہ ملے اس نے اپنی بیٹی کی زندگی ہی تباہ کردی۔
لیکن پھر بھی مسکان نے ہمت کر کے کہا کہ آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اگر میرے باپ نے مجھے گھر سے نکلا ہے تو میری ماں کو کیوں نہیں۔میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میرے باپ نے میری ماں کو گھر سے ہی نہیں نکلا اپنے دل و دماغ سے بھی نکال دیا ہے۔ممانی بولیں اے لڑکی ہمیں اپنی باتوں میں مت گھماؤ۔مسکان بولی میں آپکو باتوں میں کیا گھماؤ گی میں تو خود اس دنیا میں گھوم چکی ہوں۔
ادیبہ مسکان سے بڑے پیار سے بولی اور مسکان کے پاس جا کر کہنے لگی کہ بیٹا جو بھی بات ہے ہمیں بتاؤ ہم تمہاری مشکل حل کریں گے۔مسکان نے سکھ کا سانس لیا کہ کوئی تو اسے سمجھے گا۔

مسکان بولی آج سے تقریباً دس سال پہلے ماما کا اِنتقال ہوگیا تھا اور پاپا مجھے وہاں سے لے کر شہر لے آئے تھے وہاں آ کر مجھے پتہ چلا کہ پاپا نے ماما ساتھ دوسری شادی کی تھی اور اس کے بعد پاپا کا رویہ مجھ سے ٹھیک نہ رہا۔
مسکان نے سب کچھ بتا دیا جو اس کے ساتھ دس سال میں ہوا تھا جب سب کچھ مسکان کے ننھیال والوں کو پتہ چلا تو نانا جی بولے جو لوگ دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں اُن کے ساتھ خود بھی دھوکہ ہی ہوتا ہے۔
مسکان بہت رو رہی تھی نانی جان نے مسکان کو اپنے پاس بلایا اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ اب تم ہمارے پاس ہی رہو گی۔ادیبہ نے بھی کہا کہ ہاں اب تم ادھر ہی رہو گی۔لیکن باقی سب لوگوں کو اس پر اعتراض تھا۔لیکن ادیبہ نے کہا کہ اگر آپ مسکان کو اِدھر نہیں رکھیں گے تو آج کے بعد میں نہیں آؤں گی۔
یہ کہنا تھا کہ نانا جان غصّہ میں باہر چلے گئے اور ساتھ ہی ساتھ ماموں بھی چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد گھر کا ماحول بہتر ہوا۔مسکان کی نانی بہت خوش تھیں کہ اُن کے ساتھ مسکان اسی گھر میں رہے گی۔
نانی جان نے مسکان سے کرن کے بارے میں پوچھا اور اس کے باپ کے بارے میں بھی مسکان نے ماما کے بارے میں بتایا اور پاپا کے بارے میں کہا ہم بعد میں بات کریں گے۔میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔
ادیبہ نے کہا ٹھیک ہے تم آرام کرلو۔
مسکان کمرے میں جا کر سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔اتنے میں ادبیا بھی ادھر آ گی اور مسکان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا کہ تمہیں نیند نہیں آ رہی کرن کو بھی کسی کے گھر نیند نہیں آتی تھی اور کہا کہ اب یہ تمہارا ہی گھر ہے۔کیونکہ اب تم یہاں ہی رہوگی۔ کہیں نہیں جاؤ گی۔
یہ سن کر مسکان کو اطمینان ہوا اور وہ اپنی خالہ کی گود میں سر رکھ کر سو گئی۔جب مسکان کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کیا اور پھر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئ۔
جب نانی جان نے مسکان کو دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا لیا۔اور کہنے لگی کہ تم ادھر بیٹھ جاؤ اور یہ بتاؤ کہ کیا کھاؤ گی۔مسکان نے کہا کہ مجھے بہت بھوک لگی ہوئی ہے آپ جو چاہیں کھلا دیں۔میں سب کچھ خوش ہو کر کھا لیتی ہوں۔
نانی جان یہ سن کر بہت خوش ہوئیں کیونکہ کرن کی عادتیں مسکان سے ملتی تھی۔ بیٹا تم بلکل اپنی ماں پر گی ہو۔وہ بھی سب کچھ خوشی سے کھا لیتی تھی۔ابھی یہ کہنا یی تھا کہ آواز آئی کہ وہ کرن ہی تھی جو گھر کی عزت پامال کر کے گی تھی۔اگر اس کی عادتیں ویسی ہی ہیں تو یقیناً یہ بھی ایسا ہی کرے گی۔ یہ سن کر مسکان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ رونے لگی۔خالہ بولیں ضروری نہیں کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر ہوں۔
کچھ دیر بعد مسکان نے کھانا کھا لیا تو نانی نے کہا بیٹا پیٹ بھر کے کھانا۔مسکان نے جواب دیا کہ امی جان میرا پیٹ بھر گیا ہے۔ امی جان سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور وہ پھر مسکان سے پیار کرنے لگیں۔ وقت گزرتا گیا۔حالات تبدیل۔ ہوتے رہے۔بہار خزاں میں اور گرمی سردی میں بدلتی رہی۔
اب مسکان کی زندگی بھی بدل چکی تھی۔اس کی زندگی میں بھی نیۓ موڑ آ چکے تھے۔ خوشیوں کے پل بھی اسے نصیب ہو چکے تھے۔اور وہ اب اپنی زندگی میں بہت خوش تھی۔
اللہ کا شکر ہے کہ مسکان اپنی زندگی میں واپس آچکی تھی۔ اُس نے امی جان سے کہہ کر پھر سے کالج جانا شروع کر دیا تھا اور اب وہ یونیورسٹی جایا کرتی تھی۔ ماموں کا ایک بیٹا جس کا نام تیمور تھا۔ وہ اور مسکان دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ شروع شروع میں تو یہ دونوں آپس میں بہت جھگڑتے تھے۔
لیکن ان دونوں کی لڑاٸ کب محبت میں بدل گٸ کسی کو بھی اس بات کا علم نہ تھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کو ابھی تک پرپوز نہیں کیا تھا۔
مسکان چاہتی تھی کہ تیمور اس کو پرپوز کرے لیکن تیمور چاہتا تھا کہ مسکان اسکو پرپوز کرے۔ بس اسی بات میں دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے کو پرپوز نہیں کیا تھا۔
لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کی خواہشات کو مدنظر رکھتے تھے۔ مسکان ہر اتوار کو تیمور کے لیے اسکے پسند کے کھانے بناتی تھی اور جب بھی مسکان کا موڈ خراب ہوتا تیمور اس کے لیے گول گپے لاتا تھا۔ کیونکہ مسکان کو گول گپے بہت پسند تھے۔ گول گپے دیکھتے ہی اس کا موڈ ٹھیک ہو جاتا تھا۔ اور پھر دونوں چھت پہ بیٹھ کے گول گپے کھایا کرتے تھے۔
مسکان وین پر یونیورسٹی جایا کرتی تھی لیکن جس دن تیمور اس سے ناراض ہوتا وہ جان بوجھ کر دیر سے تیار ہوتی تھی اور جب وین والا اُسے چھوڑ کے چلا جاتا تو وہ تیمور کے ساتھ جاتی تھی۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ تیمور نے مسکان سےکہا کہ میری پاڑٹی آ رہی ہے اس میں تم میرے ساتھ جاٶ گی۔ میں ماما پاپا سے اجازات لے لوں گا لیکن مسکان نے کہا کے میں نہیں جاٶں گی کیونکہ میرے امتحان نزدیک آرہے ہیں۔
تیمور کو بہت غصّہ آیا کہ میں جب بھی اسے باہر جانے کو کہتا ہوں تو کوٸ نہ کوٸ بہانا کر لیتی ہے۔
اس بات پر دونوں کی لڑاٸ ہو گٸ اور تیمور اور مسکان نے آپس میں تقریباً ایک ہفتے تک کوٸ بات نہ کی۔ اس سے پہلے ایسا بلکل نہ ہوا تھا۔ اگر دونوں ایک دوسرے سے ناراض بھی ہوتے تو زیادہ سے زیادہ دو دن تک اس سے زیادہ تو کبھی بھی نہیں۔
لیکن اس دفعہ ایک ہفتہ ہونے کو تھالیکن دونوں میں ابھی تک صلح نہ ہوٸ۔ معمول کے مطابق مسکان نے تیمور کے پسند کے کھانے اتوار کو بناۓ لیکن تیمور نے یہ کہہ کے سب کو حیران کر دیا کہ اب مجھے یہ سب کچھ نہیں کھانا کیونکہ اب میری پسند بدل گٸ ہے۔
سب بہت حیران ہوۓ کہ تیمور تو ان سب کھانوں کا شیداٸ تھا لیکن اب اسے کیا ہوا۔ سب نے حیرانگی سے پوچھا کہ کیوں؟
تو تیمور نے شرماتے ہوۓ کہا کے میں جسے پسند کرتا ہوں اُسے یہ سب کچھ بنانا نہیں آتا اور میں اُسے کسی بھی مشکل میں نہیں دیکھ سکتا اس لۓ میں نے اپنی پسند ہی بدل دی ہے۔
یہ سن کر سب بہت حیران ہوۓ اور مسکان بھی کہ تیمور تو اسے پسند کرتا ہے اور وہ میرے بارے میں کیوں ایسا کہہ رہا تھا۔ ابھی کسی نے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ کون ہے لیکن مسکان نے یہ سوال کر دیا اورکہنے لگی کہ اچھا تو پھر ہمیں بھی بتاٶ کہوہ کون ہے جس کے بارے میں تم ہمیں بتا رہے ہو۔ جو اتنی نازک ہے کہ کھانا بھی نہیں بنا سکتی ۔
تیمور بولا کہ ماما جان آپ نے چولہے پر کچھ رکھا ہے؟ مجھے تو کچھ جلنے کی بو آرہی ہے۔ ممانی جان بہت حیرانی سے بولی نہیں بیٹا میں نے تو کچھ بھی نہیں رکھا ہوا لیکن تیمور بولا کہ مجھے تو بہت بو آرہی ہے۔ مسکان بولی جی ہاں! میں نے چولہے پر دودھ رکھا ہے۔ ابھی دیکھتی ہوں۔ یہ کہ کر مسکان کچن میں چلی گٸ۔
اور بعد میں تیمور بھی ادھر آ گیا اور کہنے لگا کہ ادھر تو کوئی دودھ نہیں۔ مسکان کو بہت غصّہ تھا بولی ادھر تو میں نے دودھ نہیں بلکہ تمہاری محبوبہ کو رکھا ہے۔ مسکان نے چاقو پکڑ کر تیمور کی طرف کیا اور کہا اب بتاؤ کون ہے وہ؟
جس کے بارے میں بات کر رہے تھے اتنا کہنا تھا کہ ممانی کچن میں آ گئی اور کہنے لگی کہ مسکان یہ کیا کر رہی ہو۔ مسکان ڈر گئی لیکن تیمور بولا یہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا کھاؤ گے لیکن میں نے کہا کہ میں باہر سے کھانا کھاؤں گا۔ اس لیے مجھے ڈرا رہی تھی کہ اگر تم باہر سے کھانا کھاؤ گے تو میں امی جان کو بتا دوں گی۔ بس اتنا ہی آپ پریشان مت ہوں۔ یہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔ ماما جان آپ اطمینان رکھیے،یہ مجھے قتل نہیں کرے گی۔ تیمور نے یہ کہا اور مسکان کو آ نکھ مار کر باہر چلا گیا۔
تیمور کے جانے کے بعد ممانی جان نے مسکان سے کہا کہ تم اپنا کام کرو اور تیمور سے دور ہی رہا کرو اور پھر باہر چلی گئیں۔ دراصل ممانی جان مسکان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتی تھیں اور وہ مسکان کو تیمور کے پاس بھی بہت کم آنے دیتی۔

ایک دن جب مسکان چھت پر کپڑے ڈالنے آئی تو تیمور پہلے سے ہی موجود تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ مسکان چھت پہ آ رہی ہے۔ تو اس نے فون کان سے لگا کر باتیں کرنا شروع کر دیں۔ مسکان کو یہ سب باتیں سن کر بہت غصّہ آیا اور اس نے بالٹی میں موجود سارا پانی تیمور پہ پھک دیا اور منہ بنا کر نیچے چلی گئی۔
تیمور یہ سب کچھ اس لیے کر رہا تھا کہ وہ مسکان کی اس بات پہ ناراض تھا کہ اس نے اس کے ساتھ پارٹی میں جانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ تیمور نے اپنے دوستوں کو کہا کہ وہ مسکان کو ان سے ملوائے گا لیکن ایسا نہ وہ سکا۔
تیمور نے اپنے فون کو پاسورڈ لگا رکھا تھا پہلے تو پاسورڈ کے بارے میں مسکان کو پتا تھا لیکن اب اس نے اس نے بدل دیا اور جب بھی مسکان تیمور کے پاس آئی وہ ہمیشہ اپنی محبوبہ کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیتا تھا۔
اس بات پر مسکان کو بہت غصّہ آتا تھا۔ مسکان نے تیمور کا موبائل چیک کرنے کی بہت کوشش کی مگر پاسورڈ کی وجہ سے نہ دیکھ سکی۔ اب وہ کیا کرتی اپنے پیار کو کسی اور کا ہوتا دیکھ لیتی۔ لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ اس نے زندگی میں سب کچھ کھو دیا تھا اب اپنے پیار کو بھی کھو دیتی۔ وہ بہت پریشان رہتی تھی لیکن تیمور کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
پھر ایک دن مسکان کو پاسورڈ کے بارے میں پتا چل گیا اس نے موقع پاتے ہی دیکھا کہ تیمور کے موبائل میں مسکان کی تصویروں کے علاوہ کسی اور کی کوئی تصویر نہیں تھی اور نہ ہی اس نے کسی اور کا نمبر اپنے موبائل میں سیو کیا تھا۔
یہ دیکھ کر مسکان بہت خوش ہوئی اور وہاں سے چلی گئی۔ مسکان کو اب پوری بات کی سمجھ میں آ چکی تھی۔ مسکان نے سوچا کہ کیوں نہ اس کھیل کو آگے بڑھایا جائے۔ پھر جب تیمور کی سالگرہ تھی تو مسکان نے نانی جان سے کہا کہ ہم کیوں نہ اس سالگرہ میں تیمور کے دوستوں کو بھی بلائیں۔
نانی جان نے کہا کہ جیسا تم سب چاہتے ہو ویسا ہی ہو گا۔ سالگرہ کے بارے میں تیمور کو علم نہیں تھا اور اس سے پہلے ایسا ہوتا کہ تیمور کو سب سے پہلے سالگرہ کی مبارکباد مسکان کی طرف سے ملتی لیکن اس دفعہ کچھ ایسا ہواجس کا علم کسی کو بھی نہ تھا ہوا یہ کہ مسکان نے تیمور کو سالگرہ کی مبارک باد نہ دی اور اس کے سامنے ایسا رویہ اختیار کیا جیسا کہ اُسے اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ آج تیمور کی سالگرہ ہے۔ تیمور نے دوپہر تک اس بات کا انتظار کیا کہ مسکان مجھ سے بات کرنے آئے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔
پھر تیمور خود مسکان کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کیا آج کیا ہے۔ مسکان نے معصوم سا چہرا بنا کر کہا آج کیا ہے…؟ کیا تمھیں نہیں پتہ آج جمعرات ہے۔ تیمور کو بہت غصّہ آیا کہ مسکان کو میری سالگرہ کا بھی یاد نہیں ہے۔
تیمور نے پھر مسکان سے کہا کہ میں دن کی بات نہیں کر رہا آج ویسے کیا ہے۔ مسکان نے جواب دیا کیا ہے مجھے تو نہیں پتا آج کیا ہے۔ تیمور بولا تمھے نہیں لگتا کہ تم کچھ بھول رہی ہو لیکن مسکان کا جواب پھر”نہ “ میں تھا۔ تیمور نے پھر وہی سوال دہرایا لیکن کوئی خاص جواب نہ ملا۔ تیمور غصّے کے عالم میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازے پہ کنڈی لگا لی۔
مسکان نے جب تیمور کا غصّہ دیکھا تو اسے اپنے کیے پر بہت شرم آئی لیکن پھر اس نے سوچا کہ تیمور نے بھی تو میرے ساتھ اس طرح کیا تھا اگر میں اس کو سوری کہوں گی تو سارا کھیل خراب ہو جائے گا.
جب رات ہوئی تو تیمور اپنے کمرے میں ہی تھا اور سو رہا تھا۔ نانا جان بولے تیمور کو بلاؤ لیکن مسکان بولی نانا جان تیمور ابھی سو رہا ہے۔
اور ویسے بھی ابھی ہمیں بہت تیاریاں کرنی ہیں اگر تیمور کو اس بات کا پتہ چل گیا تو ہمارا سرپرائز خراب ہو جائے گا۔ وہ سویا ہوا ہے اور اس لئے ابھی اسے سونے دیں۔
جب ساری تیاریاں مکمل ہوگئی تو اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ ماموں جان نے دروازہ کھولا تو تیمور کے دوستوں کو پایا سب لوگ اکٹھے ہو گئے اور پھر تیمور کو بھی اس کے کمرے سے باہر لایا گیا جب اس نے یہ سب کچھ دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ آج گھر میں یہ سب کچھ تھا لیکن اسے کسی بھی بات کا کوئی علم نہیں تھا۔
لیکن ان سب کے باوجود وہ بہت خوش ہوا کہ کم از کم گھر والوں کو میرے سالگرہ کا دن یاد تو تھا ۔لیکن پھر اچانک تیمور کی نظر مسکان پر پڑی۔ مسکان بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور آج مسکان تیمور کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار ہوئی تھی۔
تیمور کی پسند کا رنگ پہنا ہوا تھا۔ جب تیمور نے یہ سب کچھ دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا کہ مسکان کو بھی میری سالگرہ یاد تھی اور پھر وہ سوچنے لگا کہ مسکان مجھے تنگ آ رہی تھی۔
جب کیک کاٹ لیا گیا تو سب نے تیمور کو تحائف دیے لیکن مسکان نے کوئی بھی تحفہ نہ دیا۔ تیمور نے سب کے سامنے کہا کہ مسکان تمہارا تحفہ کہاں ہے۔ نانی جان بولیں بیٹا یہ سب کچھ مسکان نے ہی کیا ہے۔ اور آج تو کیک بھی مسکان نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ ممانی جان نے یہ سنا تو انہیں بہت غصہ آیا اور وہ سوچنے لگی کہ یہ تو میرے بیٹے کی جان ہی نہیں چھوڑتی ظاہر ہے جیسی ماں ویسی بیٹی۔لیکن مسکان بولی نہیں امی جان یقیناً یہ سب میں نے کیا ہے لیکن تیمور کے لیے میرے پاس بہت اچھا تحفہ ہے۔ صرف تیمور کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ سب کے لیے۔ کیا ہوا کہ تیمور نے ہمیں اپنی محبوبہ سے نہیں ملوایا میں آپ کو اس سے ملواؤں گی۔
یہ سن کر تیمور بہت حیران ہوا کہ میری تو کوئی محبوبہ نہیں ہے تو مسکان کس کے بارے میں بات کر رہی ہے۔ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجتی ہے تو مسکان دروازہ کھولتی ہے اور پھر کسی کو اندر لے کر آتی ہے۔ سب لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ لڑکی کون ہے۔
مسکان سب کو اس سے ملواتی ہے اور پھر اس بات پر گلہ کرتی ہے کہ تم اتنی دیر سے کیوں آئی ہو۔ اس کے بعد مسکان سب کو یہ کہتی ہے کہ یہ تیمور کے ساتھ اس کی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو پنسد کرتے ہیں۔ ( اس کا نام حادیہ ہے۔ حادیہ تو تیمور کو پسند کرتی تھی لیکن تیمور حادیہ کو بلکل بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ حادیہ یورنیورسٹی میں ہر وقت تیمور کے پیچھے لگی رہتی تھی اور اس کے بارے تیمور نے خود مسکان کو بتایا تھا کہ حادیہ اسے چاہتی ہے لیکن اب تو تیمور پھنس چکا تھا)۔
نانا جان نے حادیہ سے پوچھا کہ کیا تم سچ میں ایک دوسرے کو چاہتے ہو۔ اس سے پہلے تیمور سب کو سچ بتاتا حادیہ نے کہا جی ہاں۔ نانا جان ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں۔ اور تیمور تو اکثر آپ لوگوں کے بارے میں بتاتا رہتا ہے۔ میں نے تیمور سے کتنی دفعہ کہا کہ مجھے اپنے گھر والوں سے ملواؤ لیکن تیمور مجھے ہر دفعہ ٹال دیتا تھا۔ لیکن اس دفعہ مسکان نے مجھے گھر آنے کی دعوت دی تو میں انکار نہ کر سکی۔ کیا ہوا اگر تیمور نے نہیں بلایا تو مسکان نے مجھے گھر آنے کی دعوت دے دی۔
حادیہ اچھے گھرانہ کی لڑکی تھی۔ اس کے باپ کا اپنا کاروبار تھا اور اس سلسلے میں اکثر اس کا باپ ملک سے باہر رہتا تھا۔ اور اس کی ماں کا انتقال تقریباً پانچ سال پہلے ہوچکا تھا اس لیے وہ اپنی نانی جان کے ہاں رہتی تھی کیونکہ اس کے دادا لوگ بھی ملک سے باہر رہتے تھے۔
اس سب کے بعد حادیہ کو کال آتی ہے اور وہ اپنے گھر واپس چلی جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد سب دوست بھی واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ تیمور کو مسکان کی اس حرکت پہ مزید غصّہ آ جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد مسکان تیمور کے لیے دودھ لے کر اس کمرے میں جاتی ہے تو تیمور غصّے سے مسکان کو اس بات پہ ڈانٹتا ہے کہ تم نے بہت بے ہودہ مذاق کیا ہے۔
ابھی اتنا ہی کہنا تھا کہ ممانی جان بھی ادھر آ جاتی ہے اور مسکان بات کو بدل دیتی ہے اور اس بات کا جواب کچھ اس طرح سے دیتی ہے کہ ممانی جان کو پتا نہیں چلتا کہ ان دونوں کے درمیان کیا بات ہو رہی تھی۔
مسکان ممانی جان کو دیکھ کر کہتی ہے کہ کیا ہوا اگر میں نے حادیہ کو گھر آنے کی دعوت دے دی تھی وہ مجھ سے سے اس بات پہ اصرار کر رہی تھی کہ تیمور مجھے اپنے گھر والوں سے نہیں ملواتا اس لیے میں نے حادیہ کو گھر آنے کی دعوت دی۔
آخر کار ایک نہ ایک دن تو اس نے ہمارے گھر کی بہو بننا ہے۔ یہ سن کر ممانی جان بولی تیمور بیٹا اگر حادیہ ہمارے گھر آ گی تو کیا ہوا تم نے تو نہیں پر مسکان نے تو ہمیں اس سے ملوا دیا ہے۔ اس طرح ہمیں اس کے بارے کچھ اندازہ تو ہوا۔ بن ماں کے بچی ہے کیا ہوا اگر وہ ہم سے ملنے آ گئی بہت اچھی لڑکی ہے حادیہ۔
ممانی جان تیمور سے باتیں کر رہی تھی اور پھر مسکان واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ شاید اس وقت دونوں کو ساتھ رہنا چاہیے تھا اور کسی کو بھی ان کے درمیان نہیں آنا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید ایسا قدرت کو منظور ہی نہیں تھا۔
صبح کے وقت مسکان یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی تو ممانی جان نے فون اٹھایا اور بات کرنا شروع کر دی اور جیسے ہی فون بند ہوا انہوں نے مسکان سے کہا کہ آج یونیورسٹی مت جاؤ۔ مسکان نے حیرانی سے پوچھا کہ کیوں! تو جواب ملا کہ کچھ لوگ تمہیں دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔
یہ ساری باتیں تیمور نے بھی سن لی اور وہ بہت پریشان ہوا۔ جب ناشتہ کرنے لگے تو ماموں جان نے تیمور سے کہا کہ بیٹا آج تم تیار نہیں ہوئے۔ تیمور نے جواب دیا کہ آج میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لیے میں گھر میں ہی آرام کرنا چاہتا ہوں۔
مہمانوں کی آنے کی ساری تیاریاں ہو چکی تھیں لیکن
مسکان بلکل بھی خوش نہیں تھی۔ اتنی دیر میں مہمانوں کے آنے کا وقت ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی۔ مہمان آ چکے تھے۔ سب لوگ مہمانوں کے پاس بیٹھ گئے تو مسکان تیمور کے کمرے میں گئی اور اس نے تیمور کو بتایا کہ نیچے مہمان آ گئے ہیں۔
تیمور بولا کہ میں کیا کروں تم نانی جان سے کہو کہ مجھے شادی نہیں کرنی لیکن مسکان یہ بات کس طرح کہہ سکتی تھی۔پھر جب مسکان کو مہمانوں کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے مسکان کو پسند کر لیا۔لیکن نہ تو مسکان اس رشتے سے خوش تھی اور نہ ہی تیمور۔
اتنی دیر میں تیمور بھی اپنے کمرے سے ادھر آ گیا اور کہا کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے کہ ایک ہی نظر میں آپ نے مسکان کو پسند کر لیا۔ممانی بولی بیٹا انہوں نے پہلے بھی مسکان کو دیکھا ہوا تھا اور انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا۔
ماموں جان بولے ٹھیک کہہ رہیں ہیں تمہاری ماں اور ویسے بھی بڑوں کی باتوں میں بچوں کا کوئی کام نہیں۔تیمور خاموش ہو کر بیٹھ گیا اور ان سب کی گفتگو سن رہا تھا۔
جب سب مہمان چلے گئے تو مسکان نے اپنے کمرے میں جا کر رونا شروع کر دیا۔تب ہی وہاں نانی جان آئی اور انہوں نے مسکان کو چپ کروایا اور کہا کہ بیٹا تم کیوں رو رہی ہو۔کیا بات ہے کیا کسی نے کچھ کہا ہے۔مجھے بتاؤ میرا بیٹا۔
میری جان، میری پری شاباش مسکان بتاؤ کیا بات ہے تم کیوں رو رہی ہوں ۔ مسکان کچھ نہ بولی کہ پھر وہاں تیمور بھی آ گیا اور پھر سے مسکان نے رونا شروع کر دیا۔
نانی جان بولیں! تیمور بیٹا دیکھوں ایسے کیسے رو رہی ہے۔ بلکل بچوں کی طرح۔ تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ آخر کار یہ بیٹی ہے اور ہر بیٹی کو بیاہ کر اپنے گھر جانا ہوتا ہے۔ اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ دیکھو پاگل کس طرح رو رہی ہے۔
تیمور نے دادی جان سے کہا کہ یہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مسکان ابھی پڑھنا چاہتی ہے۔ اس وجہ سے یہ رو رہی ہے۔ دادی جان اب آپ ہی کچھ کیجیے میں نے تو اسے بہت سمجھایا لیکن یہ تو مان ہی نہیں رہی۔ دادی جان آپ تو اچھی طرح جانتی ہیں کہ آج تک اس نے کوئی بھی ضد نہیں کی اگر آج وہ ضد کر رہی ہے تو آپ مان کیوں نہیں لیتیں۔ دادی جان اگر آپ اس رشتے سے انکار کردیں تو مسکان بھی خوش ہو جائے گی اور وہ دل لگا کر پڑھائی بھی مکمل کرلے گی۔
اور جب وہ اپنی پڑھائی مکمل کر لے تو کوئی میرے جیسا لڑکا دیکھ کر اس کی شادی کروا دینا یہ سن کر نانی جان بولیں تمہارے جیسا لڑکا مجھے کسی پاگل کُتے نے کاٹا ہے کہ میں اپنی پھول سی بیٹی کو تم جیسے ناکارا لڑکے کو دے دوں گی۔
جسے صرف دوسروں پر حکم چلانا آتا ہے میں تو اپنی بیٹی کے لیے کوئی چاند کا ٹکڑا دیکھوں گی۔ تیمور بولا دادی جان اب آپ کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ اتنی دور آپ آسمان سے اس کے لیے کوئی چاند کا ٹکڑا لینے جائے گی۔ نانی جان بولیں جی ہاں! میں تو اپنی پری کے لیے کوئی شہزادہ ہی لاؤں گی۔ دادی جان آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ چاند یا شہزادہ۔ نانی جان بولیں شہزادہ وہ بھی چاند جیسا۔
تیمور بولا دادی جان آپ کی نظر بھی کافی کمزور ہو چکی ہے یہ ہی نہ ہو کہ آپ چپڑاسی لے آئیں اور وہ بھی سورج جیسا۔ تیمور کا یی کہنا ہی تھا کہ مسکان نے ہسنا شروع ہو گئی۔
پھر تیمور بولا دیکھا دادی جان میں نے آپ کی پری کا موڈ اچھا کر دیا ہے۔اب بھی آپ مجھے ناکارہ کہیں تو بات ٹھیک نہیں ہے۔
میں اب بھی آپ سے کہوں گا کہ اس کی شادی مجھ جیسے لڑکے سے کرنا اگر کوئی نہ ملے تو میں اس مصیبت کو اپنے گلے باندھنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ بات ممانی جان نے بھی سن لی اور وہ جلدی سے اندر آ کر مسکان پر برسنے لگیں کہ ہم نے تمہیں گھر میں رہنے کے لیے جگہ دی اور تم تو اپنی ماں کی طرح احساس فراموش نکلی۔
میرے گھر میں ہی رہ کر میرے ہی بیٹا کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوں۔اور کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں ہونے دیا اور میرے بیٹے کو اپنی مٹھی میں اس طرح کر لیا ہے کہ آج اس نے تمہارے لیے مہمانوں سے بد تمیزی کی۔
اور ان سب کے ساتھ امی جان آپ بھی۔ آپ بھی اس مسکان کا ساتھ دے رہی تھیں۔ کیا خوب چال چلی ہے آپ لوگوں نے میرے بیٹے کو ورگلانے کی۔ لیکن میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔ ممانی جان اصل میں تیمور کی شادی کومل ( تیمور کے ماموں کی بیٹی) سے کروانا چاہتی ہیں۔ اس بارے میں سلمیٰ اور اس کے بھائی کی پہلے سے ہی بات ہو چکی تھی۔
اور سلمیٰ اس بارے میں گھر میں بات کرنے ہی والی تھی کہ حادیہ بیچ میں آ گئی۔ حادیہ کی وجہ سے ممانی جان چپ رہی کیونکہ حادیہ کے بارے میں سب گھر والوں کی رائے اچھی تھی۔ اس لیے اب اگر کومل کا ذکر ہوتا تو شاید اس میں تیمور کے لیے ہی بھلائی تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔
ممانی جان نے سوچا تھا کہ پہلے حادیہ کا قصہ ختم کر دوں گی اور اس کے بعد کومل اور تیمور کے رشتے کے بارے میں گھر میں بات کروں گی۔ لیکن جب ممانی جان نے یہ ساری گفتگو سن لی تو انہوں نے گھر میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو رشتہ مسکان کے لیے آیا ہے وہ ٹھیک ہے۔
یہ اچھا ہے رشتہ ہے اور اچھے رشتے بار بار نہیں آتے اس لیے ہمیں رشتے کو پکا کرکے جلد از جلد بات آگے بڑھانی چاہیے۔ نانی جان اور ماموں جان نے کہا کہ سلمیٰ تم ٹھیک کہہ رہی ہو اچھے رشتے بار بار نہیں ملتے۔ لیکن پھر ماموں جان نے کہا کہ اگر ان لوگوں نے شادی جلد کرتے کو کہا تو پھر کیا کریں گے۔ ابھی تو مسکان کی پڑھائی ختم ہونے میں ایک سال باقی ہے۔
ممانی جان بولیں! اگر ان لوگوں کو شادی کی جلدی ہوئی تو ہم مسکان کی شادی کردیں گے وہ شادی کے بعد اپنی پڑھائی جاری رکھے گی۔نانی جان نے کہا کہ میں اس رشتے سے خوش نہیں ہوں اس لیے ان لوگوں کو انکار کر دو۔ میری مسکان کے لیے اچھے رشتوں کی کمی نہیں ہے۔ ابھی وہ بچی ہے۔ ممانی جان بولیں جی ہاں! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔
ابھی تو مسکان بچی ہے۔ حالانکہ اس کے سارے کے سارے پر نکل آئے ہیں۔ جب وہ اڑ جائے گی تو تب شاید وہ آپ کو بڑی ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ لیکن تب کیا فائدہ۔ ممانی جان تو مسکان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ چکی تھیں۔ وہ تو پہلے سے ہی مسکان کو اچھا نہیں سمجھتی تھیں۔
لیکن اب وہ تو مسکان کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں۔ مسکان کو اپنی اس زندگی میں خوشیاں تو بہت ملی لیکن ایک خوشی کے بدلے نہ جانے کتنے غم بھی ملے تھے۔
جب بھی مسکان خوش ہوتی تو اگلے پل اس کے لیے غم تیار بیٹھے ہوتے تھے۔ اس کی خوشی تو جیسے کسی کو راس اس ہی نہیں آتی تھی۔ جیسے کسی نے اس کی خوشیوں کو نظر لگا دی ہو۔
نانی جان کے کہنے پر اس رشتے سے انکار تو ہوگیا لیکن ممانی جان نے پوری کوشش کی کہ مسکان تیمور سے دور رہے۔ مسکان گھر کے حالات سے باخوبی واقف تھیں۔ اور اس کے بعد ممانی جان کی حقارت بھری نظروں کو برداشت کرنا مسکان کے لیے مشکل ہوتا جارہا تھا۔
مسکان اندر ہی اندر سے مر رہی تھی اور اپنے آپ کو ہی کوس رہی تھی کہ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے اگر میں تیمور کے اتنا پاس نہ جاتی تو آج ایسا نہ ہوتا۔ دراصل بات یہ تھی کہ مسکان اب خود ہی پیچھے ہٹنا چاہتی تھی اور وہ ایسا کر بھی رہی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسکان نے خود کو یقین دلا لیا تھا کہ میں تیمور سے پیار نہیں کرتی اور میں اب اسکے راستے میں میں نہیں آؤں گی۔
مسکان جو ہر اتوار کے لیے اس کی پسند کے لیے کھانے بناتی تھی اس نے وہ بھی چھوڑ دیئے تھے۔ جب بھی تیمور مسکان سے بات کرنے کے لیے آتا تو مسکان اس سے اچھے طریقے سے بات نہ کرتی تھی اور ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات پہ دونوں میں جھگڑا ہو جاتا تھا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مسکان کی یونیورسٹی میں اس کے ہم جماعت نے مسکان کو پروپوز کر دیا۔ مسکان نے اس کی اس حرکت پہ اس کے منہ پہ تھپڑ مار دیا۔
لیکن مسکان نے اس کے بارے میں کس کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ لڑکا ( آکاش) مسکان کو بہت تنگ کرتا تھا۔ وہ اکثر مسکان کو کال کیا کرتا تھا۔ لیکن مسکان اس کی کال نہیں اٹھاتی تھی۔
اس کے بارے میں جب تیمور کو علم ہوا تو وہ بہت غصّے سے مسکان کے پاس آیا کیونکہ مسکان اور تیمور دونوں ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کیا کرتے تھے۔ تیمور کو بہت غصّہ تھا کہ مسکان نے اسے اتنی بڑی بات نہیں بتائی۔
تیمور نے مسکان سے بات کرنی چاہیے لیکن مسکان نے تیمور سے کہا کہ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں مصروف ہوں۔ مسکان اس وقت کچن میں تھی۔ تیمور نے مسکان کا بازو پکڑا اور اسے چھت پر لے گیا اور مسکان پہ برسنے لگا کہ تم کو کیا ہوا ہے؟
تم مجھ سے اچھے طریقے سے بات کیوں نہیں کرتی اور اتنی بڑی بات تم نے مجھے نہیں بتائی کہ کسی لڑکے نے تمہیں پروپوز کیا ہے کوئی بھی تمہیں پروپوز نہیں کر سکتا۔ مسکان سمجھی تم؟
مسکان بولی کیوں مجھے کوئی بھی پروپوز کیوں نہیں کر سکتا؟ تیمور نے جواب دیا کہ تم صرف اور صرف میری ہو۔ تم پر صرف اور صرف میرا حق ہے۔ میں کسی کو بھی ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ تم اچھے طریقے سے جانتی ہو کہ میں اپنی کوئی بھی چیز کس کو نہیں دیتا۔
مسکان نے جواب دیا کہ میں تمہاری کوئی چیز نہیں ہوں کہ تم مجھ پہ اپنا حق جماؤ اور کون سا حق؟ کس حق کی بات کر رہے ہو تیمور؟ مجھ پر کس کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور رہی بات پروپوز کرنے کی تو سن لو اور اسے ہمیشہ یاد رکھنا میں بھی آکاش کو پسند کرتی ہوں۔
کچھ ہی دنوں میں میں اس کے پروپوزل کا جواب دے دوں گی۔
آکاش بہت اچھا لڑکا ہے اور مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔
اتنے میں ہی آکاش کی کال آجاتی ہے اور مجبوراً مسکان کو یہ کال ریسیو کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر مسکان کال اٹھا کر آکاش سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔
لیکن تیمور ادھر کھڑا صرف اور صرف مسکان کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور سوچتا ہے کہ مسکان اتنی جلدی کسے بدل گئی۔ کل تک تو وہ مجھ سے پیار کرتی تھی اور آج وہ کسی اور سے۔ کیا میرے پیار کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا میرے پیار کی اب کوئی ضرورت نہیں یا پھر میرے پیار کی کوئی قیمت نہیں؟
لیکن مسکان ایسا کر کیوں رہی ہے؟ کیا میں مسکان کو خوش نہیں رکھ سکتا؟
مسکان بھی کس کو بتائیں کہ وہ یہ سب کس مجبوری میں کر رہی ہے۔ کیا ایسا کرنا اس کے لیے آسان ہے۔ اپنے پیار کو کسی کے ہاتھوں سونپ دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ لیکن مجبوریاں انسان کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑتیں ۔ آخر مسکان بھی انسان ہے۔ بار بار وہ اپنے بارے سن سن کر وہ تھک چکی تھی کہ اس کی ماں ایسی تھی ویسی تھی۔ یہ بھی ایسی ہو گی ویسی ہو گی ، ایسا کرئے گی ویسا کرئے گی۔ مسکان ان جملوں کو بدلنا چاہتی تھی۔
اس نے ہمیشہ سے ہر وہ کام کیا جس سے یہ جملے بدل جائیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس لیے اسے اتنی بڑی قربانی دینی پڑی۔ مسکان کے اب فائنل پیپرز آگے تھے۔ اور مسکان ان کی تیاری میں مصروف تھی کہ ممانی جان مسکان کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ ہم نے تمہارے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ تمہیں گھر میں جگہ دی تمہاری تعلیم مکمل کروائی۔ تمہیں ہر وہ چیز لا کر دی جس کی تمہیں ضرورت تھی۔ لیکن مسکان تم کیا کر رہی ہو؟ ہمارے احسانوں کا کیا بدلہ دے رہی ہو۔ خدا کے لیے میرے گھر کی جان چھوڑ دو۔
میرے بیٹے کو اپنے سے دور ہی رکھو۔ مسکان ممانی جان کی باتیں سن کر رونا شروع ہو گئی اور ان سے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو مجھے معاف کر دیں۔ آپ کے مجھ پر بہت احسان ہیں۔ میں ان احسانوں کا بدلہ نہیں جھکا سکتی ممانی جان آپ بے فکر رہیں۔ میں تیمور کو اپنے سے دور ہی رکھوں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔
ممانی جان بولیں اب اگر تم نے یہ وعدہ کر لیا ہے تو ایسے مرتے دم تک نبھانا۔ اپنی بات کی پکی رہنا اور میری ایک اور بات غور سے سنو۔ میں نے تمہارے لئے ایک لڑکا پسند کیا ہے۔ تمہارے پیپرز کے بعد وہ تمہیں دیکھنے آئیں گے۔ لڑکا ملک سے باہر رہتا ہے اور وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔ بہت دولت ہے اس کے پاس۔
تیمور کے پاس بھی تم صرف دولت کے لیے آنا چاہتی ہو تو میں نے تمہارے لئے ایک دولت مند لڑکا ہی پسند کیا ہے۔ اس کے بعد ممانی جان چلی جاتی ہے لیکن مسکان بہت روتی ہے کہ اب میری پسند کو دولت میں تولا جا رہا ہے۔
مسکان کے پیپرز کے بعد مسکان کے لیے جو رشتہِ آتا ہے وہ سب کو پسند آ جاتا ہے۔ نانی جان مسکان سے پوچھتی ہیں کہ کیا تم اس رشتے سے خوش ہو۔ اس سے پہلے کہ مسکان جواب دیتی، تیمور آ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس رشتے سے بالکل بھی خوش نہیں ہے۔۔۔ بلکہ بہت خوش ہے۔ آپ کیا جانیں دادی جان اس کے دل کی کیفیت۔ نانی جان یہ سن کر باہر چلی جاتی ہے تو تیمور مسکان سے کہتا ہے کہ مسکان اتنی جلدی تو شاید گرگٹ بھی اپنا رنگ نہ بدلے جتنی جلدی تم اپنے عاشق بدلتی ہو۔ یہ سن کر مسکان بہت حیران ہوگی کہ تیمور اس کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔ اور مزید کہا کہ تمہیں تو دوسروں کے دل کے ساتھ کھیلنے کا بہت شوق ہے اور تمہیں تو بہت مزہ آتا ہو گا۔
جب تمہارے دل ٹوٹے گا تو تمہیں اس کا علم ہوگا کہ محبت کسے کہتے ہیں۔ تیمور کے جانے کے بعد مسکان صرف اور صرف اس بارے میں سوچتی ہے کہ اس بھری دنیا میں صرف اور صرف تیمور ہی تھا جو اسے سمجھتا تھا اگر وہ میرے بارے ایسا سوچ سکتا ہے تو کوئی اور کیوں نہیں؟؟؟
کچھ دونوں تک مسکان کی شادی ہو جاتی ہے۔ لیکن کیا مسکان یہ شادی کے بعد والی زندگی سکون اور خوشی سے گزرے گی۔ کیا اس زندگی میں اسے وہ ساری خوشیاں مل جائے گی ؟ جن کا اسے صدیوں سے انتظار تھا۔
جس کے لیے وہ ایک ایک پل ترسی تھی؟ کیا اس کے وہ سارے خواب پورے ہو جائیں گے ؟ جن کی تعبیر وہ چاہتی ہے۔ مسکان کی شادی مجاہد نامی لڑکے سے وہ جاتی ہے۔ پہلے تو مجاہد کے بارے میں صرف گھر والوں سے ہی سنا تھا لیکن اب وہ خود مجاہد کو سمجھنا چاہتی تھی لیکن بد قسمتی سے وہ اسے نہیں سمجھ پاتی۔
وہ ملک سے باہر رہتا تھا اور ممانی جان نے کہا تھا کہ شادی کے بعد مجاہد اسے اپنے ساتھ باہر لے جائے گا۔ لیکن مجاہد کے تیور ادھر ہی ٹھیک نہیں تھے باہر کیا خاک لے کر جاتا۔
مجاہد مسکان پر بہت شک کرتا تھا اور نہ جانے مسکان کے ماضی کے بارے مجاہد کو کس طرح پتا چل گیا۔ اور اس بھیانک ماضی نے مسکان کا ادھر بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ مسکان ہر ممکن کوشش کرتی تھی کہ وہ مجاہد کو خوش رکھے لیکن مجاہد مسکان سے محبت کی بجائے نفرت کرتا تھا۔
ایک دن مسکان گھر میں اکیلی تھی تو فون کی گھنٹی بجی تو مسکان نے فون اٹھا لیا اتنی ہی دیر میں باہر سے مجاہد بھی آگیا تو اس نے مسکان کو بہت مارا اور اس پہ الزام لگایا کہ وہ اپنے عاشق سے باتیں کر رہی تھی۔
مجاہد اس کے بعد مسکان کو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مارتا تھا ۔ اس سے بتمیزی کرتا تھا۔ اور اسے دوسرے لوگوں کی طرح طنز کرتا تھا کہ تم بلکل اپنی ماں جیسی ہو۔ وہ تو شادی سے پہلے ہی بھاگ گئی تھی لیکن تم تو اس سے بھی بڑی کھیل باز ہو۔ تم نے تو شادی کے بعد بھی یہ کام جاری رکھا۔ ویسے تمہارے کتنے عاشق یے مسکان؟
یہ سوال مسکان کو بہت برے لگتے تھے۔ اب مسکان زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی لیکن مسکان صرف اور صرف اپنے یونے والے بچے کے لیے زندہ تھی۔ مجاہد نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ نا جانے کس کا گناہ پال رہی ہوں۔
مسکان یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتی تھی ؟اور وہ یہ سب کچھ کیوں برداشت کرتی تھی؟ آخر اس کی کیا غلطی تھی ۔ وہ یہ سوال کرئے تو کس سے کرے ۔ کیا کوئی اس کے ان سوالوں کا جواب دے سکتا تھا؟ اگر کسی نے مسکان کے ان سوالوں کا جواب دینا ہوتا تو وہ مسکان کو یہ سوال کرنے پہ مجبور ہی کیوں کرتے؟ ہمارا معاشرا دوسروں کو ذلیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ اس کے ماضی کا اس کے حال سے کیا واسطہ ہے۔
مسکان نے اس کے بارے میں کس کو بھی کچھ نہ بتایا تھا۔اور وہ کسی کو کچھ بتانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اور ویسے بھی کسی کو بتا کر بھی کیا حاصل ہونا تھا۔ ہمدردی! شاید کبھی نہیں۔ تیمور کی شادی کومل سے ہو جاتی ہے۔ تیمور اور کومل کی شادی کا دعوت نامہ مسکان کو ملتا ہے ۔ مجاہد پہلے تو اسے شادی پہ جانے سے روکتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اپنی ممانی سے کہہ دے کہ ہم نہیں آ سکتے۔
لیکن مسکان انکار کر دیتی ہے اس بات پر مجاہد مسکان کو بہت مارتا ہے ۔ جس کی وجہ سے مسکان کا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی چلا جاتا ہے۔
جب مسکان کو اس کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ تو اس بڑا صدمہ پہنچتا ہے اس کی خوشیاں ایک بار پھر خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس کے ارمان ایک بار پھر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔اس کی امیدوں پر ایک بار پھر سے پانی پھر جاتا ہے۔ ایک بار پھر!۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکان بیمار ہو جانے پر شادی میں شرکت نہیں کر پاتی۔ شادی کے بعد تیمور اور کومل دونوں مسکان سے ملنے کے لیے اس کے گھر آتے ہیں تو مسکان مسکان بہت بیمار ہوتی ہے۔ تیمور یہ سب کچھ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے ۔
اور اس سے مجاہد کے بارے میں پوچھتا ہے کہ وہ کدھر یے۔ تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر وہ کدھر گیا ہے۔ مسکان کچھ نہیں بولتی اور اتنی ہی دیر میں مجاہد بھی آ جاتا ہے۔ مجاہد تیمور اور کومل کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ لوگ ادھر کیسے آئے۔ آنے سے پہلے اطلاع بھی نہیں کی۔
مجاہد کو مسکان پہ بہت غصّہ آتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ مسکان نے انہیں خود بلوایا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں تھا وہ تو اتفاق تھا۔ اس کے بارے میں مسکان کو بھی کوئی خبر نہیں تھی۔
وہ کچھ دیر مسکان اور مجاہد کے پاس بیھٹے اور پھر چلے گئے کیونکہ مسکان نے انہیں رکنے کے لیے کہا ہی نہیں تھا۔ جتنی بھی دیر مسکان اور کومل ادھر بیٹھے مسکان نے اپنا رویہ ایسے ہی رکھا جیسے وہ بہت خوش ہے اور مجاہد اسکا بہت خیال رکھتا ہے۔
وقت گزرتا گیا لیکن حالات وہی رہے۔ ایک بار پھر مسکان ماں بنے والی تھی ۔ مسکان بہت خوش تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی گود پھر سے ہری کر دی ۔ کیونکہ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اب مسکان کبھی بھی ماں نہیں بن سکتی۔
لیکن اب دوبارہ سے مسکان بہت خوش تھی۔ مجاہد بھی ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ اور پھر مسکان کو اس بات کا علم ہوا کہ مجاہد نے مسکان سے دوسری شادی کی ہوئی ہے۔ اور اس نے پہلی شادی باہر کس اور لڑکی سے کی ہوئی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لڑکی کا ہی ہے۔
مجاہد نے دراصل اس لڑکی سے شادی اس کی بدولت کی وجہ سے کی تھی۔ اور اب مجاہد ساری جائیداد اپنے نام کروانا چاہتا تھا۔ لیکن اس لڑکی نے جائیداد مجاہد کے نام نہیں کی تھی اور اس وجہ سے ہی ان دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اور مجاہد واپس آ گیا اور ادھر مسکان سے شادی کر لی۔
اور جب دونوں کی صلح ہو گئی تو وہ واپس چلا گیا اور اس کی پہلی بیوی نے جائیداد اس کے نام کرنے کے لیے اک شرط رکھی کہ وہ اپنی جائیداد صرف ایک صورت میں ہی اس کے نام کرے گئی اگر وہ اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے دے۔
مجاہد نے شادی صرف اور صرف دولت کے لیے کی تھی اور وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ دولت مجاہد کا جنون تھا۔ دولت اس کا عشق تھا۔ اور اس کا پیار بھی۔
اس لیے جب اس نے اپنے باپ بننے کی خبر سنی تو اسے لگا کہ یہ بچے اس کی جائیداد کا حقدار بن جائے گا۔ اس لیے اس نے مسکان پر یہ الزام لگا کر اسے طلاق دے دی کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہے۔ اور اس کے لیے اس نے ملک واپس آ کر غلط رپورٹ بھی بنوائی اور مسکان کے گھر والوں کو دیکھا دی۔ اور مسکان کو اس کے ماموں کے گھر واپس چھوڑ دیا۔
یہ سن کر نانی جان اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اگر وہ زندہ ہوتیں تو شاید مسکان کو اس گھر میں پھر سے رہنے کی جگہ مل جاتی لیکن جب وہ ہی نہ رہیں تو مسکان کو گھر میں رہنے کی جگہ کیسے ملتی۔ تیمور کو مسکان سے بہت نفرت ہو چکی تھی۔ جو نفرت کی آگ اس کے دل میں مسکان کے لیے تھی وہ اور بھر گئی۔
مسکان کو کسی نے بھی رہنے کے لیے جگہ نہ دی،اور وہ پھر اس گھر سے چلی گئی سھ۔ پھر یوں ہوا کہ مسکان کا آکسیڈنٹ ہو گیا اور اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ مسکان کی حالت بھی نازک تھی اور اس کے بچے کی بھی۔ لیکن وہ صحت یاب ہو گئی ۔ پتا نہیں یہ اس کی خوش قسمتی تھی یا بد قسمتی۔
جس دن کومل کی ڈیلیوری تھی اسی دن مسکان کی بھی ڈیلیوری تھی۔ اور دونوں ایک ہی ہسپتال میں تھیں۔ مسکان کا صرف ایک ہی اچھا دوست تھا تیمور ۔ اور وہ بھی اس سے چھن گیا تو مسکان اپنی سب باتیں اور اپنے ساتھ ہونے والی سب زیادتیاں ایک ڈائری میں لکھتی تھی۔
جو کہ مسکان کی سالگرہ پر تیمور نے اسے تحفہ دیا تھا۔ جب مسکان کی طلاق ہوئی اور وہ گھر گئی تھی تو وہ ڈائری وہاں ہی رہ گی تھی۔ اور تیمور نے اس ڈائری کو دیکھے بغیر ہی اپنی الماری میں رکھ دیا تھا۔
مسکان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹی عطا کی مسکان بہت خوش ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے وہ سب کچھ یاد آگیا جو اس کے ساتھ ہوا تھا ۔ اس کی ماں کی وجہ سے۔
مسکان نے سوچا کہ میں اپنی بے گناہی کو ثابت نہیں کر سکی تو میری بیٹی بھی بالکل میری طرح ذلیل ہوگی اور پھر اس کی طرح کتنی نسلیں۔۔۔۔۔۔
مسکان اب کرے تو کیا کرے وہ اپنی بیٹی کو ذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔پھر جب اسے معلوم ہوا کہ ساتھ والے کمرے میں کومل کی ڈیلیوری ہوئی ہے اور اس کے بیٹے کی وفات ہوگئی ہے اور اس کے بارے میں ابھی کسی کو بھی علم نہیں ہے۔
کیونکہ کومل ابھی بھی بے ہوش تھی اور تیمور ادویات لینے گیا تھا۔ اور کوئی بھی ادھر موجود نہ تھا۔ تو مسکان نے اپنی بیٹی کو اس کے بیٹے کی جگہ رکھ کہ اور اس کا بیٹا لے کر ہسپتال سے کہیں چلی گئی۔
ناجانے اس کے بعد مسکان کہا چلی گئی۔ اس کے بارے میں کسی کو بھی کوئی خبر نہیں تھی۔ مسکان نے اپنی بیٹی کو ادھر رکھا تاکہ اس کی ماں کا ماضی اس کے مستقبل میں نہ آئے اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔۔۔
پری کی آج دسویں سالگرہ ہے اور وہ بہت خوش ہے۔ تیمور کی اچانک نظر اس ڈائری پہ پڑی اور اس نے اس ڈائری کو پڑھ لیا۔ اور مسکان کی بے گناہی ثابت ہو گئ۔مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ بہت دیر،بہت دیر۔۔۔۔۔۔۔
اور اب پچھتانے کا کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

Comments are closed.