Baseerat Online News Portal

"حاصل کی تمنا”. (افسانہ)

 

آمنہ جبیں

"یوں تو دنیا میں سب ہی محبت کے مارے ہیں۔ مگر میری محبت تو زنجیروں سے بندھی دہکتے کوئلوں جیسی ہے۔ پل پل تڑپاتی ہے مجھ کو لیکن میرے محبوب اس میں بلا کا سکون ہے۔ یہ کہتی وہ نیند کے نگر چلی جاتی ہے۔”

 

 

سائیں سائیس کرتی آوازیں ہر طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شب کا سکوت کچھ آوازوں کے ہونے سے کم ہو گیا تھا۔ رات تو چودھویں کی تھی۔ چاند بھی سفید لباس پہنے انگڑائیاں لے رہا تھا۔ کبھی ماہم کے چہرے پہ روشنی ڈال کر مسکراتا تو کبھی بادلوں میں چھپ کر اسے تکتا ہوا دور نکل جاتا۔

 

آخر یہ کونسا چاند ہے؟؟؟

یہ ماہم کے دل میں بسنے والا اس کا محبوب تھا۔ جسے وہ چاند میں تکتی تھی۔ خراماں خراماں گھر کے باہر پڑیوں پہ چلتی اسے گھورتی رہتی تھی۔ آج تکان میں لپٹی جو سوئی تو نصفِ شب میں ہلکی سی بالوں میں حرکت ہوئی۔ جیسے اسے کسی نے چھیڑا ہو۔ جیسے کانوں میں گونجا ہو۔ "کہاں ہو تم”

یہ آہٹ سی محسوس ہوئی تو وہ چونکا کر اٹھتی ہے۔

ارے کون ہے؟

خود سے یہ سوال کرتی جو اٹھتی ہے۔ جب اپنے اردگرد نظر دوڑاتی ہے۔ انسان تو کیا اسے کوئی سایہ بھی نظر نہیں آتا۔ بوکھلاہٹ میں وہ پھر سے چارپائی پہ لیٹے ہوئے یہ سوچتی ہے کہ شب کے خاموش پہر میں میرے بالوں میں خلال کس نے کیا؟؟ مجھے کون جگانے آیا تھا۔

 

اوہو آج تو چھودویں رات ہے۔۔۔۔۔۔۔

آج تو چاند نہیں!!!! آنکھوں سے اوجھل ہے۔ میرا محبوب کہاں ہے۔ وہیں مجھے جگانے آیا ہو گا۔ کیونکہ آج میں نے اپنی آنکھوں سے اس کی زیارت نہیں کی آج اپنے محبوب کی میں نے عبادت نہیں کی۔

چاند ( میرا محبوب) تو آج حسن کے دہانے پہ تھا۔ میں اسے تکنے سے قاصر رہی اور وہی مجھے اٹھانے آیا تھا۔

 

ہاں ہاں وہی مجھے نیند کے گوشوں سے نکال کر باہر لایا ہے۔۔۔۔۔۔

یہی سوچتی کبھی صحن کے ایک کونے تو کبھی دوسرے کونے میں پاگلوں کی طرح دوڑ رہی ہے۔ میرا محبوب مجھ سے ناراض ہو گیا ہو گا۔

ماہم تم ہمیشہ ہی ایسے کرتی ہو۔ تم پاگل ہو تمہاری محبت نہیں فراڈ ہے۔ تم نے ایک ڈھونگ رچایا ہے۔ اسی لیے  تم اپنے محبوب کو ناراض کرتی ہو۔

 

ہاں یہی تو ایک سراب تھا جس میں ماہم دھکے کھاتی تھی دن رات بھٹکتی تھی۔ چاند سب کے لیے نکلتا تھا۔ وہ باولی سمجھتی تھی میری محبت میں نکلتا ہے۔ وہ سب پہ اپنی روشنی کا جادو بکھیرتا ماہم دھوکے میں رہتی کہ مجھ پہ ہی اپنی ادائیں کھول رہا ہے۔ ہاں!!! یہی دھوکہ تھا جو وہ عرصے سے خود کو دے رہی تھی۔ کہ جاوید اس کا ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اسی کے لیے مسکراتا اور آہیں بھرتا ہے۔

لیکن !!!!۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس سراب سے کبھی نہیں نکلی تھی۔ کیونکہ وہ ایک پاگل مدہوش اور نازک مزاج سی لڑکی تھی۔ جو خوشیوں سے بھی ڈرتی تھی۔ اور غموں سے بھی دہل جاتی تھی۔ جاوید سے محبت اسے لاحاصل کے روپ میں ہی ہوئی تھی۔ لیکن پھر محوِ عشق جو دل ہوا۔۔۔۔

تو حاصل کی تمنا جاگ اٹھی۔ دل میں تشنگی ابھر آئی۔ روح میں چاہِ قربت پیدا ہو گئی۔۔۔۔۔۔

 

لیکن !!!

حاصل کا سفر تو بہت دردناک اور کھٹن تھا۔ جو محض سراب کے سوا کچھ نہ تھا۔ حقیقت سے زیادہ سراب اذیت ناک ہوتا ہے۔سفرِ مسلسل میں اپنا کوئی سراغ نہیں ملتا ہوتا۔ تمنائے زندگی میں اپنا آپ ختم ہو جاتا ہے۔

یہی حال تھا ماہم کا…….!!!

جب حاصل ناممکن لگا تو تصوراتی دنیا کی عادی بن کر خود کو حقیقت کے قریب کرنا چاہتی تھی۔ ہر وقت جاوید کے خیالوں کی دنیا میں کھوئی خود کو دردوالم کے زینوں کی راہ دکھا دیتی تھی۔ بس یہی سوچتی کہ صحرا میں کبھی بارش برسے گی۔ زمین کی گود سے محبت کی کونپلیں پھوٹیں گی۔ کب ہو گا ایسا ؟؟؟

جاوید جب تو آئے گا۔۔۔۔

تصور میں جاتی جذبات کی تپش میں جل کر جاوید کو پکارتی تو پکارتی ہی جاتی کہ جیسے ابھی کہیں سے آواز دے کر اسے تھام لے گا۔ جیسے ابھی کہیں سے اس کی آواز کانوں میں گونجے گی اور ماہم جی اٹھے گی۔ اس کے تصور میں پھولوں کی پتیوں میں خود کو نہلا کر رہتی۔ گجرے ہاتھوں میں پہن کر اس کے آنے کی آس لگائے رہتی تھی۔ اس کے دل میں یہ حسرتیں پھوٹتی رہتیں تھیں کہ کہیں سے جاوید آئے اور میں اس کی تعزیم میں سر کو جھکا لوں۔ خود کو سمیٹ لوں۔ اس کے حکم پہ زبان کو پیوند لگاؤں کہ کبھی کوئی لفظ منہ سے نہ نکلنے پائے۔

 

جوں جوں وقت گردشِ ایام سے گزر کر زندگی کے لمحات کو سکیڑ رہا تھا۔ماہم کو درد کے گھونٹ بھر بھر کر پینے پڑ رہے تھے۔ وہ ایسے ساحل کی مانند تھی جو سمندر سے بہت دور پانی سے ملنے کو ترس رہا ہو۔ اور اسی پیاس میں جل جل کر وحشت میں ڈوب گئی تھی۔ لاغر بدن، بوجھل زندگی سسکتی آنکھیں، شعل قدم لیے وہ ہجر کے طوفان سے ٹکراتی خود کو ختم کر بیٹھی تھی۔ جاوید کے خیال نگر گھومتی تو اس پہ ایک رقت طاری ہو جاتی۔ جیسے کسی نفس نے آ کر اسے جکڑ لیا ہو۔ یقینا اسے یونہی محسوس ہوتا کہ اس کے محبوب نے اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ پھر وہ زور دار آواز سے یہ راگ گنگناتی۔۔۔۔۔۔۔

میرے محبوب

میرے دلبرا

میرے ہم نفس

میری جاں

اے جانِ جاں

کہاں ہو تم ؟؟؟؟!!!!

آ جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں آنکھیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ کان سماعتوں میں تیری آواز کا رس گھولنا چاہتے ہیں۔ میرے ادھورے جیون کے ہم راہی !!!!!!

آ جاؤ تم کہاں ہو؟

کہ میرا دل بے قرار ہے۔ میری روح تڑپ تڑپ کر زندگی کے آخری دہانے پہ ہے۔ میں تمہیں یاد کر کر کے تمہارے خیال میں پاگل ہو ہو کے خاک ہو گئی ہوں

اے محبوب من!!!

آ جاؤ

اے قرارِ روح

آ جاؤ!!!

بس یہی گیت وہ فضاؤں کو سناتی پیا کو یاد کرتی رہتی۔ اور سراب کی دنیا کو گلے سے لگائے جی رہی تھی۔اذیت کی اس حد کو چھو لیتی کہ جیسے بدن کوئلوں پہ دہک رہا ہو اور پھر بھی مسکراہٹ سے جیا جائے۔ کانٹوں پہ جسم کا ہر پور پیوست ہو کر اسے یوں بےدردی سے گھسیٹتا کہ موت آتے آتے ڈر جاتی تھی۔ کتنی دردناک حالت تھی۔ کتنی افسردہ صورت تھی اس کی۔ کہ چہرہ رنگ ونوز کو چھوڑ کر بوسیدگی کا روپ دھار گیا تھا۔ جیسے صدیوں سے ہنسنے کی خواہش مند ہو۔ جیسے عرصے سے سکون کی متلاشی ہو۔ یوں اس کا چہرہ اب وحشت ناک تھا۔ لیکن مجال ہے کہ جاوید کے خیال سے خود کو الگ کیا ہو۔ مرنے کے قریب ہو کر بھی سراب کی بےساکھی لیے کھڑی تھی۔ اب اس کی حالت یوں ہو گئی تھی کہ اس کا محبوب جاوید تو کیا کوئی نفسِ انسانی بھی اسے محبت کی نظر سے نہیں تکنا چاہتا تھا۔ کیونکہ جاوید کے والہانہ جاودانہ عشق نے اس کا حسن وچاشنی چھین لی تھی۔ مسکراہٹ ضبط کر لی تھی۔ اب زندگی سے بیزار فقط ایک چارپائی کی زینت تھی جس پہ نہ جانے کب دم نکل جائے۔ کتنی بےبس تھی ماہم کے اپنے محبوب کی چاہ اس کے لاحاصلی کے دکھ میں خیالی حاصل پہ خود کو برباد کر بیٹھی۔ اپنا آپ قربان کر بیٹھی۔ اب ماہم موت کے قریب  تھی۔ لیکن انتظار محبوب میں راہ کو آج بھی ویران پاتی تھی۔ کبھی جاوید کی آہٹ نہ سنی تھی۔ جس کے عشق میں پھول سے خاک ہو گئی۔ حسن سے بدصورت ہو گئی تھی۔ جس کے وصال کی تشنگی لیے زندگی سے موت کا سفر بہت جلد طے کر چکی تھی۔ اس کا وہ محبوب ( جاوید) آج بھی اسے تھامنے نہیں آیا تھا۔ اسے ایک جھلک دیکھنے نہیں آیا تھا۔ اور اسی دکھ اور سراب میں ماہم اب موت سے ملنے کا بےبسی سے انتظار کرتی چند دنوں میں گوشِ قبر ہو گئی۔ جو لاحاصل تھا محبوب خیال میں اس کی قربت کا شوق پالتے ہوئے پھر ہمیشہ کے لیے ماہم خود کھو گئی..!!!!!!

 

 

اختتام!!!!

 

آمنہ جبیں

Comments are closed.